ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ
ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ عبدالعزی بن عبدمناف بن قصیٰ قرشی عبشمی،جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد یعنی جناب زینب رضی اللہ عنہا کے جوآپ کی بڑی صاحبزادی تھیں،شوہر تھے،ان کی والدہ کانام ہالہ تھا،جوخویلد کی بیٹی اور ام المومنین خدیجہ کی بہن تھیں،یہ ابوعمرکاقول ہے،ابن مندہ اور ابونعیم نے ان کی والد ہ کا نام ہندلکھاہے،ابوالعاص،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اولاد جو جناب خدیجہ کے بطن سے ہوئی،خالہ زاد بھائی تھے،ان کے نام کے بارے میں اختلاف ہے،کوئی تقیط،ہشیم اورکوئی مہشم لکھتاہے،اکثر ثقیط کے قائل ہیں۔
ابوالعاص غزوۂ بدر میں مشرکین کی طرف سے شریک ہوئے تھے،اورعبداللہ بن خیبر بن نعمان انصاری نے انہیں قیدی بنالیاتھا،جب اہلِ مکہ نے اپنے قیدیوں کا زرِ فدیہ بھیجاتھا،توان کا ذکر فدیہ عمروبن ربیع لے کر آیاتھا،جوحضرت زینب نے دیاتھا،اس میں وہ ہاربھی تھا،جوجناب خدیجہ نے بیٹی کوابوالعاص سے بیاہتے وقت دیاتھا،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا،اگرتم مناسب سمجھو،تو زینب کے قیدی کو چھوڑدو،اورفدیہ واپس کردو،صحابہ نے اس سے اتفاق کیا اورابوالعاص حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مصاحب اورخیراندیش تھے اورکفارِمکہ کے دباؤ کے باوجود انہوں نے اپنی بیوی کوطلاق نہیں دی تھی،حضورصلی اللہ علیہ وسلم ان کے اس کے اس حسنِ کردارسے متاثرتھےجب وہ رہا ہوئے،توحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عہدلیا،کہ جناب زینب کومدینے بھیج دیں گے،چنانچہ انہوں نے ایفائے عہد میں کوئی کوتاہی نہ کی،اس پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،اس نے مجھ سے سچی بات کی،وعدہ کیا اوراسے پوراکیا۔
ابوالعاص مکے میں اپنے شرک پر قائم رہے،تاآنکہ وہ فتح مکہ سے پہلےتجارت کے لیے نکلے،ان کے ساتھ مشرکین کی ایک جماعت تھی،اورقریش کا مال تجارت بھی تھا،واپسی پر ایک اسلامی سریے سے آمناسامناہوگیا،زیدبن حارثہ اس سریے کی امیرتھے،اس قافلۂ تجارت کامال لوٹ لیا گیا،اورآدمی گرفتارکرلیے گئے،ابوالعاص بن ربیع بھاگ کر مدینے پہنچ گئے اور جناب زینب کی پناہ میں آگئے۔
جب حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم،دوسرے دن نمازِفجر اداکررہے تھے،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحبزادی کی آواز سُنی،"اے لوگو!آگاہ رہو،کہ میں نے ابوالعاص بن ربیع کو پناہ دی ہے"، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کے بعد نمازیوں کی طرف منہ پھیرا،اورفرمایا آیاتم نے وہ آواز سنی ہے،جومیں نے سُنی ہے،حاضرین نے کہا،ہاں رسول اللہ،ہم نے بھی سنی ہے،فرمایا،بخدا مجھے اس سے پہلے اس پناہ کا کچھ علم نہ تھااورمسلمانوں کا ادنیٰ آدمی بھی پناہ دے سکتاہے،اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم صاحبزادی کے گھرتشریف لائے،اورفرمایا،اس کے آرام وآسائش کا خیال رکھنا، اور اس سے ہٹ کر رہنا،کہ تم اس کے لیے حلال نہیں ہو،انہوں نے عرض کیا،اباجان!ابوالعاص تو اپنامال لینے آیاہے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اہلِ سریہ کو جمع کرکے فرمایا،تم جانتے ہوکہ اس آدمی کاہمارے ساتھ کیا تعلق ہے،تم نے جو مال اس سے چھیناہے،وہ مالِ فئے ہے اور تمہارے لیے حلال ہے لیکن میں چاہتاہوں کہ تم احسان کرو اور یہ مال اسے واپس کردو،اوراگرنہ واپس کرنا چاہو تو یہ تمہارا حق ہے،اہلِ سریہ نے مال واپس کردیا،اورابوالعاص مال جمع کر کے مکے کو روانہ ہوگئے،اور لوگوں کا مال انہیں لوٹادیا،اورپھرکلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور کہنے لگے،میں اسلام قبول کرنے میں اس لیے متامل رہا،کہ تم یہ نہ سمجھ بیٹھو،کہ میری نظر یں تمہارامال ہڑپ کرنے پر لگی ہوئی تھیں،پھروہ مدینے آگئے،اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب زینب سے پھر ان کے نکاح کی تجدیدکردی،اورایک روایت میں ہے،کہ پہلانکاح ہی کافی سمجھاگیاتھا۔
ابن مندہ کاقول ہے،کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب زینب کو دوسال کے بعد،پہلے نکاح کی بناء پر ابوالعاص کے حوالے کردیاتھا،اوران کے بطن سے ایک لڑکاعلی نام اور ایک لڑکی جس کانام احامہ تھا،پیداہوئے تھے،ان کا ذکر بعد میں آئے گا۔
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ کیا،توابوالعاص ان کے ساتھ تھے،اوربعد میں جب حضرت ابوبکر کی بیعت ہوئی،توابوالعاص حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے،جناب زینب ابوالعاص کی زوجیت ہی میں فوت ہوئیں اور ابوالعاص ۱۲ہجری میں فوت ہوئے،تینوں نے ذکرکیا ہے۔
ابن مندہ کا یہ قول غلط ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسال کے بعد صاحبزادی کو ابوالعاص کے حولے کردیاتھا،کیونکہ جناب زینب بدرکے بعد مدینے آگئی تھیں،اورغزوۂ بدر ۲ہجری میں واقع ہواتھا،اور ابوالعاص ۸ ہجری میں فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے تھے،اوریہ عرصہ چھ سال پر محیط ہے۔