ابوعقیل الملیلی یا جعدی رضی اللہ عنہ
ابوعقیل الملیلی یا جعدی رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
ابوعقیل الملیلی یا جعدی رضی اللہ عنہ:ابوموسیٰ نے اذناً حسن بن احمدسے،انہوں نے ابوالقاسم بن ابوبکربن ابوعلی سے،انہوں نے ابوالحسین بن عبداللہ الترابی سے،انہوں نے ابوعمروبن حکیم سے، انہوں نے ابوجعفر محمدبن ہشام بن بجزی سے،انہوں نے احمد بن مالک بن میمون سے،انہوں نے عبدالملک بن قریب الاصمعی سے،انہوں نے ہزیم بن سفرسے،انہوں نے بلال بن اشقرسے،انہوں نے مسوربن محزمہ سے روایت کی کہ ہم لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کے ارادے سے روانہ ہوئے اور ابواء کے مقام پر اترے،سرراہ ایک ضعیف العمر آدمی سے ملاقات ہوگئی،کہنے لگا،اے سوارو!ذرا ٹھہرجاؤ،حضرت عمر رضی اللہ عنیہ نے کہا،بڑے میاں!کہوکیاکہنا چاہتے ہو، بوڑھے نے کہا،کیاتم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقائے سفرسے کہا،تم میں سے کوئی نہ بولے،بوڑھے سے مخاطب ہوکر کہنے لگے،کیاتمہاری عقل ٹھکانے پر ہے؟بوڑھے نے جواب دیا،عقل ہی مجھے یہاں تک کھینچ لائی ہے،اس پر خلیفہ نے پوچھا،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کب وفات پائی،بوڑھا،کیا رسول کریم وفات پاگئے ہیں،خلیفہ نے جواب دیا ،ہاں،اس پر بوڑھا اتنارویا،ہم سمجھے ،اس کی جان ہی نکل جائے گی،پھراس نے دریافت کیا، آپ کے بعد خلیفہ کون ہوا،خلیفہ نے جواب دیا،ابوبکربوڑھے نے کہا،بنوتمیم کا وہ کمزورساآدمی، حضرت عمرنے کہا،ہاں وہی،کیاتم میں وہ موجودہیں،کہانہیں،کیاوہ فوت ہوچکے ہیں،ہاں فوت ہوگئےہیں،اس پر اتنارویا کہ اس کی آوازگلوگیرہوگئی،ابوبکرکاجانشین کو ن ہوا؟عمربن خطاب، بوڑھے نے کہا ،انہیں بنوامیہ کا وہ سفید رنگ آدمی جو بڑا حلیم الطبع اورمیل جول رکھنے والا تھا،کیا نظر نہیں آیا؟(بوڑھے کا اشارہ حضرت عثمان کی طرف تھا)خلیفہ نے کہا،ہاں معاملہ کچھ ایساہی ہوا،ایسا معلوم ہوتاہے،ابوبکرنے عمرکی دوستی کا پاس رکھا،اورحکومت اسے دیدی،کیاتم میں عمرموجود ہے، ہاں، جوآدمی تم سے باتیں کررہاہے،وہ عمرہی ہے،بوڑھا کہنے لگامیری امداد کر،کیونکہ میراکوئی امدادی نہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا،تم کون ہو،تاکہ میری امداد تم تک پہنچ سکے،اس نے جواب دیا،میراتعلق بنوملیل سے ہے،میں نے حضورِ اکرم سے بنوجعل کے پشتے پر ملاقات کی تھی، آپ نے مجھے اسلام کی دعوت دی ،جومیں نے قبول کرلی،پھرآپ نے مجھے ستوپلائے پہلے خود نوش جان فرمایا،آخرمیں مجھے عطاکیا،چنانچہ جب بھی بھوک لگتی ہے،وہ شکم سیری یاد آتی ہے،اورجب بھی پیاس لگتی ہے،وہ سیرابی یاد آتی ہے اور اسی طرح جب گرمی کی آگ بھڑکتی ہے،تواس ٹھنڈک کی یاد سےدل کو بہلاتاہوں،پھرمیں نے کوہ ابیض کی چوٹی پر بکریوں کا ایک ریوڑپال لیا،نماز پڑھتا اور رمضان کے روزے رکھتا،تاآنکہ ہم پر قحط نازل ہوا،چنانچہ اس ریوڑ میں سے صرف ایک بکری بچی،جس کے دودھ پر ہم گزاراکرتے تھے،گزشتہ رات بھیڑئیے نے اسے زخمی کردیا، ہم نے اسے ذبح کیا،جس کاکچھ حصہ لئے ہم آپ کے پاس پہنچے ہیں،ہماری امدادکیجئے خداآپ کا حامی و ناصر ہو، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا،مجھے تم فلاں چشمے پر ملنا،میری امدادتم تک پہنچے گی۔
مسورسے مروی ہے،ہم پڑاؤ پر اُترے،میں دیکھ رہاتھا،کہ خلیفہ کی آنکھیں پیچھ سڑک پر لگی ہوئی تھیں،انہوں نے اپنی ناقہ کی مہارپکڑی ہوئی تھی،کھانانہیں کھارہے تھے اور بوڑھے عرب اوراس کے ساتھیوں کا انتظار کررہے تھے،جب باقی لوگ پہنچ گئے،توحضرت عمر نے چشمے کے مالک کو بُلایا، اور اس نے بوڑھے عرب کاذکرکیااورکہاکہ جب شیخ موصوف یہاں تیرے پاس پہنچے،تواس کو روک لینا،اورمیرے واپس آنے تک اس کے طعام و قیام کا بندوبست کرنا۔
مسورسے منقول ہے کہ ہم حج سے فراغت کے بعد لوٹے اور اس مقام پر اترے تو خلیفہ نے چشمے کے مالک کو بلاکرشیخ کے بارے میں دریافت کیا،اس نے کہا،کہ شیخ اس کے پاس آگیاتھا،اور اسے سخت تپ تھی،وہ تین باربیمارہوا،آخرکاروہ مرگیا،اورمیں نے اسے دفن کردیا،اوریہ ہے اس کی قبر،راوی بیان کرتاہے،گویامیں اب بھی خلیفہ کو دیکھ رہاہوں،یہ سنتے ہی وہ کودکراُٹھے ،اس کی قبرپرجاکر کھڑے ہوئے،فاتحہ پڑھی،پھراسے گلے سے لگالیااورخوب روئے،شیخ کے اہل و عیال کو ساتھ لیا اور مدینے آگئے اورجب تک زندہ رہے،ان کی پرورش کرتے رہے۔
ابوعمراورابوموسیٰ دونوں نے ان کا ذکرکیاہے،لیکن فرق یہ ہے کہ ابوعمرنے اختصار سے کام لیا ہے اورابوموسیٰ نے پورا واقعہ بیان کیاہے۔