ابوعطیتہ الوداعی،شامی صحابہ میں شمارہوتے ہیں،ان کی صحبت میں اختلاف ہے،طبرانی اورمطین نے انہیں صحابہ میں شمارکیاہے۔
ابوموسیٰ نے اجازۃً ابوغالب کوشیدی سے،انہوں نے ابوبکربن ریدہ سے،انہوں نے ابوالقاسم طبرانی سے،انہوں نے ابراہیم بن محمد بن عوف الحمصی سے،انہوں نے محمد بن مصفی سے،انہوں نے بقیہ سے،انہوں نے بجیر بن سعدسے،انہوں نے خالد بن معدان سےروایت کی کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک مرنے والے کا ذکر ہورہاتھا،آپ نے دریافت فرمایا،آیاتم سے کسی نے اسے کوئی نیک کام کرتے دیکھاہے،ایک آدمی نے گزارش کی ،یارسول اللہ !میں اور وہ ایک رات، اللہ کی راہ میں بغرض چوکیداری جاگتے رہے تھے،حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ مجلس کے ساتھ اُٹھے اور آپ نے اس کی نمازجنازہ پڑھائی،اورجب اسے قبرمیں اتاراگیا،توآپ نے اس پر مٹی ڈالتے ہوئے فرمایا،تمہارے ساتھیوں کا گمان ہے،کہ تم دوزخی ہو،لیکن میں اس امرکی شہادت دیتا ہوں کہ تو جنتی ہے،اس کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کرفرمایا،اے عمر! لوگوں کے اعمال کی چھان بین نہ کیاکرو،بلکہ ان کی فطرت کاکھوج لگایاکرو۔
اوراسی مضمون کی حدیث ابوالمنذر سے بھی مروی ہے،امام احمد بن حنبل لکھتے ہیں،کہ ابو عطیہ ہمدانی اور الوداعی دونوں ایک ہیں،اوران کانام مالک بن ابوحمزہ تھا،اوریہ مالک بن عامر ہیں،ایک روایت میں ہے کہ وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے تھے،ابونعیم ،ابوعمراورابوموسیٰ نے ان کا ذکرکیا ہے۔