ابوبشیر انصاری حارثی یا انصاری ساعدی یا انصاری مازنی،ان کے صحیح نام کا علم نہیں ہوسکا،ایک روایت میں ان کا نام قیس بن عبید بن حُرَیر بن عمرو بن جعداز بنومازن بن نجار ہےاور بیعت رضوان میں ان کی موجودگی ثابت نہیں، ان سے ان کی اولاد کے علاوہ عباد بن تمیم،محمد بن فضالہ اور عمار بن غزیہ نے روایت کی کہ ہمیں ابوالحرم مکی بن ریان النحوی نے باسنادہ یحییٰ بن یحییٰ سے،انہوں نے مالک بن انس سے،انہوں نے عبداللہ بن ابوبکر سے،انہوں نے عباد بن تمیم سے،انہوں نے ابوبشیر انصاری سے روایت کی،کہ وہ ایک سفر میں حضورِ اکرم کے ساتھ تھے،آپ نے ایک قاصد بھیجا (عبداللہ بن ابوبکرکہتے ہیں کی ان کا خیال ہے،کہ ابوبشر انصاری نے کہاکہ لوگ قیلولہ کررہے تھے) اور فرمایا کہ قربانی کے جن جانوروں کے گلے میں قلاوے ڈالے گئے ہیں،وہ کاٹ دیئے جائیں،یحییٰ کہتے ہیں ،میں نے امام مالک کو کہتے سُنا،میں یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہوں۔
سعید نے ان سے روایت کی کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے طلوع آفتاب کے وقت سورج کے نکل آنے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے،اسی طرح ان سے عمارہ بن غزیہ نے روایت کی کہ حضورِ اکرم نے مدینہ کے اس حصے کو جو دو سنگ لاخ چٹانوں کے درمیا ن ہے قابلِ احترام قراردیا ہے،اور یہ حدیث بھی ان سے مروی ہے ،کہ گرمی جہنم کی آگ کا جھونکا ہے،تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔
ابوعمر کا قول ہے کہ ان تمام روایات کا راوی ایک شخص ہے،بعض ان احادیث کو دو راویوں سے اور بعض تین سے منسوب کرتے ہیں،لیکن صحیح بات یہ ہے ،کہ تینوں احادیث کا راوی ایک ہی ہے۔
بروایت خلیفہ،ابوبشیر کی وفات وقعۂ حرہ کے بعد ہوئی،انہوں نے طویل عمر پائی تھی ،اورایک روایت کے مطابق ان کی وفات چالیسویں سالِ ہجری میں ہوئی،اور پہلی روایت اصح ہے،کیونکہ یہ واقعہ حرہ میں موجود تھے،خلیفہ کہتے ہیں کہ وہ انصار میں کسی ایسے آدمی کو سوائے حارث بن خزمہ بن عدی کے نہیں جانتے،جس کی کنیت ابو بشیرہو،بقول امیر ابونصر حُرَیر کی حا پر پیش اور رَا پر زَبر پڑھناہوگی۔