ابوالدرداء ،ان کانام عویمربن مالک بن زید بن قیس بن امیہ بن عامر بن عدی بن کعب بن خزرج بن حارث بن خذرج تھا،ایک روایت کے رُو سے ان کا نام عامر بن مالک تھا،اورعویمرلقب ،اورعویمر کے ترجمے میں ہم تفصیل سے لکھ آئے ہیں،ان کی والدہ کا نام محبہ دخترواقدبن عمرو بن اطنابہ تھا، انہوں نے قبولِ اسلام میں ذرادیرکی تھی،جبکہ ان کے گھرکے سب لوگ اسلام قبول کرچکے تھے، انہوں نے حسنِ عمل سے اسلام کی خدمت کی،یہ فقیہہ،دانش اور حکیم تھے،رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں اور سلمان فارسی میں مواخات قائم کرد ی تھی،حضورِاکرم نے فرمایاتھا، ابوالدرداء میری امت کا فلسفی ہے،غزوۂ ِاحد کے بعد تمام غزوات میں شریک رہے،البتہ غزوۂ احد میں ان کی شمولیت کے بارے میں اختلاف ہے۔
عبداللہ بن احمد خطیب نے جعفر بن ابومحمد قاری سے،انہوں نے ابوالقاسم علی بن حسین بن محمد بن عبدالرحیم سے،انہوں نے محمد بن حسن بن عبدان سے،انہوں نے عبداللہ بن بنتِ منیع سے،انہوں نےہدبہ سے،انہوں نے ابان العطار سے،انہوں نے قتادہ سے،انہوں نے سالم بن ابوالجعد سے، انہوں نے معدان سے،انہوں نے ابوالدرداء سے روایت کی کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے صحابہ سے دریافت فرمایا،کیاتم قرآن کا تیسرا حصہ ایک رات میں پڑھ سکتے ہو،ہم نے عرض کیا، یارسول اللہ ،کافی مشکل اور وقت طلب کام ہے،حضورِاکرم نے فرمایا،خدانے قرآن کریم کو تین حصوں تقسیم فرمادیا ہے،چنانچہ ایک حصہ قُل ھُواللہُ اَحَدہے۔
جبیربن نفیر نے عوف بن مالک سے روایت کی،کہ انہوں نے خواب میں ایک سبزہ زار میں ایک مٹیالےرنگ کا گنبد دیکھا،جس کے اردگِرد کثیرالتعدادبکریاں کھجوریں چرتی پھرتی تھیں،میں نے دریافت کیا،یہ عالی شان گنبد کس کا ہے،کسی نے عبدالرحمٰن بن عوف کا نام لیا،ہم نے تھوڑی دیر تک انتظار کیا،تووہ اپنے مکان سے نکلے،ہم نے کہا،اے ابن عوف!خدانے یہ محل تمہیں قرآن کی برکت سے دیا ہے،اگر تم اس ٹیلے کے اوپرچڑھ کردیکھو،توجوکچھ اللہ نے ابوالدرداء کوعطافرمایا،وہ ایسی چیزہے،جس کا تم تصوّر بھی نہیں کرسکتے،کیونکہ وہ دنیاکودونوں ہاتھوں اور سینے سے دھکیل کر دُور پھینکتا ہے۔
وہ حضرت عثمان کے زمانۂ خلاف میں دمشق کے قاضی بنادیئے گئے تھے اور خلیفہ کی شہادت سے دو برس پہلےفوت ہوگئے تھے،ابوعمر نے ان کا ذکر کیا ہے۔