ابوفاطمہ دوسی یاازدی یابشی یا ضمری،بقولِ ابوعمران کانام عبداللہ تھا،لیکن روایت مشکوک ہے،شام سے مصر چلے گئے اوروہاں گھربنالیا،ایک روایت کی رُو ست وہ
ازدی شامی تھا،کسی نے یشی مصری لکھا ہے،ابن ِیونس کے مطابق ازدی یشی تھے،حالانکہ وہ دوسی ہیں،فتح مصر میں شریک تھے،ان سے کثیر بن کلیب اوراباس بن ابوفاطمہ
نے روایت کی۔
مسلم بن ابوعقیل مولیٰ زبیر نے عبداللہ بن ایاس بن ابوفاطمہ دوسی سے،انہوں نے اپنے والدسے، انہوں نےداداسےروایت کی کہ وہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی
خدمت میں حاضر تھےکہ آپ نے فرمایا،تم میں سے کون ایساہے،جوہمیشہ تندرست رہناچاہتاہےاوربیمار نہیں ہوناچاہتا،ہم سب نے کہا،یارسول اللہ،ہم سب یہی چاہتے ہیں
اورہم نے آپ کے چہرے میں ناگواری کے اثرات دیکھے،حضورِاکرم نے فرمایا،کیاتم بھٹکے ہوئے اونٹ بنناچاہتے ہو؟صحابہ نے عرض کیا،نہیں یارسول اللہ!فرمایا،کیاتم
نہیں جانتے،کہ تمہاراشمار اصحاب البَلاء والکفارات میں ہو،بخدا جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو بیماری میں مبتلاکرتاہے،تو اس میں بھلائی مقصود ہوتی ہے،کیونکہ
خدااپنے بندے کو کسی ایسےمقام پر اُٹھاناچاہتاہےجس تک رسائی کا راستہ اس خاص ابتلاسے ہوکرگزرتاہے۔
اس حدیث کواس ترجمے میں ابونعیم اورابوعمرنے ذکرکیاہے،علاوہ ازیں ابوعمرنے حارث بن یزید سے،انہوں نے کثیرالاعرج سے،انہوں نے ابوفاطمہ سے حدیث السجودروایت کی
ہے جسے ہم اس ترجمے کے بعد ذکرکریں گےلیکن ابنِ مندہ نے ان سے کوئی حدیث روایت نہیں کی،ہاں اتناضرور اورکہا،کہ ابوفاطمہ سے کثیر بن مرہ اورعبدالرحمٰن جیلی
نے روایت کی ہے،اورابن یونس کی وہ بات لکھ دی،جوہم اوپر لکھ آئے ہیں،تینوں نے ان کا ذکرکیاہے،رہادوسی اور ازدی کا قصہ،یہ دونوں ایک ہیں،اوران میں کوئی
تضادنہیں،کیونکہ دوس بنوازدکاذیلی قبیلہ ہے،اورانیس بن ابوفاطمہ اورایاس بن ابوفاطمہ کے تراجم میں ہم ان کے بارے میں زیادہ تفصیل سے لکھ آئے ہیں۔