ابوالغادیہ مزنی،بروایتے یہ اول الذکرسے مختلف آدمی ہیں
ابوموسیٰ نے کتابتہً حسن بن احمدسے،انہوں نے احمد بن عبداللہ بن احمدسے،انہوں نے عبدالملک بن حسن سے، انہوں نےاحمد بن عوف سے،انہوں نے صلت بن مسعودسے،انہوں
نے محمد بن عبدالرحمٰن طفاوی سےروایت کی کہ انہوں نے عاص بن عمرطفاوی سے سناکہ ابوالغادیہ،حبیب بن حارث اور ام ابوالغادیہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں حاضرہوئے اورایمان لےآئے،ان میں سے خاتون نے عرض کیا،یارسول اللہ،مجھے کوئی نصیحت فرمائیے،آپ نے فرمایا،ایسی بات کہنے سے پرہیز کرو،جس سے سننے
والے کے کانوں میں زہر پھیل جائے۔
ابوموسیٰ نے ابوغالب سے،انہوں نے ابوبکربن زیدہ سے،انہوں نے ابوالقاسم سلیمان بن احمد سے، انہوں نے ابوزرعہ دمشقی اورابوعبدالملک قرشی اورجعفر الفریابی
سے،انہوں نے محمد بن عائد سے،انہوں نے ہیثم بن حمید سے،انہوں نے حفص بن غیلان ابومعبدسے،انہوں نے جنادبن حجر سے،انہوں نے ابوالغادیہ سے روایت کی،حضورِاکرم
نے ارشادفرمایا،جلدی ہی میرے بعدایسے فتنے اُٹھ کھڑے ہوں گے،کہ قائدے میں وہ بادیہ نشین ہوں گے،جونہ توکسی کا خون بہائیں گے،اور نہ کسی کے مال کو ضائع کریں
گے،ابونعیم اورابوموسیٰ نے ان کا ذکرکیاہے۔
ابوموسیٰ لکھتے ہیں،کہ ابونعیم نے دونوں حدیثوں کو ایک ترجمے میں جمع کردیاہےاحتمال ہے کہ ہر دو مختلف آدمی ہوں،لیکن ابن اثیر لکھتے ہیں،کہ میرے پاس
ابونعیم کی کوئی ایسی کتاب نہیں کہ جس میں الغادیہ کے ترجمے میں دوسری حدیث مذکورہو،اگردونوں حدیثیں ایک ترجمے میں مذکورہیں، تو اس کامطلب یہ ہوگا،کہ
ابوالغادیہ جہنی اورمزنی دونوں ایک ہیں،کیونکہ حدیث ثانی کا مطلب نہی عن القتل ہے،اوریہ امر جہنی کی حدیث میں موجودہے،ہاں ان کے سلسلۂ نسب میں راویوں میں
اختلاف ہے،کوئی جہنی لکھتاہے اورکوئی مزنی،علاوہ ازیں ابونعیم نے حتمی طورپر ایک کودوسرے سے مختلف نہیں ٹھہرایا،بلکہ صرف اتناکہا،قیل انہٗ غیرالاول،واللہ
اعلم۔