ابوقیس بن حارث بن قیس بن عدی بن سعدبن سہم القرشی السہمی،وہ سعدبن سہم کی اولادسے تھے نہ کہ سعیدکی،اورقیس بن عدی بلامعارضہ قریش کاسردارتھا،اورابوقیس
سابقین اولین سے تھے، اورمہاجرین حبشہ میں شامل تھے۔
ابوجعفربن سمین نے باسنادہ تایونس،انہوں نے ابن اسحاق سے بہ سلسلہ اسمائے مہاجرین حبشہ ازبنوسہم،ابوقیس بن حارث بن قیس السہمی کانام
لیاہے،اورمزیدتحریرکیاہے،کہ ابوقیس حبشہ سے واپس آئےاورغزوہ اُحد اوربعدکے غزوات میں شامل رہے،ابنِ اسحاق کے مطابق،ابوقیس بن حارث کانام عبداللہ
تھا،ابوعمرکہتےہیں،ابن اسحاق سے مروی ہے کہ عبداللہ ابوقیس کابھائی تھا،اور جوکچھ ہم نے ابنِ اسحاق کے مغازی میں دیکھاہےانہوں نےمہاجرین حبشہ میں عبداللہ بن
حارث بن قیس بن عدی کا ذکرکرکےابوقیس بن حارث بن قیس کانام لکھاہے،اس طرح وہ ان کے بھائی بنتےہیں،اوران کانام نہیں لکھا،اوران کا والد حارث ان لوگوں میں
شامل تھا،جن کاذکرقرآن کی اس آیت میں ہے،
"الذین جعلواالقران عفین"ابوقیس جنگ یمامہ میں شہید ہوگئے تھے۔
عبیداللہ بن احمدنے باسنادہ تایونس ابن اسحاق سے بہ سلسلہ شرکائے معرکہ یمامہ ازبنوسہم ابوقیس بن حارث کانام لیاہے،تینوں نے ان کا ذکرکیاہے۔
ابوقیس جہنی،بقول ابنِ مندہ،ابوقیس حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ فتح مکہ میں موجود تھے،وہ صحرامیں گزربسرکرتے تھے،اورامیرمعاویہ کی خلافت کے
آخرتک موجودتھے،یہ محمدبن عمرالواقدی کا قول ہے۔
تینوں نے ان کاذکرکیاہے،ابوعمرکہتے ہیں،ابن مندہ نے ان کا ذکرکیاہے،اورلکھاہے،کہ وہ"معرکہ یمامہ میں موجودتھےاورامیرمعاویہ کی خلافت کے آخرعہدتک زندہ
رہے"،یہ کتنی غلط بات ہے، جسےابن مندہ نے واقدی سے منسوب کیاہے،کیونکہ امیرمعاویہ کی خلافت کا خاتمہ ساٹھ سالِ ہجری میں ہوا،اورمعرکہ یمامہ اس سے پچاس برس
پہلے واقع ہواتھا،خداہمیں ایسےاندھے تناقض سے محفوظ رکھے۔
ابوموسیٰ لکھتے ہیں،کہ ابوقیس جہنی فتح مکہ میں موجودتھے،حافظ عبداللہ نے ابوقیس بن حارث کے ترجمے میں ان کا ذکرکیاہے،اوردونوں کو خلط ملط کردیاہے۔
ابنِ اثیرلکھتے ہیں،یہ ہے رائے ابوعمراورابوموسیٰ کی دربارہ ابن مندہ لیکن یہ ان کی بہت بڑی بے انصافی ہے،زیادہ سےزیادہ ابنِ مندہ کے بارے میں وہ یہ کہہ
سکتے ہیں کہ انہوں نے سہمی اور جہنی کے تراجم میں کسی بہترطریقےسےامتیازنہیں کیااوریہ کوئی ایسی کوتاہی نہیں کہ انہیں موردِ الزام ٹھہرایاجائےاورجس
طریقےسےدونوں نے ابنِ مندہ کا ذکرکیاہے،اس میں اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں،اوردونوں تراجم میں ہم نے اس لفظ کوایک ہی طرح بیان کیاہے،تاکہ اس کا عذر واضح
ہوجائے،اوریہ کہ اس سے کوئی غلطی سرزدنہیں ہوئی،علاوہ ازیں اس کی کتاب کے جو صحیح نسخے میرے پاس ہیں ان میں ابنِ مندہ نے دونوں تراجم کوبالوضاحت علیٰحدہ
علیٰحدہ لکھاہے اوردونوں تراجم میں نام کو جلی قلم سے لکھاہے،لیکن ابونعیم اس نسخے کی وجہ سے جواس کے پاس ہے یہ نہیں سمجھ سکا،کہ ابوقیس دوہیں،اس لئے وہ ان
دوکوایک سمجھااورمعاملہ گڑبڑہوگیا،چنانچہ اسے ابن مندہ نے ناپسندیدگی سے مجبورکیا،کہ وہ اس کاذکرکرے،اس کے بعد ابوموسیٰ نے ابوعمرکے تتبع میں وہی بات سوچے
سمجھے بغیرکہہ دی،ورنہ ابن مندہ کی جو کتاب اس کے پاس ہے،وہ کسی طرح بھی ان کے ادعاکی حمایت نہیں کرتی،ابن مندہ کی وہ عبارت جوہم نے نقل کی ہے،وہ ابنِ مندہ
کے دعوٰی کو ثابت کرتی ہے،میں نے ان کی عبارت کو سہمی کے ترجمے کے آخر میں منفرداًنقل کیاہےاورجہنی کے ترجمے کے شروع میں،تاکہ اس کا عذر واضح ہوجائے۔