ابوقیس صیغی بن اسلت انصاری رضی اللہ عنہ
ابوقیس صیغی بن اسلت انصاری رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
ابوقیس صیغی بن اسلت انصاری رضی اللہ عنہ،ازبنووائل بن زید،بھاگ کر مکے چلے گئے تھے،اور فتح مکہ تک وہیں قریش کے پاس ٹھہرے رہے،ان کا ذکر باب صاد میں گزرچکاہے۔
زبیربن بکارکاقول ہے کہ ابوقیس کا نام حارث یا بروایتے عبداللہ تھا،اورزبیر نے اسلت کا نام عامربن حشم بن وائل بن زید بن قیس بن عامربن مرہ بن مالک بن اوس لکھاہے،لیکن اس میں شُبہ ہے، اورصحیح یہ ہے کہ ابوقیس نے اسلام قبول نہیں کیا،ابن کلبی نے بھی اس کا نسب اسی طرح بیان کیا ہے،ایک روایت میں ہے کہ جب حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی،توابوقیس نے ایمان لانےکاارادہ کیا،وہ زمانہ جاہلیّت میں بھی خداکی وحدانیت کاقائل تھا،اورخودکوحنفیہ گروہ کا فرد کہتا تھا۔
جب حضورِ اکرم ہجرت کر کے مدینے تشریف لائے اورابوقیس قبول اسلام کے لئے آپ کی خدمت میں حاضرہونے کوروانہ ہوا،توراستے میں اسے عبداللہ بن اُبی مل گیا،اوراس نے کہا،تمہیں ہماری ہمسائیگی میں ہرطرح کی پناہ حاصل رہی ہے،کبھی تم قریش کے حلیف بن جاتے ہو،اور اب تم محمدکے پیروکاربننے جارہے ہو،ابوقیس کوغصہ آگیاکہنے لگا،اب میں محمد کے پیروؤں میں شامل ہونے والاآخری آدمی ہونگا،کہاجاتاہے،کہ جب وہ مرنےلگا،توحضورِاکرم نے اسے کہلابھیجا،اگرتم اب بھی کلمئہ شہادت پڑھ لو،تومیں قیامت میں تمہاری شفاعت کرسکوں گاکہتے ہیں،اسے کلمئہ شہادت پڑھتے سناگیاایک روایت میں ہے کہ ابوقیس نے حضورِاکرم سے اسلام کے بارے میں کئی سوالات کئے،جن کے جوابات سے وہ مطمئن ہوگیا،اوراس نے اپنے بارے میں غوروخوض کا وعدہ کیا،اس دَوران میں اس کی ملاقات عبداللہ بن اُبی سے ہوگئی،کہاں سے آرہے ہو،ابوقیس نے حضورِاکرم کانام لیا،کہ آپ وہی نبی ہیں جن کے بارے میں یہود کے علماء ہمیں بتایاکرتےتھے، عبداللہ بن اُبی کہنے لگا،تم خزرج کی جنگ سے گھبراگئے ہو،اس پر ابوقیس نے کہا،میں اس سال کے اختتام تک اسلام قبول نہیں کروں گا،چنانچہ وہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہوا،اوردس ماہ بعد فوت ہوگیا،ایک روایت میں ہے کہ موت کے وقت اسے توحید الٰہی کاذکرکرتے سُناگیاحجاج نے ابنِ جریح سے ،انہوں نے عکرمہ سے روایت کی،کہ ولاتنکحوا مانکح اٰباؤکم ،آیت کبیشہ دختر معین بن عاصم کے بارے میں نازل ہوئی،جوبنواوس سے تھیں، جب ان کا شوہر ابوقیس مرگیاتواس کے بیٹے نے اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کرناچاہا،چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی۔
عدی بن ثابت کا قول ہے کہ جب ابوقیس مرگیا،تواس کے بیٹے نے اپنی سوتیلی والدہ سے نکاح کرناچاہا، کبیشہ نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکر صورتِ حال بیان کی کہ ابوقیس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا مجھ سے نکاح کی خواہش کرتاہے،حالانکہ وہ اپنے قبیلے کے صالح افراد میں سے ہے،میں نے اسے کہا ہے کہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جورسول کریم کی خواہش کے خلاف عمل کریں،حضورِاکرم نے سکوت اختیار کیااورمذکورہ بالاآیت نازل ہوئی، بایں تقدیر وہ پہلی عورت ہیں،جنہیں اپنے سوتیلے بیٹے سے نکاح کرنے سے منع کردیاگیا۔
ابوعمراورابوموسیٰ نے ان کاذکرکیاہے،لیکن ابوموسیٰ نے اختصارسےکام لیاہے،اورابوعمر نے اس ترجمے کے تحت زواج امراءۃ الاب میں اس قصّے کاذکرکیاہے،اورابوقیس انصاری کا ترجمہ نہیں لکھا اوردونوں کوایک شمارکیاہے۔
ابونعیم نے اس قصے کو ابوقیس انصاری کے ترجمے میں بیان کیا ہے،اورابوقیس بن اسلت کا ذکرنہیں کیا،ابوموسیٰ نے دونوں کے علیٰحدہ علیٰحدہ ترجمے لکھ ہیں،اورابن سلت کے ترجمے میں لکھاہے،کہ جعفرمستغفری نے ابن جریح سےذکرکیاہےکہ عکرمہ سے مذکورہےکہ ابوقیس اوراس کے والد کی بیوی کبیشہ دخترمعین بن عاصم کے بارے میں لایحل لکم ان ترثواالنساءکرھا ، آیت نازل ہوئی،اورابوقیس انصاری کے ترجمے میں اس قصے کاذکرکیاہے،گویااس نے دونوں کو علیٰحدہ علیٰحدہ شمارکیا ہے،اوراگرابوموسیٰ دوترجمے نہ لکھتا،تومیں ایک ہی ترجمے پراکتفاکرتا،ہم لکھ آئے ہیں کہ ابوعمراورابونعیم نے بھی دوترجمے لکھے ہیں،بایں امتیازکہ ابونعیم نے ان کا نسب نہیں لکھا، اورچونکہ ابوموسیٰ نے دوترجمے تحریرکئے ہیں،اس لئے ان کے تتبع میں ہم نے بھی ایساہی کیاہے، تاکہ ہم سے کوئی کوتاہی نہ ہوجائے۔