ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ
ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
ابوطلحہ انصاری،ان کا نام زیدبن سہل انصاری نجاری تھا،ہم ان کا نسب ان کے نام زید کے ترجمے میں بیان کرآئے ہیں،یہ بیعت عقبہ اور غزوۂ بدر میں موجودتھے،ابوجعفرنے باسنادہ یونس سے،انہوں نے ابن اسحاق سےبہ سلسلۂ شرکائے غزوۂ بدرازبنوخزرج ابوطلحہ کاجوبنومالک بن نجارسے تھے،ذکرکیاہے،ان کا نسب زید بن سہل بن اسود بن حرام تھا،ابن اسحاق نے بھی یہی لکھاہے۔
جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آئے تو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ جراح اورابوطلحہ میں سلسلۂ مواخات قائم فرمادیا،یہ سب معرکوں میں شریک رہے،یہ بہترین تیراندازبہادرسپاہی تھے،غزوۂ احد میں انکی کارگزاری قابلِ تعریف رہی،وہ حضورِاکرم کا بچاؤ اپنے آپ کو ڈھال بنا کر کرتے اور آپ کے آگے کھڑے ہوکرتیراندازی کرتے،اوراپنی چھاتی سے سپرکاکام لیتے،تاکہ حضورِ اکرم کوکوئی گزندنہ پہنچے،اورکہتے،آپ کی گردن کے آگے میری گردن اور ذات کے سامنے میرا جسم ہے،حضوراکرم سنکرفرماتے کہ لشکر میں ابوطلحہ کی آواز سوآوازوں پر بھاری تھی،غزوۂ حنین میں انہوں نے بیس آدمیوں کو قتل کیا تھا،اوران کے ہتھیاراتارلئے تھے۔
ابوالقاسم بن صدقہ بن علی الفقیہہ نے ابوالقسم بن سمرقندی سے،انہوں نے علی بن احمد بن محمد البسری اور احمد بن محمد بن احمدالبزارسے ان دونوں نے المخلص سے اوران دونوں نے عبداللہ بن محمدالبغوی سے،انہوں نے صالح بن محمد سے،انہوں نے صالح المری سے،انہوں نے ثابت سے،انہوں نے انس سے ،انہوں نے ابوطلحہ سے روایت کی،کہ وہ ایک دن حضورِاکرم کی خدمت میں حاضرہوئے اور انہوں نے آپ کے چہرۂ مبارک پر ایسی بشاشت اورمسرت دیکھی،جوایسے حالات میں شاذونادرہی دیکھی جاتی ہے،میں نے عرض کیا،یارسول اللہ،اس غیرمعمولی کشادہ روئی اور شادمانی کی کیاوجہ ہے،فرمایا،اے ابوطلحہ! مجھے کیوں خوشی نہ ہو،ابھی ابھی جبریل کہہ کر گئے ہیں کہ میری امت میں سے جو شخص بھی مجھ پرایک باردرود پڑھے گا،اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر دس بار رحمت بھیجیں گے ابوالفضل منصور بن ابوالحسن الفقیہ نے باسنادہ ابویعلی سے،انہوں نے عبدالرحمٰن بن سلام حمجی سے،انہوں نے حماد بن سلمہ سےانہوں نے ثابت سے،انہوں نے انس سے روایت کی کہ جب ابوطلحہ نے سورۂ برأ ۃ پڑھی، انفرو اخفافا وثقالا"، توکہنے لگے میں اس آیت سے یہ سمجھاہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے جوانی اوربڑھاپے میں اپنی راہ میں نکل کھڑاہونے کی خواہش کرتا ہے،میرے لئے جہاد کا بندوبست کرو،انہوں نے کہا،ابّا! آپ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ ابوبکراورعمر کے ساتھ شریک جہاد رہے ہیں، اب ہم آپ کی طرف سے جہاد کریں گے،انہوں نے کہامیرے لئے سامانِ جہاد کابندوبست کرو، بیٹوں نے باپ کے حکم کی تعمیل کی،اوروہ سمندری سفر پر روانہ ہوگئے،اورچند دنوں کے بعد فوت ہوگئے،چونکہ سمندر میں کوئی جزیرہ نہ ملا کہ انہیں دفن کریں،سات دن تک ان کی لاش اسی حالت میں پڑی رہی ،اوراس میں کوئی تغیروتبدّ ل نہ ہوا۔
ابوطلح،ام سلیم کے،جوانس بن مالک کی والدہ تھیں،خاوند تھے،ایک روایت میں ہے کہ وہ مدینے میں ۳۱ہجری میں فوت ہوئے،اوردوسری روایت کی روسے ۳۴ہجری ان کاسال وفات ہے،اس وقت ان کی عمر ستر برس تھی،نمازِجنازہ حضرت عثمان نے پڑھائی۔
حماد بن سلمہ نے ثابت سے،انہوں نے انس سے روایت کی کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چالیس برس تک رمضان کے روزے رکھتے رہے،بقول مداشی ابوطلحہ نے ۵۱ہجری میں وفات پائی،اس سے انس کے اس قول کی تصدیق ہوتی ہے کہ ابوطلحہ نے حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چالیس برس تک روزے رکھے،وہ ڈاڑھی کو خضاب نہیں لگاتے تھے،اورچوڑے چکلے جسم کے مالک تھے،ابونعیم ،ابوعمراورابوموسیٰ نے ذکرکیاہے۔