ابوالطفیل عامربن وائلہ یا بقول معمرعمرو بن وائلہ،پہلی روایت درست ہے،ہم ان کا نسب ان لوگوں کے ترجمے میں بیان کرآئے ہیں،جن کا عامرتھا،یہ کنانی یشی
ہیں،غزوۂ احد کے سال میں پیدا ہوئے حضوراکرم کی حیاتِ مبارک کے اٹھارہ برس انہیں نصیب ہوئے،کوفے میں سکونت اختیارکرلی تھی۔
یحییٰ بن محمود اورعبدالوہاب بن حبہ سے باسناد ہمامسلم سے،انہوں نے محمد بن رافع سے،انہوں نے یحییٰ بن آدم سے ،انہوں نے زہیربن عبدالملک بن سعید بن
ایجرسے،انہوں نے ابوالطفیل سے روایت کی،انہوں نے عبداللہ بن عباس سے کہا،کہ انہوں نے حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا،انہوں نے کہا،اچھاتم آپ کو
حلیہ بیان کرو،انہوں نے جواب دیا،کہ انہوں نے آپ کو مُروہ میں اُونٹنی پر سواردیکھا،اورلوگ آپ کے اردگرد جمع تھے،ابن عباس نے کہا،بلاشبہ وہ رسولِ کریم ہی
تھے اوربلاشبہ عوام آپ سے علیحدہ ہونانہیں چاہتے تھے۔
بعد میں جناب ابوالطفیل حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حمایتیوں میں شامل ہوگئے تھے اور ان کے ساتھ تمام معرکوں میں شریک رہے،جب حضرت علی شہید ہوگئے،توابوالطفیل
مکے میں مقیم ہوگئے، اور وہیں وفات پائی ایک روایت میں ہے کہ وہ کوفے میں ٹھہرگئے تھے،لیکن پہلی روایت درست ہے،اورصحابہ میں یہ سب سے آخر میں فوت ہوئے،حماد
بن زید نے جریری سے،انہوں نے ابوالطفیل سے روایت کی،وہ کہاکرتے کہ میرے سوا ان دنوں کوئی ایسا آدمی موجود نہیں ہے،جسے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت
کی سعادت نصیب ہوئی ہو،ابوالطفیل اچھے شاعر تھے۔
۱۔اتدعوننی شیخا وقد عشت حقبۃ وھن من الازواج نحوی نوازع
ترجمہ۔کیا تم مجھے بوڑھا شمارکرتے ہو اور میں طویل زمانے سے زندگی گزاررہاہوں اورمیری بیویاں مجھ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے جھگڑتی ہیں۔
۲۔وماشاب راسی من سنین تتابعت علیّ و لکن شیبتنی وقائع
ترجمہ۔ میراسراس لئے سفید نہیں ہوا،کہ متواتر سالہاسال مجھ پر بیت گئے ہیں،بلکہ حوادث زمانہ نے مجھے بوڑھاکردیا۔
ابوالطفیل،فاضل،عاقل،حاضر جواب اور فصیح البیان آدمی تھے،حضرت علی کے حمایتی تھے،اوراصحاب ثلثہ کے مد ح خوان،روایت ہے،کہ وہ ایک دفعہ امیرمعاویہ سے ملنے
گئے،امیر نے دریافت کیا،کہو تمہیں اپنے دوست ابوالحسن سے کس درجہ محبت ہے،انہوں نے جواب دیا،جیسے موسیٰ کی ماں موسی سے تھی،بلکہ مجھے تواس باب میں اپنی
کوتاہی کا شکوہ ہے،پھرامیر نے پوچھا،کیاتم ان لوگوں میں موجودتھے،جنہوں نے عثمان کو قتل کیاتھا،نہیں!بلکہ میں ان میں تھا،جنہوں نے ان کے بچاؤ کے لئے محاصرہ
کررکھاتھا،"تونے ان کی امداد کیوں نہیں کی"،اچھاتم ہی بتاؤ،کہ تم نے کیوں عثمان کی امداد نہیں کی،کیاتم ان پر حوادثِ زمانہ کے نزول کاانتظارکررہے تھے،تم ان
دنوں شام میں تھے،اوروہ سب لوگ تمہارے ماتحت تھے،اس دوران میں کیا سوچتے رہے،امیر نے آخر میں پوچھا،کیامیں عثمان کے قصاص میں حق بجانب ہوں،ہاں درست ہے،مگر
تمہاری مثال ایک شاعر کے اس شعر کی مصداق ہے۔
لاالفینک بعد الموت مذدینی وفی حیاتی مازودتنی زادی
میں نہیں پسندکرتا کہ تم بعدازموت مجھ پرآہ وزاری کرو،جب کہ میری زندگی میں تم نے مجھے کبھی پوچھا تک نہیں،کہ میں نے کھاناکھایاہے۔
ابوعمر،ابونعیم اورابوموسیٰ نے ذکرکیاہے۔