ابواسید الساعدی،ان کا نام مالک بن ربیعہ یا بلال بن ربیعہ تھا،لیکن مالک زیادہ مشہور ہے،ہم مالک کے ترجمے میں ان کا نسب بیان کرآئے ہیں،یہ بنوساعدہ سے
انصاری خزرجی ہیں،غزوۂ بدر میں شریک تھے،ابوجعفر نے باسنادہ یونس سے انہوں نےابنِ اسحاق سے بہ سلسلۂ شرکائے بدراز بنوساعدہ مالک بن ربیعہ کا نام لیا ہے،وہ
حجازی تھے،ان سے سعد بن سہل نے روایت کی،وہ کہنے لگے اگر میری آنکھیں بے نور نہ ہوجاتیں،تومیں آپ کو وہ گھاٹی دکھاتا،جہاں غزوۂ بدر میں ہماری امداد کو
فرشتے نکلے تھےابواسید نے ۶۰ہجری یا ۶۵ہجری یا ۳۰ہجری میں وفات پائی،ابوعمر آخری روایت کو غلط قرار دیتے ہیں،کیونکہ انہوں نے شرکائے بدر میں سب سے زیادہ
عمر پائی تھی، ان کا قد چھوٹا،بال گھنے اور داڑھی سیاہ تھی،ایک روایت کے مطابق مہندی لگاتے تھے،اور ان کی عمر ۸۷ برس تھی،ابونعیم ،ابوعمر اور ابوموسیٰ نے ان
کا ذکر کیا ہے،لیکن ابوعمر نے ان کے ترجمے میں یہ بھی تحریر کیاہے کہ ابواحمد حاکم نے کتاب الکنی میں ابواسید بن علی بن مالک انصاری لکھاہے،اور ان کی صحبت
کا بھی ذکر کیا ہے،اور ان کے بارے میں سعید بن ابوعروبہ سے بروایت قتادہ یہ خبر بیان کی ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب دختر خزیمہ سے نکاح کے
بعد،بنوعامر بن صعصعہ کی ایک خاتون کے پاس نکاح کا پیغام دے کر بھیجا،حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خاتون کہ دیکھا نہ تھا،چنانچہ ابواسید نے اس
خاتون کا آپ سے نکاح کرادیا،اور ابوعمرنے ان ابواسید کو ابواسید ساعدی کے علاوہ کوئی اور آدمی قرار دیا ہے،حالانکہ یہ ابواسید ساعدی ہی ہیں،واللہ اعلم۔