ابوالزوائدیمانی،سلیم بن مطیر نے اپنے والد سے روایت کی،کہ وہ حجتہ الوداع میں رسولِ کریم کے ساتھ تھے،انہوں نے آپ کو یہ کہتے ہوئےسُنا،کہ عطاکوقبول
کرلو،جب تک وہ عطاہو،اورجب قریش ملک کے طول وعرض پر چھاجائیں اور عطا(تحفہ)تمہارے دین کے خلاف رشوت کی صورت اختیا ر کرلے،توقبول نہ کرو۔
ابونعیم اور ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔
ابن اثیر کہتے ہیں،کہ ہم بابِ ذال کے تحت ذوالزوائد کا ترجمہ بیان کرآئے ہیں،اوروہ صحیح ہے اوراس مقام پرتینوں نے ان کا ذکر کیاہےاورانہوں نے ذوالزوائد کو
جہنی لکھاہے،اور ابونعیم اور ابوموسیٰ نے انہیں یہاں یمانی قراردیا ہے،اگران کا مقصد یہ ہے کہ وہ یمن میں رہتے تھے،تویہ غلط ہے،کیونکہ وہ مدینے میں رہتے
تھے،لیکن اگران کا مقصد یہ ہے کہ ان کاتعلق یمنی قبائل سے تھا،تویہ بات اس وقت صحیح ہوگی ،کہ بنو قضاعہ کو بنوحمیر کی شاخ اور جہنیہ کو بنوقضاعہ کی شاخ
قراردیا جائے،رہا ابوامامہ کایہ قول کہ سب سے پہلے نمازاشراق ذوالزوائد نے پڑھی،مشکوک ہے،کیونکہ بروایت ام ہانی،حضورِاکرم نے اوّل ازہمہ یہ نماز فتح مکہ کے
دن ادا فرمائی،غالباً یہ روایت ابوامامہ تک نہیں پہنچی ہوگی۔