احمد ابن سید محمد کرمانی
احمد ابن سید محمد کرمانی (تذکرہ / سوانح)
سید با وقار سرور ساداتِ روزگار سید کمال الدین امیر احمد ابن سید محمد کرمانی ہیں جو کاتب حروف کے عم بزرگوار تھے اور مردی وجوانمردی میں حیدر ثانی۔ صدق وافر اور فراستِ کامل رکھتے اور درویشوں اور لشکری محتاجوں کو چاندی سونے کی کافی مقدار سِکّے دیتے اگرچہ یہ بزرگ گاؤں اور زمین کے مالک تھے اور طبل و علم برداری کا عہدہ رکھتے تھے لیکن باوجود ان علائق کے تمام تصوفی اوصاف کے ساتھ موصوف تھے۔ عقل کامل رکھتے اور اپنے تمام کاموں کا انجام بمقتضایٔ عقل دیتے تے۔ امیر خسرو خوب فرماتے ہیں۔
کارے نکرد جز بکمالات علم و عقل
گوئی کہ صد عمامہ بزیرِ کلاہ داشت
سبحان اللہ عجب قوت رکھتے تھے کہ بجز صدق و راستی کے زبانِ مبارک پر کوئی بات جاری نہیں ہوئی تھی۔ اور یہ تمام فضائل اس تربیت و پرورش کا ثمرہ تھا جو آپ کو سلطان المشائخ کی نظر مبارک میں حاصل ہوئی تھی۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ بزرگ سید کے والدین آپ سے بہت راضی تھے اور آپ ان کی رضا مندی میں بے حد کوشش کرتے تھے۔ جو کچھ آپ کو سلطانِ وقت سے ملتا سب والدین کے سامنے پیش کر دیتے۔ اور پھر اس کی کبھی باز پرس نہ کرتے۔ کاتبِ حروف نے اپنے والد بزرگوار سے سنا ہے کہ میرے بھائی امیر احمد ہنوز پیٹ میں تھے اورمیں اپنے والدِ بزرگوار سید محمد کرمانی کے ساتھ گھر سے نکل کر باہر جاتا تھا ایک صاحبِ نعمت دیوانہ ہمارے سامنے آکر کہنے لگا سید محمد! تمہارے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوگا اس کا نام امیر احمد رکھنا۔ جب ہم باہر سے گھر آئے تو میرے بھائی امیر احمد پیدا ہوچکے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سلطان محمد تغلق نے سید امیر احمد کو بہا کسی کے قید خانہ میں جو دیو گیر کے متصل ہے بھیج دیا اور سخت قید کا حکم فرمایا۔ سید امیر احمد سلطان محمد تغلق کے عہد حکومت میں لشکر تلنگ کی افسری کا عہد رکھتے تھے اور بادشاہ نے آپ کے مخالفوں کی شکایتوں پر عمل کر کے انہیں بہا کسی کے جیل میں قید کر دیا تھا جو اب تک اسی نام سے مشہور ہے۔ یہ قید خانہ ایسا جانگز اور جگر خراش تھا کہ جو کوئی اس میں قید کیا جاتا زندہ سلامت نہ رہتا کیونکہ اس میں زہریلے سانپ اور چیونٹے اور گربہ صفت چوہے اس درجہ بھرے ہوئے تھے کہ کوئی شخص مشکل سے جانبر ہوسکتا تھا۔ جب تک بزرگ سید اس قید خانہ میں رہے موذی جانوروں کو آپ کو ایذا پہنچانے کی مجال نہیں ہوئی۔ شب کو جب لوگ قیدیوں کو زنجیروں میں جکڑتے تو بزرگ سید کی زنجیر خدا تعالیٰ کی عنایت سے علیحدہ ہوکر گر پڑتی۔ بزرگ سید قید خانہ کے محافظوں کو بلاتے اور پڑی ہوئی زنجیر کو دکھا کر فرماتے کہ میں نے ان زنجیروں کو اپنے جسم سے علیحدہ نہیں کیا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے کرم و بخشش سے خود بخود علیحدہ ہوگئی ہیں۔ جب صبح ہوئی تو قید خانہ کے محافظوں نے یہ حال معائنہ کر کے سلطان محمد تغلق کی خدمت میں عرضی لکھی سلطان نے حکم دیا کہ سید امیر احمد کو قید سے رہائی دے کر میرے پاس بھیج دو سید امیر احمد اس زمانہ میں ایک زلف رکھتے اور قبا پہنا کرتے تھے جب سلطان کے پاس آپ نے جانا چاہا تو برابر کی دو زلفیں کر کے ایک ادھر اور دوسری اُدھر لٹکائی اور صوفیانہ خرقہ پہن کر سلطان کے آگے تشریف لے گئے سلطان نے پوچھا کہ سید! تم نے یہ کیا کیا۔ جواب دیا کہ ہم میں بجز اس کے اور کچھ باقی نہیں رہا تھا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزندوں کی ظاہری اتباع اور صوری مشابہت رکھتے تھے لیکن جب ہم نے اسے بھی ترک کر دیا تو اپنی سزا دیکھ لی یہ سن کر سلطان نے کہا کہ سید! تم چاہتے ہو کہ اس حیلہ سے اور بہانہ سے ہم سے بھاگ جاؤ او رہم چاہتے ہیں کہ امور مملکت تمہارے مشورہ سے طے کریں۔ ازاں بعد سلطان بزرگ سید کو اسی لباس پر چھوڑا اور اپنے ملک کا ایک بڑا کارکن مقرر کیا اور محل امانت و مشورہ قرار دیا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سید امیر احمد بیمار پڑے اور ایک مقام پر چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے کوئی شخص آپ کے پاس نہ تھا اس مکان میں ایک کھڑکی تھی دفعۃً ایک شخص نے باہر کی طرف سے کھڑکی میں سر ڈال کر بزرگ سید کی طرف دیکھا بزرگوار سید نے پوچھا کہ آپ کون ہیں جواب دیا کہ میں امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ ہوں یہ کہتے ہی وہ غائب ہوگئے اور بزرگ سید نے اسی وقت اپنے تئیں تندرست پایا تمام مرض صحت سے بدل گیا اور اب یہ کیفیت ہوئی کہ نہایت چاق و تونا ہوگئے۔ آخر کار ۷۲۸ ہجری میں لشکر لاہور میں بواسیر کی تکلیف میں گرفتار ہوئے اور غرۂ جمادی الاخری کو سفر آخرت قبول کیا آپ کا تابوت وہاں سے نقل کیا گیا اور سلطان المشائخ کے خطیرہ میں اپنے والد بزرگوار کے متصل یاروں کے چبوترہ میں دفن ہوئے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
سید امیر احمد کے پیچھے ان کے دو فرزند محسوس یاد گاریں باقی رہے۔ ایک سید السادات منبع السادات عماد الحق والدین امیر صالح جو علم و ورع اور تقوی میں بے مثل اور یگانۂ روز گار تھے۔ آپ کا ظاہر جمال محمدی سے آراستہ اور باطن ذکر خفی سے پیراستہ تھا۔ دوسرے فرزند رشید نور الدین نور اللہ قلبہ بنور المعرفتہ (خدا ان کے دل کو نور معرفت سے روشن کرے) تھے۔