احمد بن عمر بن مہیر خصاف [1]: ابو بکر کیت تھی ۔ بڑے عالم فاضل محدث فقیہ زاہد پرہیز گار عارف مذہب حاسب فرضی تھے۔ علم اپنے باپ شاگرد امام محمد حسن تلمیذ امام ابو حنیفہ سے پڑھا اور حدیث کو اپنے باپ اور عاصم وابو داؤد طیالسی ومسدبن مسرہد ویحییٰ بن عبد الحمید حمانی وعلی بن مدینی وابی نعیم الفضل بن وکین وغیرہ سے روایت کیا۔ شمس الائمہ حلوائی کہتے ہیں کہ آپ ان علمائے کبار میں سے ہیں کہ جن کامذہب کے معاملہ میں اقتداء کرنا صحیح ہے۔خصّاف آپ کو اس لیے کہا کرتے تھے کہ آپ اپنے ہاتھ کی کمائی نعلین دوزی سے اپنا گزارہ کرتے تھے۔ آپ کی تصنیفات سے یہ کتابیں ہیں: کتاؔب الحیل،کتاؔب الوصایا، کتاؔب الشروط الکبیر والصغیر، علیل الاقارب ، کتاؔب احکام العصیر،کتاؔب المحاضر والسجلات ، کتاؔب ادب القاضی ،کتاؔب لنفقات علی الاقارب ، کتاؔ ب احکام العصیر،کتاؔب ورع الکعبۃ،کتاؔب احکام الوقف ، کتاؔب اقرار الورثہ بعضہم بعض ۔ کتاؔب المسجد والقبر۔
کہتے ہیں کہ جب خلیفہ مہتدی با للہ مقتول ہو ا تو آپ کا مکان بھی لوٹا گیا جس سے آپ کی بعض کتابیں ضائع ہو گئیں ۔اسّی سال کی عمر میں ۲۶۱ھ میں بغداد کے اندر آپ نے وفات پائی۔’’ سید مومناں ‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔
[1] ۔ آپ کے بیٹے ابو جعفر اسحٰق تنوخی انبالوی۲۳۱ ،۳۱۹مشہور اور نحوی تھے ۱۲
(حدائق الحنفیہ)