آپ شیخ نجم الدین کبریٰ قدس سرہ کے خلفا میں سے تھے بڑے دانشمند اور عاقل و فاضل تھے علوم ظاہر و باطن میں یگانہ روزگار تھے زندگی کے ابتدائی ایام میں حضرت شیخ کی صحبت میں رہے علوم نقلی اور عقلی پر بڑی بڑی کتابیں مطالعہ میں لائے۔ ایک رات خواب میں شیخ طریقت نے فرمایا کتابوں کا یہ بوجھ کیوں لادے پھرتے ہو۔ انہیں پھینک دو۔ علی الصبح بیدار ہوئے تمام کی تمام کتابیں دریا بُرد کردیں اور حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے دیکھ کر تبسم فرمایا اور کہا جمال اگر تم یہ بوجھ سر سے نہ پھینکتے تو تمہیں کچھ حاصل نہ ہوتا حضرت شیخ نے ایک ہی چلہ میں آپ کو منازل سلوک طے کرادئیے اور عین الزمّان کے خطاب سے نوازا۔
ایک آدمی قزدین کے سادات میں سے تھا اسے بادشاہ شیراز سے ایک ضروری کام تھا حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور سفارشی خط کی التجا کی تاکہ اس کا کام آسان ہوجائے آپ نے ایک کاغذ پر درد شکم کا نسخہ لکھا اور اس کے حوالے کردیا۔ وہ رقعہ لےکر دربار میں حاضر ہوا اتفاقاً اس دن بادشاہ کے پیٹ میں شدید درد تھا طبیب علاج سے مایوس ہوگئے تھے اس نے خط پیش کیا بادشاہ سمجھا کہ حضرت نے کشفی طور پر میرے درد شکم سے آگاہی پاتے ہوئے علاج تجویز کیا ہے دوائی کھائی اور صحت یاب ہوگیا اور اس شخص کا کام بھی کردیا۔
آپ کی وفات ۶۵۶ھ میں ہوئی۔
حضرت عین الزمان نور جمال گفت سرور سالِ نقل آنجناب
|
|
شد چو از دنیا بگلذار جہاں اے بگو عارف ولی عین الزمان ۶۵۶ھ
|
(خزینۃ الاصفیاء)