آپ کو ابوالحسن خرقانی ثانی کہتے تھے کیونکہ آپ کو ابوالحسن خرقانی سے خرقہ ملا تھا اسی طرح آپ کو پیر قباء کی روحانیت سے تربیت حاصل ہوئی تھی جب آپ درجہ کمال کو پہنچے تو بھی پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر نہ ہوئے شریعت کے احکام کے نفاذ میں بڑے ہی سخت تھے آپ کی نظر میں بادشاہ فقیر ایک جیسے ہی تھے بلکہ بعض اوقات فقیروں سے زیادہ محبت اور شفقت کرتے تھے امیروں سے دور رہتے اور اُن کو اپنا مرید بھی نہ بناتے تھے قوالی سنتے سماع کی مجلس میں بن بلائے بھی چلے جاتے اور وہاں پہنچ کر وجد اور رقص کرتے اخبار الاولیاء اور معارج الولایت میں آپ کی بڑی بڑی کرامتیں لکھی گئی ہیں چنانچہ کھانا پکاتے ہنڈی میں زیادہ نمک ڈال دیتے لیکن جب پک جاتا پھر جو بھی کھاتا اس کو پورا لگتا ایک دفعہ ایک آدمی گجرات چلاگیا مدت گزرنے کے بعد اُس کی کوئی خبر نہ آئی اُس کے رشتہ داروں کو بڑی فکر ہوئی ایک دن ایک شخص حضرت اخوند کی خدمت میں آیا اور آکر گم شدہ آدمی کے رشتہ داروں کا رنج کیا آپ نے تھوڑی سی خاموشی کے بعد فرمایا کہ فلاں شخص فلاں مہینے فوت ہوگیا ہے تھوڑے ہی عرصے کے بعد گجرات سے اُس کے فوت ہونے کی خبر پہنچی تو وہی تاریخ تھی جو حضرت اخوند رحمۃ اللہ علیہ نے بتائی تھی ایک بار ایک ہندو راجپوت حاضر ہوا کہنے لگا کہ اکبر بادشاہ مجھ سے ناراض ہوگیا ہے آپ دعا کریں کہ وہ راضی ہوجائے آپ جو ہدیہ کہیں گے میں پیش کروں گا۔
آپ نے فرمایا تم بادشاہ کے پاس چلے جاؤ کوئی فکر نہ کرو میں نے بادشاہ کی زبان بند کردی ہے جب تم پہنچو گے تو بادشاہ انعام دیں گے جب تم انعام لے کر واپس آؤ اور ایک موٹا سادنبہ میرے لیے لانا۔ راجپوت دربار میں پہنچا بادشاہ سے خلعت پائی تو دنبوں کا ایک ریوڑ لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا مجھے تو بس ایک ہی دنبہ دو۔
حضرت اخوند سعید کی وفات ۱۰۱۸ھ میں ہوئی اور آپ کا مزار قصور میں ہے۔
وصل شد باد صل حق چون از جہاں
پیر حق گو شیخ حق آمین سعید
فضل حق دان شیخ حق گو رحلتش
نیز کن تحریر خیر دین سعید
۱۰۱۸ھ