علاثہ جعفر مستغفری نے خلیل بن احمد سے، انہوں نےمحمد بن اسحاق سے ،انہوں نے قتیبہ سے، انہوں نے قتیبہ سے،انہوں نے یعقوب بن عبدالرحمٰن سے،انہوں نے ابوحازم بن
دینار سے روایت کی،کہ کچھ لوگ سہل بن سعد کے پاس آئے،اور دریافت کیا کہ حضورِ اکرم کا منبر کس لکڑی کا بناہواہے،انہوں نے جواب دیا،مجھے نہیں معلوم کہ کس لکڑی
کا ہے البتہ مجھے اس کا علم ہے،کہ جس دن منبر مسجد میں رکھاگیا،اور آپ اس پر بیٹھے،حضورِاکرم نے ایک خاتون علاثہ کو کہلا بھیجا تھا کہ وہ اپنے غلام کو جو نجار
تھا،بھیجے،تاکہ میرے لئے ایک منبر بنادے،تاکہ میں لوگوں سے خطاب کرتے وقت اس پر بیٹھ سکوں۔
جعفر نے اس خاتون کا ترجمہ حرف عین کے تحت لکھاہے،اور اسے خوداس نے یا اس کے شیخ خلیل نے ان نام کے لکھنے میں گڑبڑکردی،کیونکہ یہ بڑامشکل ہے کہ ابن اسحاق کو یا
ان لوگوں کو جوان سے اوپر ہیں،اس خاتون کانام بھول گئے ہیں،راوی نے یہ لکھاتھا کہ حضورِ اکرم نے (الی امرأۃ فلانیتہ) فلاں عورت کے پاس (راوی کو نام نہیں معلوم
ہوسکا)پیغام بھیجا،جسے جعفر نے بگاڑ کر علاثہ بنادیا، اگرابوموسیٰ (جس نے علاثہ کا ترجمہ لکھاہے) اس طرح کے ناموں کا ذکر نہ کرتا،توبہتر ہوتا،کیونکہ ناموں میں
اس طرح کی غلطیاں بے شمار ہیں،اور اگر ہر غلط نام کے لکھنے کا التزام کرلیاجائے تو ان کی تعداد صحیح ناموں سے کئی گنابڑھ جائے گی۔