علی بن عبد اللہ خطیبی: بڑےعالم فاضل زاہد اور اختلاط سلاطین سے متنفر تھے اور اپنے آپ کو تدریس و تعلیم پر مجبور کر رکھا تھا۔جب کوئی قرآن شریف پڑھتا تو آپ کے انسو ٹپک آتے،کنیت ابو الحسن تھی۔فقہ آپنے شمس الائمہ عبد العزیز حلوائی اور ابی محمد عبد اللہ ناصحی سے پڑھی اور نو جوانی میں حج کیا۔جب اصفہان میں آئے تو وہاں کی قضا آپکو دی گئی۔کہتے ہیں کہ آپ سترہ برس تک قائم اللیل رہے اور اس عرصہ تک آپ نے رات کو اپنی کروٹ زمین پر نہ رکھی۔نقل ہے کہ ۴۶۶ھ میں آپ اصفہان میں ایک دن صبح کی نماز پڑھ کر بیٹھے تھے کہ ایک نیک بخت عورت نے آپ کے پاس آکر بیان کیا کہ میں سحر کے وقت سوئی،ہوئی تھی اور بحالث خواب یہ گمان کرتی تھی کہ گویا میں مدینہ منورہ کی مسجد میں ہوں کہ ایک شخص نے اگر بانگ نماز دے کر تکبیر کہی اور لوگ صفیں باندھ کر اس کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور اس کو کہا گیا کہ تکبیر تحریر کہو مگر اس نے جواب دیا کہ جب تک ابوالحسن خطیبی حاضر نہ ہوں گے میں تکبیر نہیں کہوں گا آپ عورت مذکورہ کی زبان سے یہ بات سنتے ہی مصلے پر سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ننگے پاؤں شہر علوی کو جو عراق کی طرف تھا،چلدئے۔جب اس بات کی خبر حاکم اصفہان کو ہوئی تو وہ آپ کےپیچھے دوڑ آیا اور بہت التماس کی کہ آپ یہیں رہیں مگر آپ نے ایک نہ سنی اور چل دئے یہاں تک کہ شمر مذکور میں بڑی تھکن کے ساتھ پہنچ گئے اور مقام جحفہ میں جو مدینہ کے راستہ میں ہے،پہنچ کر ۴۶۷ھ میں فوت ہو گئے۔
(حدائق الحنفیہ)