علی بن محمد بن حسین بن عبد الکریم موسیٰ بزدوی: ۴۰۰ھ ہجری میں پیدا ہوئے،فروع واصول میں اپنے زمانہ کے امام ائمہ شیخ حنفیہ مرجع انام جامع علوم مختلفہ فقیہ کامل محدث جید حفظ مذہب میں جرب المثل تھے۔آپ نے تصنیفات مقبرہ سے زمانہ کو پر کیا چنانچہ کتاب مبسوط گیارہ جلدوں میں تصنیف کی اور جامع کبیر وجامع صغیر کی شرحیں لکھیں اور ایک بڑی کتاب نہایت معتبر و معتمد اصول فقہ میں اصول بزدوی کے نام سے تصنیف کی اور ایک تفسیر قرآن شریف کی ایک سو بیس جزء میں،جو ہر ایک جزء قرآن شریف کے حجم کے برابر ہے،تصنیف کی۔غناء الفقہاء فقہ میں اور کتاب املی حدیث میں جمع کی۔فخر الاسلام لقب اور ابو الحسن وابو العسر کنیت تھی۔سمر قند کی تدریس و قضا آپ کے سپرد کی گی۔۵تاریخ ماہ رجب ۴۸۲ھ کو مقام کش میں فوت ہوئے اور جنازہ آپ کا سمر قند میں لیجا کر دفن کیا گیا۔بزدوی قلعہ بزدہ کی برف منسوب ہے جو نسف سے چھ فرسنگ کے فاصلہ پر واقع ہے۔
کہتے ہیں کہ آ پ کے زمانہ میں ایک بڑا متجر عالم شافعی المذہب آپ کی ولایت میں آیا جس سے وہ مناظرہ کرتا تھا اس پر غالب آتاتھا یہاں تک کہ بعض حنفی المذہب بھی مذہب امام شافعی کی طرف مائل ہوگئے،علماء و فضلاء نے متفق ہو کر آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ اس طرف متوجہ ہوں ورنہ ہم سب لوگ شافعی ہو جائیں گے۔آپ نے کہا کہ میں ایک گوشہ نشین آدمی ہوں،مجھ کو مناظرہ و مباحثہ سے کیا کام ہے مگر جب ان لوگوں نے نہایت اصرار کیا تو آپ نے ان کی التجا کو قبول کیا اور اس کی مجلس میں تشریف لے گئے۔عالم مذکور نے امام شافعی کے م ناقب کو شمار کرنا شروع کیا اور کہا کہ ہمارے امام نے ایک مہینے میں قرآن شریف ھفظ کیا اور ہر روز ایک بار ختم کرتے تھے اور رات کو تراویح میں سارا قرآن پڑھا کرتے تھے۔آپ نے فرمایا کہ یہ توآسان کام ہے کیونکہ قرآن شریف بتامہ علم ہے اور ہم اس کو یاد لکھا کرتے ہیں،پھر فرمایا کہ سرکاری دفتر کا حساب کتاب لاؤ اور دخل و خرج دوسال کا پڑھ کر م جھ کو سناؤ،لوگوں نے ایسا ہی کیا،امام نے دفتر مذکور پر اس غرض سے کہ کوئی اس میں تغیر و تبدل نہ کر سکے،بادشاہ کی مہر کر اکر اس کو ایک مکان مقفل میں بند کرادیا اور آپ حج کو تشریف لے گئے۔جب چھہ مہینے کو واپس آئے تو ایک بڑی مجلس کی اور دفاتر کو کھلوا کر عالم مذکور کے ہاتھ میں دیا اور آپ نے تمام یاداس کو پرھ کر سنادیا یہاں تک کہ ایک حرف کی بھی غلطنی نہ کی جس سے مدعی بسبب خجالت و ندامت کے پانی پانی ہوگیا۔’’محقق پاک رائے‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)