علی بن حسین سغدی: اپنے زمانہ کے امام فاضل فقیہ مناظر تھے رکن الاسلام لقب اور ابو الحسن کنیت تھی،فقہ شمس الائمہ سر خسی سے اخذ کی اور شرح سیر الکبیر کو روایت کیا۔حدیث کو ایک جماعت محدثین سےسنا یہاں تک کہ بخارا میں ساکن ہو کر افتاء کے لیے صدر نشین ہوئے اور وہاں کی قضا آپ کے سپرد ہو کر ریاست مذہب حنفیہ کی آپ پر منتہیٰ ہوئی،واقعات و نوازل میں لوگ آپ کی طرف رجوع لانے لگے۔فتاویٰ قاضی خان وغیرہ مشاہیر فتاویٰ میں آپ کا مکر ر تذکرہ ہوا ہے۔آپ کی تصانیف میں سے فتاویٰ نتف اور شرح جامع کبیر مشہور و معروف ہیں۔
کہتے ہیں کہ جن دنوں آپ بغداد میں پڑھا کرتے تھے ان ایام میں خلیفہ بغداد کا بیٹا بھی پڑھا کرتا تھا ایک دن اور خلیفہ کے بیٹے نے اول سبق پڑھنے کے کے لیے قرعہ دالا تو آپ کا قرعہ نکلا،خلیفہ کے بیٹے نے کہا کہ پہلے مجھ کو آپ سبق پڑھ لینے دو آپ نے فرمایا کہ نہیں میں پڑھوں گا،خلیفہ کے بیٹے نے کہا کہ تم مجھ کو پہلے سبق پڑھ لینے دو تو میں تم کو اس کے عوض میں پچاس دیناور دوں،آپ نے نہ مانا اور سبق پڑھ لیا۔جب آپ سبق پڑھ کر علیٰحدہ ہوئے تو آپ کے ہم سبق اور یاروں دوستوں نے آپ کو ملامت کرنی شروع کی اور گھاس آپ کی طرف پھینک کر کہنے لگے کہ اگر تم خلیفہ کے بیٹے کو اول سبق پڑھ لینے دیتے تو تم کو پچاس دینار مل جاتے اور پھر اپنا سبق پڑھ لیتے۔
آپ کے پاس صرف ایک گھوڑی کھجور کے پوست سے بنی ہوئی تھی اور وہ بھی کئی جگہ سے پھٹی ہوئی،اس وقت وہاں ایک متمول شخص حاضر تھا،اس نے آپ کا یہ شوق علم دیکھ کر کہا کہ چونکہ آپ نے فقط ایک سبق کو پچاس دینار پر مقدم سمجھا ہے اس لیے مجھ کو واجب ہے کہ آپ کے نان و نفقہ کی خیر گیری رکھا کروں،پس اس نے آپ کی بڑی عزت کی اور آپ کو رہنے کےلیے ایک مکان دیکر لباس و خوراک کی طرف سے آپ کا خبر گیراں رہا جس سے اپنے وجہ معیشت سے فارغ البال ہو کر تحصیل علم کی،وفات آپ کی ۴۶۱ھ میں ہوئی سغد سمر قند کی نواح میں ایک علاقہ کا نام ہے۔
(حدائق الحنفیہ)