سبحان زماں مولانا علامہ ابو الفیض محمد حسن فیضی
سبحان زماں مولانا علامہ ابو الفیض محمد حسن فیضی (تذکرہ / سوانح)
ادیب اریب،فاضل علوم دینیہ ،ماہر فنون عربیہ مولانا ابو الفیض محمد حسن فیضی ابن جناب نور حسین بھیں ضلع جہلم کے رہنے والے تھے،اپنے وقت کے مشہور زمانہ افاضل سے اکتساب علم کیا،اساتذہ میں سے آپ کے ماموں مولانا قاضی عبد الحلیم ساکن ڈھاب قاضیاں کا نام معلوم ہو سکا ہے۔آپ مولانا ابو الفضل کرم الدین (مؤلف آفتاب ہدایت و تازیانۂ عبرت) کے چچا زاد بھائی اور اپنے دور کے بے مثل فاضل تھے،عربی شعرو شاعری میں متقدمین شعراء کے ہم پلہ تھے،ایک زمانہ تک جامعہ نعمانیہ (لاہور) میں مدرس رہے۔آپ نے سورئہ فاتحہ کی مکمل تفسیر بے نقط الفاظ میں لکھی تھی جو طبع نہ ہو سکی۔آپ کی تصانیف میں سے روض الربی فی حقیقۃ الربو(جس میںہندوستان کو دار الحرب(کہ اس کا فرمانروامسلمان نہیں) قراردے کر غیر مسلموں سے سود لینا جائز قرار دیاہے) اور میراث،ولاء اور وصیت کے مسائل ’’پر القرائض الفیضیہ فی الفرائض و الولاء والوصیہ‘‘ عربی اشعار میں طبع ہو چکی ہیں،اس کے علاوہ آپ کے متعدد مطبوعہ اور غیر مطبوعہ عربی قصائد آپ کے تجر علمی،قدرت کلام اور اد ب عربی پر کامل عبور کے شاہد عادل ہیں۔
آپ کا یہ علمی کا رنامہ ناقابل فراموش ہے کہ آپ نے اعجاز و نبوت کے مدعئی تفسیر قرآن او عربی نوسی میں ’’انا ولاغیری‘‘(ہچوما دیگر ے نیست) کاڈھنڈور اپٹنے والے مرزا غلام احمد قادیانی کو وہ شکست فاش دی کہ مرزا صاحب تازیست علامہ کا سامنا کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ہوایوں مرزا صاحب کے بلند باتگ دعاوی اور الہامات کے پرزور اعلانات سن کر علامہ فیضی ۱۳؍فروری ۱۸۰۰ء کو مسجد حکیم حسام الدین (سیالکوٹ) میں بنفس نفیس تشریف لے گئے اور اپنا ایک بے نقط عربی قصیدہ (بلا ترجمہ) مرزا صاحب کو دکھایا جس میں لکھا تھا کہ اگر آپ کو الہام ہوتا ہے تو مجھے آپ کے الہام کی تصدیق کے لئے یہی کافی ہے کہ اس قصیدہ کا مطلب حاضرین کو سنادیں،اس قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
لما لک ملکہ حمد،سلام
علیٰ مرسولہ علم الکمال
حمودا حمد و محمدو
طھور مع اولاء واٰل
اما مملوک[1]احمد،اھل علم
والھام وحلالا السؤال
مرزا صاحب کو کافی دیر دیکھنے کے بعد جب کچھ بی پتہ نہ چلا تو اپنے ایک فاضل ھواری کو دے دیا مگر اسکے پلے بھی کچھ نہ پڑا،مقابلہ معارضہ تو کجا انہیں تو مطلب بھی سمجھ نہ آیا اور نہہی قصیدے کو صحیح طور پر پڑھ سکے،آخر یہ کہہ کر قصیدہ واپس کردیا کہ ہمیں تو اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا،آپ ترجمہ کر کے دیں۔
علامہ فیضی نے ۹ مئی ۱۸۹۹ء کو سراج الاخبار میں ایک اشتہا ر شائع کیا جس میں یہ تمام واقعہ درج کردیا اور آخر میں کھلے لفظوں میں مرزا صاحب کو چیلنچ کیا:۔
’’اخیر پر میں مرزا صاحب کو اشتہار دیتا ہوں کہ اگر وہ اپنے عقائد میں سچے ہوں تو آئیں،صدر جہم میں کسی مقام پر مجھ سے مباحثہ کریں،میں حاضر ہوں تحریری کریں یا تقریری،اگر تحریر ہو تو نثر میں کریں،یا نظم میں عربی،ہویا فارسی یا اردو،آئیے سنئے اور سنائیے۔‘‘
مگر مرزا صاحب نے کچھ جواب نہ دیا اور اس طرح چپ سادھی کہ کروٹ نہ بدلی،بعد ازاں پھر مرزا صاحب کو ایک مکتوب ارسال کیا جو۱۳؍اگست ۱۹۰۰ء کو سراج الاخبار میں شائع ہوا اس میںآپ نے پھر مرزا صاحب کو دعوت مقابلہ دی اور واضح طور پر لکھا کہ:
’’میں آپ کے ساتھ ہر ایک مناسب شرط نظم ونثر لکھنے کو تیار ہوں تاریخ کا تقرر آپ ہی کردیجئے اور اطلاع کردیجئے کہ میں آپ کے سامنے اپنے آپ کو حاضر کردوں۔‘‘
اس دفعہ آپ نے جہلم کی قید بھی حذف کردی اور مرزا صاحب کو اختیار دیا کہ جہاں چاہیں مقابلے کے لئے آجائیں لیکن ’’ھلمن مبارز‘‘ کا ببانگ دہل اعلان کرنے والے مرزاصاحب اس چیلنچ کو بھی حسب سابق پی گئے اور منقار زیر پر رہنے میں عافیت سمجھی۔
مرزا صاحب نے آئے دن نت نئے دعووں پر اکتفانہ کیا بلکہ ایک قدم آگے بڑھا کر تمام علماء اسلام،خاص طور پر شیخ الاسلام مرشد المسلمین حضرت خواجہ پیر سید مہر علی شاہ قدس سرہ کو تحریری مقابلہ کا بڑی شدو مد سے چیلنچ کیا تو آپ نے بے پناہ مصروفیات کے با وجود مرزا کا چیلینچ قبول کیا اور ۲۴؍اگست ۱۹۰۰ء کو لاہور تشریف لائے سینکڑوں علماء اور ہزاروں عوام حق و باطل کا فیصلہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لئے موجود تھے لیکن مرزا صاحب کو سامنے آنے کی جرأت نہ ہو سکی۔اس موقع پر علامہ فیضی نے بادشاہی مسجد میں ہزاروں کے اجتماع میں پر مغز تقریر کی اور مرزا کے تمام مکرو فریب کو طشت ازبان کردیا جس سے تمام لوگوں پر حضرت پیر صاحب کی ھقانیت اور مرزا کی بطالت روز روشن کی طرح واضح ہوگئی۔
علامہ فیضی قدس سرہ نے دوران تقریر فرمایا حضرت پیر صاحب۲۴؍اگست سے لاہور میں تشریف فرما ہیں مگر مرزا صاحب ادھر آنے کا نام تک نہیں لیتے:
’’یہ حقیقت میں خود مرزا کے اپنے قول کے مطابق ایک الٰہی عظمت و جلال کا کھلم کھلا نشان تھا جس نے مرزا کی جھوٹی وبے جا شیخی کو کچل ڈالا اور آپ کے حواس کی وہ گت ہوئی کہ مقابلہ و مباحثہ لاہور تو درکنار آپ کو سوائے اپنے بیت المقدس کے تمام دنیا ومافیہا کی خبر نہ رہی اور ’’وقذف فی قلوبہم الرعب بماکفروا‘‘ کا مضمون دوبارہ دنیا کے صفحہ پر معرض ظہور پر آیا[2]۔‘‘
برخلاف اس کے حضور پر نور حضرت پیر صاحب ممدوح کے دست مبارک پر خدا وند کریم نے وہ نشان ظاہر کردیا جس کا آیت مبارکہ’’وکان حقا علینانصر المؤمنین‘‘ میں وعدہ دیا گیا تھا۔
علامہ فیضی رحمہ اللہ تعالیٰ جب تک زندہ رہے اس وقت تک تو مرزا صاحب نے سکونت کو حرزجاں بنائے رکھا لیکن جب علامہ وصال فر ما گئے تو مرزا نے موقع کو غنیمت جانا اور ان کی وفات کو حسب عادت اپنی صداقت کا نشان قرار دے دیا چنانچہ مرزا صاحب نے اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی میں یوں لکھا کہ:۔
’’۷۴ ایسا ہی مولوی محمد حسن بھیں والا میری پیشن گوئی کے مطابق مرا جیسا کہ میں نے مفصل اپنی کتاب مواہب الرحمن میں لکھا ہے۔‘‘
’’۱۵۳ مولوی محمد حسن بھیں والے نے میری کتاب اعجاز احمدی کے حاشیہ پر’’لعنۃ اللہ علی الکاذبین‘‘ لکھ کر اپنے تئیں مباہلہ میں ڈالا چنانچہ اس تحریر پر ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ مرگیا[3]۔‘‘
تعجب ہے کہ اگر مرزا صاحب اتنے ہی صاحب الہام تھے تو حضرت علامہ فیضی کے بار بار دعوت دینے پر سامنا کرنے کی جرأت کیوں نہ کر سکے؟
علامہ فیضی حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی قدس سرہ سے بڑے نیاز مند انہ تعلقات رکھتے تھے چنانچہ علامہ کے بعض قصائد سے ان تعلقات کا نجوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔ایک قصیدہ میں فرماتے ہیں ؎
سقی اللہ دیمات التحیات دائما
دیار کریم طیب الشیمۃ المھدی
علیہ سلام اللہ ربی ورحمۃ
الیٰ ان یدور النیرات علی الرئد
وانت طبیب القلب لازلت مرشدا
وتسقی عطا شامن حلیب ومن شھد
وبعد فقد ابنا الیک محبۃ
امرنا بھا وھی الوسیلۃ للبعد
وناظم ھذا الحرف خادم بالکا
رجاء منک الجمیل من الرفد
وکم غائب اصفیی واحلیٰ ومودۃ
من الحاضرین الاٰخذین من السفد
علامہ فیضی کی الواد میں سے مولانا فیج الحسن فیض جید عالم او ادب عربی کے بلند پایہ فاضل اور شاعر گزرے ہیں۔مولانا محمد حسن فیضی قدس سرہ کا وصال رجب، ۱۸؍اکتوبر(۱۳۱۹ھ؍۱۹۰ئ)کو ہوا،آپ کی آخری آرام گاہ بھیں ضلع جہم میں ہے[4]
نوٹ: رد مرزائیت میں مولانا محمد حسن فیضی کے کارناموں کی تفصیل کے لئے مولانا محمد منشا تابش قصوری زید مجدہ کا مضمون’’ختم نبوت کے تین مجاہد‘‘ ماہنامہ ضیائے حرم کے ختم نبوت نمبر شمارہ دسمبر ۱۹۷۴ء میں ملاحظہ فرمائیں۔
[1] غلام احمد کیا خوب بے نقط ترجمہ ہے!
[2] محمد کرم الدین دبیر،مولانا: تازیانۂ عبرت ص۵۴
[3] محمد کرم الدین دبیر،مولانا: تازیانۂ عبرت ص۳۳
[4] محمد کرم الدین دبیر،مولانا: تازیانۂ عبرت ص ۴۵
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)