محدث کبیر علامہ ابو الحسن کبیر ٹھٹوی المعروف علامہ سندھی
محدث کبیر علامہ ابو الحسن کبیر ٹھٹوی المعروف علامہ سندھی (تذکرہ / سوانح)
محمد نام ، ابو الحسن کنیت ، نور الدین لقب ، المعرف علامہ سندھی، محمد بن عبدالہادی سندھی ٹھٹوی ثم مدنی حنفی۔ ٹھٹھہ (سندھ) میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
ٹھٹھہ میں ہی تعلیم و تربیت ہوئی ، ٹھٹھہ کے علماء و فضلاء سے علوم کی تحصیل کی، تکمیل علوم کے بعد ٹھٹھہ میں تدریس کا شغل اختیار کیا اور جلد طلبہ کا مرجع بن گئے اور محققین علماء میں شمار ہونے لگے۔ پھر حجاز مقدس کا سفر کیا اور وہاں شیوخ حرم سے احادیث مبارکہ کا سماع کیا۔ محدث محرم علامہ ابراہیم کردی کورانی، شیخ محمد بن عبدالرسول برزنجی مدنی (ان کی کتاب الاشاعۃ لاشراط الساعۃ) کا اردو ترجمہ ’’قیامت کی نشانیاں‘‘ کے نام سے شیخ القرآن علامہ مفتی محمد فیض احمد اویسی بہاولپوری نے کیا اور بزم اویسیہ رضویہ پبلشرز کراچی نے ۲۰۰۴ء میں اشاعت کا اہتمام کیا) اور شیخ عبداللہ بن سالم وغیرہ سے استفادہ کیا اور سند لی۔ دو برس تک حرم مکہ میں مجاورت اور قیام کے بعد مدینہ منورہ میں اقامت گزیں ہوئے (فوائد جامعہ ۲۱۶ مطبوعہ ۱۹۶۴ئ)
درس و تدریس:
حرم نبوی میں حدیث و تفسیر اور فقہ کا درس دینا شروع کیا۔ علم و فضل اور فہم و فراست کے ساتھ زہد و ورع، صلاح و تقویٰ، اتباع سنت اور اخلاص کی صفات سے بھی متصف تھے۔ حرم نبوی میں بھی ان کی ذات سے طلبہ کو بڑا فائدہ ہوا۔ (ایضاً) علامہ سندھی نے حرم نبوی میں موطا امام مالک، مسند امام احدم بن حنبل ، صحاح ستہ، تفسیر بیضاوی اور فقہ حنفیہ میں ہدایہ شریف کا درس دیا کرتے تھے۔
مخدوم امیر احمد رقمطراز ہیں: علامہ سندھی نے مدینہ منورہ میں ’’مدرسۃ الشفائ‘‘ قائم کیا تھا جو کہ آج بھی قائم ہے اور ترکی کے اوقاف میں شامل ہے۔(الرحیم جولائی ۱۹۶۳ء ص۳۲)
نجدیوں وہابیوں کو شفا لفظ شرک و بدعت نظر آنے لگی اسلیے دینی درسگاہ کو تباہ و برباد کرکے اپنے ملحد ہونے کا اعلان کیا۔
مدرسہ کو ’’مدرسۃ الشفائ‘‘ کہنے کی کیا وجہ تھی اس سلسہ میں دو روایات ہیں:
۱۔ ایک روایت کے مطابق اس مدرسہ میں عاشق خیر الانام امام قاضی عیاض مالکی اندلسی قدس سرہٗ (متوفی ۵۴۴ھ) کی مشہور کتاب الشفاء فی تعریف حقوق المصطفیٰ (اس کا نہایت فصیح و بلیغ اردو ترجمہ مولانا عبدالحکیم اختر مجددی نے کیا ہے) جو کہ حضور پاک صاحب لو لاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص فضائل معجزات و کمالات پر مشتمل ہے ۔ اس کا علامہ سندھی بڑے اہتمام سے درس دیا کرتے تھے۔
۲۔ دوسری روایت کے مطابق فوج کا ایک سالار جو کہ لا علاج مرض میں مبتلا تھا ، علامہ سندھی کی جانب رجوع ہوا۔ علامہ کی مقبول دعا کے سبب انہیں کامل شفا ملی اور وہ تندرست ہوگیا بعد میں اس سالار نے علامہ کیلئے مدرسہ تعمیر کروایا جو کہ ’’مدرسۃ الشفائ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ (سندھ جا اسلامی درسگاہ) اس سے معلوم ہوا کہ علامہ سندھی مستجاب الدعوات کامل ولی اللہ تھے۔
تصنیف و تالیف:
علامہ سندھی نے (۱۔۶) ’’حواشی علی الصحاح الستہ‘‘ یعنی حدیث کی مشہور چھ کتابوں پر عربی میں حواشی (یعنی مختصر و جامع شرح) لکھی۔ البتہ جامع ترمذی پر حواشی مکمل نہ ہوسکی۔ سن ابن ماجہ پر حواشی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
بخاری اور سنن ابن ماجہ مکرر طبع ہوئے ہیں۔ سنن نسائی پر حواشی ہندو پاک او رمصر سے شائع ہوئی ہے۔ صحیح مسلم پر حواشی جو کہ بالکل مختصر ہے ملتان سے شائع ہوئی ہے۔ سنن ابی دائود کا حاشیہ جس کا نام ’’فتح الودود شرح سنن ابی دائود‘‘ ہے اب تک شائع نہیں ہوئی اس کا ایک قلمی نسخہ درگاہ شریف پیر جو جھنڈہ (ضلع حیدرآباد )کے کتب خانہ میں موجود ہے۔
۷۔ حاشیہ علیٰ مسند الامام احمد: اس کا رُبع اول شیخ عبدالحئی کتانی صاحب فہرس الفہارس کے پاس موجود تھا ۔
۸۔ حاشیہ علی تفسیر البیضاوی : اس کا قلمی نسخہ شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدرآباد میں تھا۔
۹۔ البدر المنیر شرح فتح القدیر (اور فتح القدیر شرح ہے ہدایہ شریف کی) یہ کتاب کتاب النکاح تک ہے ۔ ایک قلمی نسخہ مدینہ منورہ کے کتب خانہ محمودیہ اور ایک اسلامیہ کالج پشاور کی لائبریری میں تھا۔
۱۰۔ حاشیہ علیٰ کتاب الاذکار للامام النووی
۱۱۔ حاشیہ علی الزہرا وین لملا علی القاری المکی
۱۲۔ تفسیر لطیف
۱۳۔ حاشیہ علی الجلالین
۱۴۔ حاشیہ علیٰ شرح جمع الجوامع لابن القاسم: اس حواشی کا نام ’’الایات البینات‘‘ہے۔
۱۵۔ الفیوضات النبویہ فی حل المغازی البکرویہ: اس کا ایک نسخہ ایشیا ٹک سوسائٹی بنگال میں ہے۔
۱۶۔ حاشیہ علیٰ شرح النخبۃ الفکر
۱۷۔ منھل الھدایت شرح معدن الصلوٰۃ وغیرہ
تلامذہ:
مشرق و مغرب میں آپ کے تلامذہ کا طویل سلسلہ ہے ۔ اس فہرست طویل میں سے بعض کے نام معلوم ہوسکے جو کہ درج ذیل ہیں:
۱۔ مخدوم علامہ محمد حیات سندھی محدث مدنی
عادات و خصائل:
یہاں بعض مورخین کے تاثرات نقل کرتے ہیں جن سے آپ کی شخصیت کے مزید پہلو روشن و اجاگر ہوں گے، آپ کے علم و فضل عادات و خصائل کا بخوبی اندازہ ہو سکے گا۔
۱۔ مورخ ابو الفضل محمد خلیل مرادی نے ’’سلک الدرر فی اعیان القرن الثانی عشر‘‘ مطبوعہ مصر ۱۳۰۱ھ میں علامہ سندھی کا تذکرہ ان الفاظ سے شروع کیا ہے:
’’محمد بن عبدالھادی السندی الاصل المولد الحنفی نزیل المدینۃ المنورہ الشیخ الامام العلام العامل العلامۃ المحقق المدقق التحریر القفہامۃ ابو الحسن نور الدین۔‘‘
پھر لکھا:
’’موصوف نے مدینہ منورہ کا سفر کیا اور اسی کو وطن بنا لیا اور یہیں بہت سے شیوخ جیسے سید محمد برزنجی، ملا ابراہیم کورانی وغیرہ سے استفادہ کیا اور حرم شریف میں درس دیا۔ فضیلت، ذکاوت، اور نیکی میں شہرت پائی… موصوف جلیل القدر شیخ تھے۔ حدیث، تفسیر، فقہ، اصول ، معانی، منطق اور عربیت وغیرہ میں ماہر اور محقق تھے۔ ان سے بہت سے شیوخ نے استفادہ کیا۔ جن میں شیخ محمد حیات سندھی مشہور ہیں۔ موصوف عالم، عامل، متقی اور زاہد تھے۔‘‘ (سلک الدرر…ص۶۶ ج۴)
۲۔ علامہ عبدالرحمن جبرتی حنفی (متوفی ۱۲۳۷ھ) ’’عجائب الآثار فی التراجم و الاخبار‘‘ میں رقمطراز ہیں:
علامہ صاحب فنون ابو الحسن… نے حدیث بابلی اور محدثین واردین حرم سے سنیں۔ (عجائب الآثار ج۱ ص:۸۵)
۳۔ امام یمن و حجاز علامہ شیخ محمد عابد سندھی محدث مدنی حنفی قدس سرہ (متوفی ۱۲۵۷ھ) فرماتے ہیں:
’’موصوف علام با ضابطہ اور ہر فن تھے، تمام علوم کے جامع تھے منطوق اور مفہوم میں غور و خوض کیا تھا۔ خاص طور سے علم حدیث میں اور اس میں تو انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔‘‘
۴۔ حافظ سید عبدالحئی الکتانی ’’فہرس الفھارس ‘‘ میں لکھتے ہیں:
نور الدین محمد بن عبدالھادی التتوی المدنی ھو محدث المدینۃ المنورۃ واحد من خدم السنۃ من المتاخرین خدمۃ لا یستھال بھا (فہرس الفھارس ج۱ ص۱۰۳ مطبوعہ)
۵۔ مولانا عبدالرشید نعمانی اپنے تحقیقی مقالہ میں لکھتے ہیں:
’’علامہ سندھیکوتفسیر ، حدیث، فقہ، اصول، نحو، عربیت، معانی، منطق، تمام علوم میںتبحرکا درجہ حاصل تھا اور وہ ان سب فنون میں محققانہ امتیاز رکھتے تھے خاص طور پرفقہ و حدیث میں ان کا درجہ بہت اونچا تھا۔ علامہ نسدھیکی متعدد تصانیف اب چھپ کر منظر عام پر آگئی ہیں جن سے ان کی جلالت علمی کا آج بھی اہل علم کو اندازہ ہوسکتا ہے۔
صحاح ستہ پر حافظ سیوطی نے بھی تعلیقات لکھی ہیں اور علامہ سندھی نے بھی ، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ پر ان دونوں حضرات کے خواشی طبع ہو چکے ہیں دونوں کا موازنہ کر لیا جائے ۔ اس میں شک نہیں کہ سیوطی کے یہاں غرر نقول موجود ہیں اور علامہ سندھی نیخود ان کی شروح سے کافی فائدہ اٹھایا ہے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جہاں نقل سے نہیں بلکہ عقل سے کام پڑتا ہے اور فہم مراد اور توضیح مطالب کی باری آتی ہے وہاں کس کا پلہبھاری ہے…اتنا سمجھ لینا چاہئے کہ سیوطی اگر وسعت نظر میں تیزرہے ہوئے ہیں تو علامہ سندھی وقت نظر میں فائق ہیں۔ جہاں دوسرے شارحین توجیہ سے عاجز ہوتے ہیں وہاں علامہسندھی بہترین توجیہ پیش کر دیتے ہیں۔ سیوطی کو سات علوم میں اجتہاد کا دعویٰ تھا منجملہ ان کے نحو و عربیت بھی ہیں لیکن نسائی کے دونوں حاشیے اس بات کے شاہد ہیں کہ متعدد مقامات پر حافظ سیوطی نے تحلیل صرفی یا ترکیب نحوی یا وجوہ معانی کے لحاظ سے کسی ایک خاص توجیہ کی صحت سے انکار کیا اور ہمارے علامہ سندھی نے اسیخاص توجیہ کو صرف یا نحو یا علممعانیکی روشنی میں مدلل و مبرہن کردیا۔
سنن نسائی کے تراجم و ابواب پر جس طرح علامہ سندھی نے کلام کیا ہے کسی نے نہیں کیا ۔ اسی طرح سنن ابن ماجہ کے زوائد پر حافظ بوصیری کی تحقیقات کو نقل کرکے حافظ سیوطی کے مقابلہ میں انہوںنے اپنی شرح کو آسمان پر پہنچا دیا ہے۔
علم حدیث پر علامہ سندھی نے خاص توجہ کی ہے اور اس فن میں انہوں نے بڑی شاندار خدمات انجام دی ہیں۔ برصغیر (پاک و ہند و بنگال) میں یہی ایک بزرگ ایسے ہیں جن کو صحاح ستہ کی تمام کتابوں پر (عربی میں) شرح لکھنے کا فخر حاصل ہے۔ ان کی جلالت قدر کااعتراف عرب و عجم کے علماء کو ہے۔ شیخ اسماعیل بن محمد سعید نے جب اپنے مشہور شاگرد منتی کو علم حدیث کی سند دی تو علامہ سندھی کے متعلق لکھا:
’’کان احد الحافظ المحققین والجھا بذۃ المدققین‘‘
کتب مذکورہ کے متن احادیث پر ان کی بری گہری نظر ہے، وہ شرح حدیث کے امام ہیں اور خوب سے خوب توجیہ اور عمدہ سے عمدہ نکتے بیان کرتے ہیں۔‘‘
(مقالہ: امام ابو الحسن کبیر سندھی ، تحقیق: عبدالرشید نعمانی، جو پاکستان ہسٹری کانفرنس کے گیارہویں سالانہ اجلاس ۱۹۶۱ء میں پڑھا گیا)
مقام عبرت:
مجھے یہاں کچھ کہنا ہے،دل کے کان لگا کر سنیے، اگر پسندآئے تو عمل کریں ورنہ جبر نہیں لیکن مقام عبرت ضرور ہے۔ نئے پرانے سندھی حضرات قیام پاکستان کو پچاس سال کامل گزرنے کے باوجود آج بھی ہندوستانی علماء پر کام کرنے میںفخر محسوس کرتے ہیں، ان کے نام پر ادارے چلا رہے ہیں ، یہ عمل معیوب نہیں ’’شاہ ولی اللہ کے فلسفہ‘‘ کا ڈھنڈھورا پیٹنا برا نہیں ۔ لیکن غالبا! یہ معلوم نہیں کہ جس علاقہ (سندھ) میں وہ سکونت پذیر ہیں وہاں کس پایہ کے گوہر نایاب آنکھوں سے اوجھل و پوشیدہ ہیں۔ ان مقامی علماء کے ساتھ نا انصافی ضرور ہے۔ اپنے گوہر نایاب کو فراموش کرکے ساری وابستگی ہندوستان کے ساتھ رکھنا حق انصاف نہیں۔ ہم انصاف چاہتے ہیں۔ وہاںکے علماء پر کام کرنا وہاں کے مسلمانوں کا کام ہے، یہاں کے علماء پر کام کرنا ، انہیں کے نام سے ادارے قائم کرنا یہاں کے مسلمانوں کا کام ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے ہمیں اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھانا چاہئے۔ ٹھنڈے دل سے ذرا سوچئے کہ کبھی کسی ہندوستانی نے یہاں کے کسی سندھی عالم پر کام کیا ہے یا کسی نے دہلی میںیہ زحمت گوارا کی کہ ’’محدوم ابو الحسن کبیر ٹھٹوی‘‘ کے نام سے تحقیقی ادارہ قائم کرے۔ نہیں بالکل نہیں ۔ للہ غور کیجئے!
اعجاز الحق قدوسی، عبدالرشید نعمانی، ڈاکٹر وفا بنگالی، ڈاکٹر محمد زبیر حکیم محمد رمضان قادری، پروفیسر آفاق صدیقی، سمیع الوری، اختر رضوی، الیاس عشقی، راشد برہان پوری، شاہد کاظمی، خالد اطہر، آغا سلیم، ڈاکٹر نجم الاسلام، وغیرہ نئے نسدھی ہونے کے باوجود انہوں نے سندھی شخصیات پر کام کرکے اچھی رسم ڈالی ہے۔ اسی نہج پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
وصال:
مخدوم ابو الحسن کبیر ٹھٹھوی المعروف علامہ سندھی کے سن انتقال میں اختلاف ہے لیکن آپ کے شاگرد ارشد علامہ محمد حیات سندھی، حافظ سید عبدالحئی کتانی اور صاحب الیانع الجنی کا خیال ہیکہ ۱۱۳۹ھ۱۷۲ء کو انتقال ہوا۔ حرم نبوی میں نماز جنازہ ادا ہوئی اور مدینہ منورہ کے عظیم تاریخی و مذہبی قبرستان جنت البقیع میں دفن ہونے کی سعادت حاصل کی (فوائد جامعہ ص۲۰۰)
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)