بحر العلوم علامہ فتح علی جتوئی اصغر
بحر العلوم علامہ فتح علی جتوئی اصغر (تذکرہ / سوانح)
حضرت علامہ فتح علی جتوئی بن مصری خان جتوئی گوٹھ کھڈیوں نزد اپنے آبائی گوٹھ ( نزد درگاہ حضرت شاہ یقیق ؒ وایا چوہڑ جمالی ضلع ٹھٹھہ ) میں ۱۲۸۶ھ میں تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت :
ابتدائی تعلیم علامہ مفتی حاجی عبداللہ جتوئی سے حاصل کی۔ اس کے بعد حضرت علامہ محمد ہاشم دھوبی سے گوٹھ غلام اللہ میں زیر تعلیم رہے اور اعلیٰ تعلیم کے لئے امام المناطقہ علامہ مفتی خادم حسین جتوئی ( رتود یر و ضلع لاڑ کانہ ) کی خدمات حاصل کی ۔ جہاں سے نصاب و دیگر کتب کی تکمیل کے بعد فارغ التحصیل ہوئے ۔
بیعت :
آپ ، قاطع نجدیت علامہ خواجہ محمد حسن جان سر ہندی قدس سرہ سے سلسلہ نقشبندیہ میں مرید و خلیفہ تھے۔ ( بروایت مولانا عبدالحئی جتوئی ، جاتی )
درس و تدریس :
علامہ جتوئی ایک جید عالم دین ، بہترین فیلسوف ، قابل فخر مدرس ، پر جوش مقرر ، اور علم منطق و فلسفہ میں اپنے دور میں ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ علمائے اہل سنت نے ۱۹۱۶ء میں علامہ جتوئی کو ’’بحر العلوم ‘‘ کا خطاب دیا۔ اسی سال حرمین شریفین کا سفر اختیار کیا حج اور مدینہ منورہ کی زیارت کی سعادت عظمیٰ حاصل کی۔ اور ایک سال مدینہ منورہ میں گنبد خضریٰ کے زیر سایہ قیام کیا۔ حضور پر نور ﷺ کے مزار پر انوار کی زیارت ہر عاشق کے دل کی صدا ہے۔ اسی قیام کے دوران مدینہ منورہ میں درس و تدریس میں بھی مشغول رہے۔ ۱۹۱۷ء میں وطن واپس ہوئے تو تحصیل جاتی میں رئیس بھیگارو تھیم کی جانب سے قائم کردہ مدرسہ میں مدرس مقرر ہوئے ۔ اس کے بعد سجاول کے مدرسہ دارالفیوض ہاشمیہ میں مدرس مقرر ہوئے ۔
اس کے بعد چوہڑ جمالی میں مولانا محمد عمر دھوبی ( جدا مجد حبیب سندھی ) حاجی عبداللہ پٹھان اور حاجی علی محمد درس اور دیگر احباب کی امداد و تعاون سے ۱۵۰ روپے میں ایک پلاٹ خرید کر مدرسہ ’’ دارالاشاد ‘‘ کی بنیاد رکھی ۔ مدرسہ کا افتتاح قاطع دیوبندیت خطیب اہل سنت حضرت مولانا پیر غلام مجدد سر ہندی مٹیار وی سے کروایا۔ اسی مدرسہ میں دو سال درس دیا۔ اس کے بعد اپنے تلامذہ مولانا حاجی محمد عثمان میمن اور میاں محمد مراد جمالی کو مدرسہ میں مدرس مقرر کیا۔ ’’ دارالاشاد ‘‘ پر بعد میں وہابیت کے قبضہ گروپ نے قبضہ کر لیا، مدرسہ کا اصل نام تبدیل کر کے ’’مدرسہ دارالتوحید ‘‘رکھا۔ لیکن نا معلوم و جوہات کی بنا پر وہ نام بھی تبدیل کر کے دوسرا نام ’’ مدرسہ نور الاسلام قاسمیہ ‘‘ رکھا گیا ہے۔ اور نامور بے ادب خطیب مولوی عبدالغفور قاسمی دیوبندی سجاولی نے سر پرستی اختیار کی ہے۔ مقام افسوس ہے۔
تلامذہ :
آپ کے تلامذہ میں سے درج ذیل اسماء معلوم ہو سکے ہیں :
٭ مولانا حاجی نور محمد لوہار ( استاد نور محمد کچھی سجاولی )
٭ مولانا حاجی محمد عثمان میمن چوہڑ جمالی
٭ مولانا میاں محمد مراد جمالی چوہڑ جمالی
٭ مولانا محمد تہیم جاتی
٭ نامور وہابی شاعر حاجی احمد ملاح بدین
٭ مولوی خیر محمد نظامانی نندو شہر ضلع بدین
٭ مولوی محمد موسیٰ ملانو جاتی
تحریک خلافت:
علامہ جتوئی تحریک خلافت کے سر گرم کارکن تھے۔ مولانا ۱۹۲۱ء میں انگریزوں کے خلاف تقریر کرنے کے جرم میں ایک سال اسیر رہے ۔ اس دوران بھی جیل میں خاموش نہ رہے ، جیل میں قیدیوں کو انگریز حکومت کے خلافت تیا ر کرتے رہے، چنانچہ ایک بار جیل سے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ جس کے سبب گورنمنٹ نے فرار ہو نے اور قیدیوں کو گورنمنٹ برطانیہ کے خلاف اکسانے کے جرم میں مولانا پر مزید سختی کی اور با مشقت سزا سنائی۔
ان تمام تکالیف و اذیتوں کو کمال صبر سے برداشت کرتے رہے اور جیل میں مدرسہ پڑھاتے رہے ایک سال کے اندر ۳۰۰ قیدیوں کو قرآن مجید کی ناظرہ تعلیم دینے میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ اس طرح اپنی شفقت و محبت سے مجرم پیشہ لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا اور عشق مصطفیٰ ﷺ کی شمع ان کے سینوں میں روشن کی۔
اولاد:
آپ کی اولاد میں ایک بیٹا محمد ہاشم اور ایک بیٹی تولد ہوئی ۔
وصال:
علامہ فتح علی جتوئی اصغر ایک عالم باعمل ، مجاہد ، حق گو، جراٗ نوں کا پیکر ، علم کا سمندر، پرہیز گار، شب خیز، سنت نبوی کا پابند ، فخر اہل سنت اور مستجاب الدعوات تھے اور کئی کرامات کا آپ سے ظہور ہوا۔ ۴، ذوالعقدہ ۱۳۵۵ھ؍۱۹۳۷ء کو ۶۹ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ آپ کی آخری آرامگاہ درگاہ شریف حضرت شاہ یقیق ؒ ( وایا چوہڑ جمالی ضلع ٹھٹھہ ) جیسے کامل و محبوب و سخی ولی اللہ کے زیر سایہ ہے۔ ( ٹھٹھہ صدین کان )
(انوارِ علماءِ اہلسنت )