علامہ حاجی فقیر اللہ علوی
علامہ حاجی فقیر اللہ علوی (تذکرہ / سوانح)
عارف باللہ حضرت علامہ حاجی فقیر اللہ علوی بن عبدالرحمن بن شمس الدین گیارہویں صدی ہجری کے بالکل اوائل میں گاوٗں ’’روتاس ‘‘ ضلع جلال آباد ( افغانستان ) میں تولد ہوئے ۔ آپ سلسلہ نسب میں علوی ہیں یعنی امیر الموٗمنین خلیفۃ المسلمین حضرت سید نا علی المرتضیٰ کے فرزندار جمند حضرت امام محمد بن حنفیہ کی اولاد میں سے ہیں ۔
تعلیم و تربیت :
علوم ظاہر یہ کی تکمیل آپ نے افغانستان اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں کی اور اپنے تبحر علمی کی بدولت آپ کا شمار اس دور کے ممتاز ترین علماء اور فضلاء میں ہوتاہے۔
( تذکرہ صوفیائے سندھ)
شیخ الاسلام فقیہ الاعظم مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی قدس سرہ الاقدس سے خوب استفادہ کیا۔ علامہ محمد صادق حصار کی افغانی ، شیخ عبدالقادر مکی ، شیخ سید محمد عمر مکی ، شیخ سید محمد عمر مکی ، شیخ طیب خطیب بن عمر الناشری یمنی ، شیخ محمد حیات سندھی مدنی حنفی وغیرہ اساتذہ علم وفن سے فیضیاب ہوئے۔ ( سندھ جا اسلامی درسگاہ ص ۲۶۳)
بیعت و خلافت :
علوم ظاہر یہ کی تکمیل کے بعد علامہ فقری اللہ علوی ایک طویل عرصہ تک مختلف ممالک کا سفر کرتے رہے اور زیارت حرمین شریفین سے مشرف ہوئے۔ اسی زمانے میں آپ نے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت محمد مسعود دائم پشاوری کے دست حق پرست پر بیعت کی جو اپنے زمانے کے اکابر اولیاء میں تھے، آپ کا سلسلہ طریقت یہ ہے:
حاجی فقیر اللہ علوی عن شیخ محمد مسعود دائم عن شیخ محمد سعید لاہوری عن شیخ محمد آدم بنوری عن حضرت شیخ احمد فاروقی مجدد الف ثانی سر ہندی ۔ ( تذکرہ صوفیائے سندھ )
سلاسل طریقت کے متعلق ’’قطب الارشاد ‘‘ ( عربی ) حضرت علامہ حاجی فقیر اللہ علوی پر نظر کرتے ہیں تو آپ نہ صڑف چاروں سلاسل کے نقشبندیہ قادریہ چشتیہ سہروردیہ میں صاحب اجازت تھے بلکہ شطاریہ ، قشیر یہ ، شازلیہ اور اس دور کے کئی مروجہ سلاسل طریقت میں بھی صاحب اجازت تھے۔ حضرت فقیر اللہ علوی شکار پوری نے قطب الارشاد میں آپ نے سلاسل گنواتے ہوئے تقریبا ہر سلسلے میں اپنے مشائخ عظام میں حضرت مخدوم ہاشم ٹھٹھوی نور اللہ مر قدہٗ کا ذکر کیا ہے۔ ( تحفۃ الزائرین ص ۳۳۴)
قندھار میں قیام :
آپ ایک طویل عرصہ تک قندھار میں مقیم رہے۔ قندھار میں آپ کے نام سے موسوم ہے۔
شکار پور میں قیام :
مختلف ممالک کی سیاحت کے بعد آپ ۱۱۵۰ھکو شکار پور ( سندھ ) میں تشریف لائے۔ اور یہاں ایک خانقاہ کی بنیاد رکھی ۔ جہاں پر امامت ، خطابت ، درس و تدریس ، رشد و ہدایت اور تصنیف و تالیف کے اہم کام میں سر گرم رہے۔
تلامذہ:
آپ سے کثیر مخلوق نے استفادہ کیا جن میں سے ایک قابل قدر اور عظیم الشان شخصیت امام العارفین حضرت پیر سائیں روزے دھنی قدس اللہ تعالیٰ سرہ العزیز ہیں ۔
عادات و خصائل:
آپ کی ذات گرامی علم و فضل ، زہد و ورع ، عرفان وتصوف کا وہ سر چشمہ تھی کہ سندھ ، پنجاب ، سرحد ، افغانستان اور ہر ات سے لوگ آپ کی خدمت میں کھینچ کھینچ کر آتے ، ظاہری و باطنی علوم کی تعلیم حاصل کرتے اور عرفان کے نور سے منور ہو کر جاتے تھے۔
آپ پیکر اخلاق واخلاص تھے، سادگی پسند تھے، اور سادات کرام کا نہایت احترام کرتے تھے۔ آپ کی سعی مشکور سے شکار پور میں ہندو خاندان مسلمان ہوئے۔
سفر حرمین شریفین :
آپ نے سات (۷)بار حج بیت اللہ اور مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ کی حاضر ی کی سعادت حاصل کی۔ ( سندھ جا، اسلامی درسگاہ )
کتب خانہ :
شکار پور کے دوران قیام میں آپ نے ایک عظیم الشان کتب خانہ کی بنیاد رکھی جس میں متعدد نادر اور نایاب کتابیں تھیں لیکن افسوس ہے کہ آپ کے بعدپچاس سال ہی میںاخلاف نے اسلاف کی اس گنج گراں مایہ کو تلف کر دیا جو خدا ہی جانتا ہے کہ کس محنت سے جمع کیا گیا تھا۔ ( صوفیائے سند ھ)
آج بھی آپ کی خانقاہ شریف پر مدرسہ ، کتب خانہ ریسرچ سینٹر وغیرہ کے احیاء کی ضرورت ہے اور آپ کے تبر کات ( تصنیفات) کے حفاظت و اشاعت کی بھی اہمیت ہے۔ اللہ کرے کوئی مجاہد اس طرف متوجہ ہو۔
تصنیف و تالیف :
حضرت علامہ حاجی فقیر اللہ علوی شکار پوری نے تصنیفات کا ایک بیش بہاذخیرہ چھوڑا جن کی تعداد سترہ ( ۱۷) ہے ان کے نام درج ذیل ہیں :
۱۔ فتح الجمیل فی المدارج التکمیل ( عربی ) تصوف اور سلوک موضوع پر ہے۔
۲۔ براہین النجات من مصائب الدنیا والعرصات
۳۔ فیوضات الٰہیہ
۴۔ طریق الارشاد فی تکمیل المومنین و الا ولاد
۵۔ منتخب الاصول ( اصول فقیہ پر ہے)
۶۔ وثیقۃ الاکابر (عربی ) آپ نے ۱۱۶۰ھ کو اس کتاب کو تحریر فرمایا جو کہ اسناد علم حدیث پر ہے۔ اس کا ایک قلمی نسخہ اسلامیہ کالج پشاور کی لائبریری میں موجود ہے اور ایک قلمی نسخہ حافظ خان محمد صاحب کا کڑ کے پاس کوئٹہ میں تھا۔
۷۔ قطب الارشاد ( عربی ) تصوف اسرار و رموز و اخلاق پر ہے ، قاہرہ ( مصر) سے طبع ہو چکی ہے۔ کوئٹہ سے بھی شائع ہوئی ۔ اس کا ایک قلمی نسخہ پشاور لائبریری میں بھی موجود ہے۔
۸۔ فتوحات الغیبیۃ فی شرح عقائد الصوفیہ (عربی ) اس ضخیم کتاب کا موضوع فلسفہ ، تصوف ، اخلاق اور صوفیائے کرام کے عقائد و نظریات کی توضیح و شرح ہے ۔ اس کا ایک قلمی نسخہ موٗرخ و دانشور سید حسام الدین راشدی مرحوم کے کتب خانے میں موجود ہے اور اس نسخہ کو بجا طور پر تصوف کا انسائیکلو پیڈیا کہا جا سکتا ہے۔
۹۔ جواہر الاوراد ( عربی )
۱۰۔ قصیدہ مبرورہ ( عربی )
یہ وہ قصیدہ ہے جو ۱۲ جمادی الاولیٰ ۱۱۶۳ھکو آپ نے روضہ رسول ﷺ کے زیر سایہ مواجہہ شریف کے سامنے بیٹھ کر دل کی کیفیات کو نظم میں قلمبند کیا تھا۔
۱۱۔ کتاب الازھار فی ثبوت الاثار ( عربی)
۱۲۔ شرح قصیدہ بانت السعاد ( فارسی )
صحابی رسول حضرت کعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کے مشہور و معروف عربی قصیدہ بانت السعاد کی فارسی میں شرح لکھی جو کہ ضخامت کے حوالے سے تقریبا ۸۵ صفحات پر مشتمل ہے۔
۱۳۔ فوائد فقیر اللہ ( پشتو) طب ووظائف پر ہے۔
۱۴۔ ملفوظات شریف یہ کتاب ۳۳۲ صفحات پر مشتمل ہے اس کا ایک نسخہ حافظ خان محمد صاحب کے پاس کوئٹہ میں تھا۔
۱۵۔ مکتوبات علوی ( عربی و فارسی )
مرتبہ : مولانا محمد فاضل ، مطبوعہ :لاہور
یہ خطوط تصوف و عرفان ، اخلاق وفقہ اور اسرار اسمائے الٰہی کے باریک نکات پر مشتمل ہیں ۔ ان مکاتیب کے مطالعہ سے علامہ فقیر اللہ علوی ؒ الباری کی علمیت ، تبحر اور روحانی مقام و مرتبہ اور آپ کی تبلیغی و اصلای سر گرمیوں کا پورا نقشہ سامنے کھینچ جاتاہے۔
۱۶۔ ملفوظات و عملیات اس کا ایک نسخہ حافظ خان محمد صاحب کے پاس تھا۔
۱۷۔ شرح ابیات مشکل مثنوی ( فارسی )
یہ نسخہ ۶۰۰ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کا ایک قلمی نسخہ کابل میں پایا گیا۔
وصال :
حضرت علامہ الحاج فقیر اللہ علوی ۳، صفر المظفر ۱۱۹۵ھ؍ ۱۷۸۱ئ کو واصل باللہ ہوئے۔ آپ کا مزار شریف شکار پور ( سندھ ) میں ہاتھی گیٹ کے اندر مرجع خلائق ہے۔ مزار شریف پر عالیشان گنبد بنا ہوا ہے اس کے متصل مسجد شریف ہے۔ آج بھی دربار مقدس کے منتظمین آپ کے اخلاف ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو آپ کے نقش قدم پر چلائے۔ آمین ۔ ( تذکر ہ صوفیائے سندھ )
علم فقیہ و حکیم، فقر مسیح و کلیم
علم ہے جویائے راہ، فقر ہے دانائے راہ
میاں محمد عالم شکار پوری مرحوم نے قطع تاریخ وصال کہا:
بود آں حاجی فقیر اللہ بابرکت و نور
در درج معرفت میمون لقا محسن امور
از شہر صفر مظفر بود تاریخ سیم
کرد از دنیا بہ جنت روز یکشنبہ مسرور
سال تاریخ وصالش را بہ جستم از خرد
گفت در گوش دلم صاحبدلی اہل حضور
۱۱۹۵
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )