شیخ الاسلام حضرت علامہ خواجہ
شیخ الاسلام حضرت علامہ خواجہ (تذکرہ / سوانح)
محمد حسن جان مجددی فاروقی
حضرت خواجہ عبدالرحمن مجددی کے صاحبزادے سجادہ نشین اور ٹنڈو سائیں داد میں سر ہندی مجددی آستانہ کے خورشید ضیاء بار ، علوم عقلیہ و نقلیہ کے ماہر علم ، ظاہری و باطنی کے شاہ سوار حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی ۔
۶، شوال المکرم ۱۲۷۸ھ؍۱۸۶۱ء کو افغانستان کے شہر قند ھار مٰن آپ کی ولادت ہوئی ۔ جب آپ کے والد گرامی نے قندھار سے حرمین شریفین کی طرف ہجرت فرمائی تو آپ بھی اس سفر ہجرت میں ان کے ہمراہ تھے، اس سے قبل ۱۸۸۰ء میں جب افغانستان میں فرنگی استعمار کے خلاف علماء اور مشائخ نے جہاد کا اعلان فرمایا تو آپ نے بھی اپنے والد کے ہمراہ اس جہاد میں بھر پور طریقہ سے عملی طور پر حصہ لیا اور انگریزوں کے ایجنٹوں کا اپنے مرید وں کے ساتھ بھر پور مردانہ وار مقابلہ کیا۔
تعلیم و تربیت
اپنی تعلیم کے متعلق خود آپ نے اپنی تصنیف ’’تذکرۃ الصلحاء ‘‘ میں جو لکھا ہے اس کے مطابق سورۃ انا انزلنا آپ نے حضرت ملا میرا عظم افغان علی زئی معروفی ؒ سے پڑھی اس کے بعد چند فارسی کتب ان کے صاحبزادے حضرت ملا باز محمد سے پڑھیں اس کے علاوہ اس کے علاوہ جب سندھ کے ایک گاوٗں ٹکہڑ میں آپ نے ۱۲۹۷ھ میں ہجرت کے بعد قیام فرمایا و یہاں کے مشہور عالم حاجی لعل محمد متعلوی (مٹیاری والے ) سے بھی کچھ عربی فارسی کی کتابیں پڑھیں ، اس کے بعد جب آپ اپنے والد کے ہمراہ گئے تو وہاں مکہ معظمہ کی مشہور دینی درسگاہ ’’مدرسہ صولتیہ‘‘ جس کے بانی حضرت مولانا رحمت اللہ کیر انوی مہاجر مکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ تھے جن کی آپ پر خصوصی نظر کرم تھی، ضعف پیری کے باعث وہ خود نہیں پڑھاتے تھے، بلکہ شہر کے معروف اور مشہور علماء وہاں تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے چنانچہ اس مدرسہ میں مولانا نور محمد صاحب سے آپ نے کچھ اسباق پڑھے ۔ اس کے علاوہ مکہ معظمہ مین عرب شریف کی ایک بڑی اہم اور برگزیدہ شخصیت اورعالم اسلام کے ایک نامور عالم اور محقق حضرت علامہ سید شیخ احمد ذینی دحلان (مصنف الدر السنیہ فی الردعلی الوھابیہ ) کی خدمت میں اپنے والد گرامی کے حکم سے حاضر ہو کر احادیث کا سماع کیا اور علم حدیث کا ان سے اکتساب کیا۔
سند حدیث :
آپ نے حدیث کی سب سے اہم کتاب صحیح بخاری کا درس سبقا سبقا اپنے والد گرامی سے لیا اور انہی سے اس کی سند حاصل کی آپ کے والد گرامی کو سند حدیث حضرت خواجہ ابو سعید کے صاحبزادے حضرت خواجہ عبدالغنی دہلوی مجددی ؒ سے حاصل ہوئی ، اس کے علاوہ ۱۳۲۰ھ میں آپ کے والد ماجد کی ملاقات حضرت غوث پاک کی اولاد امجاد میں سے ایک متبحر عالم حدیث شیخ محمد ابو نصر شامی دمشقی سے ہوئی ان سے بھی آپ نے حدیث مسلسل بالروایہ کی اجازت حاصل کی۔
حفظ قرآن :
آپ کو بچپن سے حفظ قرآن کا شوق دامن گیر تھا، ایک روز اپنے اس شوق کا اظہار اپنے والد گرامی سے کر دیا، انہون نے جواب میں حافظ شیرازی کا یہ مصرعہ پڑھا کہ
’’عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکلہا‘‘
اور فرمایا کہ یہ آسان کام نہیں تم اپنی تمام توجہ تحصیل علوم دینیہ کی طرف رکھو۔ لیکن اس ممانعت کے باوجود آپ کا یہ شوق کم نہ ہوا بلکہ بڑھتا ہی چلا گیا اور آپ نے خاموشی سے قرآن کو یاد کرنا شروع کر دیا۔ باوجود اس کے کہ عربستان میں گھرکے کام کاج ، سودا سلف لانے کی ذمہ داری ، مدرسہ میں دینی تعلیم کے حصول اور بقیہ اوقات میں طواف اور عمرہ جیسی عبادات کی ادائیگی میں بے پناہ مصروفیت تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب جب وقت تھوڑا سا ملتا آپ حفظ میں مصروف ہوجاتے اور حافظہ کایہ عالم تھا کہ ایک نشست میں تین تین چار چار رکوع بعض دفعہ آدھاآدھا سپارہ یاد کر کے اٹھتے ، لیکن اس ڈر سے کہ کہیں والد گرامی کو خبر نہ ہو جائے آپ نے کسی کو نہیں بتایا کہ میں نے حفظ شروع کر دیا ہے، جب بائیس پار ے آپ نے حفظ کرلئے تو اس وقت لوگوں کو خبر ہوئی جب یہ اطلاع آپ کے والد گرامی کو پہنچی تو انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور آپ کی حوصلہ افزائی فرمائی اور جب آپ نے مکمل حفظ کر لیا تو انہوں نے اس خوشی میں ایک عظیم الشان دعوت کا اہتمام کیا اور احباب کو کھانا کھلایا۔
درس مکتوبات :
آپ نے علوم باطنیہ کی تکمیل اپنے والد گرامی سے کی ، چنانچہ اس سلسلہ میں مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی کا درس سبقا سبقا اپنے والد ماجد سے لیا ، آپ کے بڑے بھائی حضرت خواجہ محمد حسین فرماتے تھے کہ ٹکہڑ کے قیام کے زمانے میں ہم دو بھائی اور حضرت عبدالقدوس (المعروف شیریں جاں ) اور چوتھے سید حاجی اسد اللہ شاہ ٹکہڑ والے حضرت سے ایک ساتھ مکتوبات پڑھا کرتے تھے۔
مذہبی و علمی خدمات:
آپ علم و معرفت کے ایک بحرنا پید کنار تھے۔ اپنے اس علم و حکمت سے آپ نے مخلوق کو وعظ و ارشاد کے ذریعہ بھی فائدہ پہنچایا اور تصنیف و تالیف کے ذریعہ بھی ۔ آپ قلم برداشتہ بڑی فصیح اور سلیس فارسی اور عربی تحریر فرماتے تھے آپ کی بہت سی تصانیف کے علاوہ وہ بے شمار خطوط بھی ہیں جو آپ نے احباب کے خطوط کے جواب میں وقتا فوقتا ارسال فرمائے اس میں بہت سے آپ کے صاحبزادے پیر ہاشم جان سرہندی نے جمع فرمائے تھے۔ یہاں آپ کی چند تصانیف کا ذکر کیا جاتا ہے جس سے آپ کی علمی ، سماجی ، سیاسی اور مذہبی خدمات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
۱۔ شفاء الامراض : عربی زبان میں لکھی گئی اس تصنیف میں آپ نے ابتداء سر سے لے کر پاوٗ ں تک تمام امراض بدنیہ کا روحانی علاج یعنی تعویذات ، وظائف اور ادعیہ ماثورہ کا ذکر کیا ہے اس کے بعد دیگر مشکلات اور قضائے حاجات کے لئے دعاوٗں اور وظائف کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں بعض ایسے وظائف اور عملیات بھی ہیں جو آپ کو اپنے آباوٗ اجداد اور مشائخ سے حاصل ہوئے تھے۔ یہ کتاب غیر مطبوعہ ابھی تک ٹنڈو سائیں داد کے تاریخی کتب خانہ میں موجود ہے۔ اس کتاب کی تصنیف سے فراغت آپ نے ۲۳، جمادی الاخری ۱۳۱۴ھ میں حاصل کی۔
۲۔ انیس المریدین : آپ کی یہ کتاب فارسی میں ہے اس میں سلوک طریقہ نقشبندیہ کے متعلق بڑی نفیس ابحاث کے علاوہ اپنے والد گرامی حضرت خواجہ عبدالرحمن مجددی کے حالات و واقعات، معتقدات ، کرامات ، اخلاق وعادات ، ملفوظات وغیرہ کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ۱۳۱۶ھ میں آپ نے تصنیف فرمائی اورس ۱۳۲۸ھ ، ۱۹۱۰ء میں مطبع مجددی امر تسر سے شائع ہوئی ۔
۳۔ انساب الانجات : یہ علم تاریخ کی کتاب ہے۔ جس میں آپ نے حضرت امام ربانی سے لے کر اپنے زمانہ تک کے تمام خاندان مجددیہ کے افراد کے شجرہ نسب ذکر فرمائے ہیں ۔ اور ساتھ ساتھ ہر ایک کے مختصر سے حالات اور سن وفات وغیرہ بھی تحریر فرمائے ہیں ۔ ۲۶، رجب ۱۳۴۰ھ بروز اتوار اس کتاب کی تصنیف سے آپ فارغ ہوئے۔
۴۔ الاصول الاربعہ : مونس المخلصین کے مصنف حضرت آغا عبداللہ جان ؒ فرماتے ہیں کہ تحریک خلافت کے زمانہ میں جب وہابی ، نجدی اور دیوبندی عقائد یہاں سندھ میں آنے لگے اور سندھ کے بعض علماء مثلا دین محمد وفائی نے تقویت الایمان کا سندھی ترجمہ کر کے توحید الایمان کے نام سے شائع کر کے اس فرقہ کے عقائد کو پھیلانا شروع کیا تو آپ اس کے خلاف کھڑے ہوگئے اور آپ نے اس فرقہ کے عقائد کے رد میں ’’الاصول الاربعہ فی تردید الوھابیہ ‘‘ کے نام سے یہ کتاب تصنیف فرمائی ، جسے اپنے خرچ پر آپ نے چھپواکے لوگوں میں مفت تقسیم کرایا۔ اس زمانہ میں امر تسر سے ’’الفقیہہ ‘‘اخبار نکلتا تھا ۔ اس میں بھی اس کتاب کا اشتہار شائع ہوا۔ یہ کتاب نہ صرف سندھ بلکہ پنجاب اور ہندوستان کے علاوہ دوسرے بہت سے ممالک میں مشہور و مقبول ہوئی اس کتاب کے دیباچہ میں اس کی وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے اور وہابی عقائد پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’مخفی مبادکہ دریں زماں فرقہ از اہل ہوا در اسلام پیدا شدہ است کہ خود اہل حدیث می نامند و در مقابلہ اہل سنت و الجماعت خصوصا مقلدین مذہب حنفیہ کاروائی ہائے مخالفانہ بہ پیمانہ اعلیٰ بعمل می آرند و درپیش اطفائے نور ملت و مذہب بجاں کو شاں اند بسا عوام رادر دام فریب خود آور وہ ہم مشرب خود نمودہ اندالحاصل اصول مابہ النزاع درمیان مقلدین و غیر مقلدین چہار چیز است التعظیم لغیر اللہ تعالیٰ ، التوسل با رواح الصلحا ء والا ستمداد منھا، النداللغائب وسماع الموتی الاتباع و التقلید لارباب المذھب الاربعۃ ، این چہار چیز را وہابیہ شرک و کفر بدعت مید انند چناچہ درعقائد آنہا بحوالہ کتب آنہاذ کر یافت ، و اہل السنۃ والجماعت مقلدین مذاہب اربعہ ایں ھر چہار چیز را مباح و مسنون و واجب مید انند الحال برما مقلدان لازم است کہ دلائل اباحت و تسنن ووجوب امور معلومہ از روئے کتاب اللہ و حدیث رسول ﷺ اقوام و افعال سلف صالح و جمہور علمائے امت مرحومہ ثابت کنیم ‘‘۔
یہ تصنیف ۱۸، جمادی الاولیٰ ۱۳۴۶ھ بروز پیر اختتام کو پہنچی ۔ مولانا عبدالستار سعیدی ( مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ ، لاہور) نے اس کا اردو ترجمہ کیا جسے حسن جان سر ہندی اکیڈمی حیدر آباد نے ۱۹۸۸ء میں شائع کیا، اس کے بعد رضا دارالاشاعت، لاہور نے دوسرا ایڈیشن شائع کیا۔ اس طرح اصل عربی کے استنبول ترکی سے کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں ۔
اس کتاب پر سندھ بلوچستان کے ۱۳جیدو اکابر علماء اہل سنت نے زور دار تقاریظ رقم فرمائی ، ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
۱۔ بحر العلوم علامہ مولانا حاجی لعل محمد صاحب مٹیاروی
۲۔ علامۃ الدھر رئیس العلماء مولانا محمد حسن صاحب قادری سجادہ نشین درگاہ کٹبار شریف و مفتی بلوچستان
۳۔ عمدۃ المحققین مولانا مفتی محمد قاسم صاحب گڑھی یاسین ضلع شکار پور
۴۔ تقریظ منظوم علامہ مفتی حافظ محمد ابراہیم صاحب یاسینی ناظم جمعیۃ الاحناف صوبہ سندھ
۵۔ علامہ مولانا خادم حسین صاحب جتوئی بھلیڈ نہ آباد ضلع جیکب آباد
۶۔ قدوۃ السالکین علامہ مخدوم بصر الدین صاحب سیوہانی سیوہن شریف
۷۔ علامۃ العصر ، راٗس العلماء مولانا عبدالباقی صاحب قاضی بلاد سندھ و بلوچستان و سجادہ نشین درگاہ ہمایون شریف ضلع جیکب آباد
۸۔ مولانا عبدالقیوم صاھب بختار پوری ناظم نظام العلماء صوبہ سندھ
۹۔ فاضل محقق مولانا مفتی صاحبداد خان صاحب سلطان کوٹی مدیر رسالہ الھمایون
۱۰۔ غواص بحر الحقائق ، حضرت علامہ مولانا محمود صاحب سجادہ نشین درگاہ فضل الہیہ پاٹ شریف ضلع دادو
۱۱۔ جناب صاحبزادہ محمد معصوم صاحب خلف رشید حضرت سجادہ نشین صاحب درگاہ خنیاری شریف ضلع نواب شاہ
۱۲۔ عالم مدقق مولانا مولوی عبدالستار صاحب صدر مدرس مدرسہ الہ آباد نزد صحبت پور ضلع سبی بلوچستان
۱۳۔ عالم متین مولانا مولوی قمر الدین صاحب عطائی مہیسر مدیر رسالہ مہیسر ضلع لاڑکانہ
۵۔ طریق النجات: اس زمانہ میں آزاد خیال لوگوں کا ایک فرقہ پیدا ہوگیا تھا جو اپنے آپ کو ’’نیچریہ ‘‘ کہتے تھے، اور یونانی فلاسفر کی طرح ہر اسلامی بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتے تھے ، اور اگر ان کی ناقص عقل میں کوئی چیز نہ آتی تو اس سے انکار کردیتے تھے ، چنانچہ انہوں نے حضور کی جسمانی معراج ، عذاب قبر ، میزان ، اعمال اور دیگر بہت سے عقائد شرعیہ کا انکار کردیا ، اس فرقہ کے سر براہ ہندوستان میں سر سید احمد خان تھے آپ نے اس فرقہ کے عقائد باطلہ کے رد میں یہ کتاب عربی زبان میں تصنیف فرمائی اور معقول دلائل اور واضح مثالوں سے اس قسم کے عقائد عوام کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی، بعد میں اس کے فائدہ کو مزید عام کرنے کے لئے آپ کے صاحبزادے پیر محمد ہاشم جان نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا جو سیالکوٹ سے چھپ چکا ہے یہ کتاب کئی سال سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی کے نصاب میں بھی شامل رہی ہے۔ اس کتاب کا سن تالیف ۱۳۴۹ھ ہے۔
۶۔ العقائد الصحیحہ : اس زمانہ میں دیوبندی اور بریلوی حضرات کے درمیان چند مسائل پر اختلاف اتنا بڑھ گیا کہ ایک دوسرے پر کفرکے فتوے لگنے لگے ۔ ان متنازعہ مسائل میں سے چند یہ تھے مسئلہ علم غیب ، مسئلہ ایصال ثواب ، مسئلہ بشریت ، مسئلہ تعظیم غیر اللہ ، مسئلہ سماع موتی ، مسئلہ توسل ، مسئلہ ندائے غائب ، مسئلہ زیارت قبور، مسئلہ شفاعت ، مسئلہ عرس، مسئلہ امکان کذب، وغیرہ آپ نے ’’العقائد الصحیحہ فی بیان مذاھب اھل السنۃ والجماعہ ‘‘کے نھام سے یہ کتاب تصنیف فرمائی جس میں ان مسائل کا قرآن و سنت اور اجماع کی روشنی میں جائزہ لیا اور اس سلسلہ میں اسلاف کے صحیح عقائد کو بھر پور دلائل سے بیان فرمایا۔ اس کتاب کا سن تالیف ۴، محرم الحرام ۱۳۶۷ ہے ۔ یہ کتاب مطبع فقیہ امر تسر سے اردو ترجمہ کے ساتھ شائع ہو چکی ہے۔ خواجہ محمد حسن جان سر ہندی اکیڈمی حیدر آباد نے سندھی ترجمہ شائع کیا۔
۷۔ رسالہ تھلیلیۃ : اس کتاب میں آپ نے کلمہ ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کی تفسیر اس طرح بیان کی ہے کہ کلمہ کے پہلے جز کی تشریح کرتے ہوئے توحید اور اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے متعلق اعتقادات کا ذکر فرمایا ہے اور کلمہ کے دوسرے جز کی تفسیر میں آنحضرت ﷺ کی ذات و صفات کے متعلق آپ کی نبوت و رسالت کے متعلق کیا کیا عقائد رکھنے چاہئے ان کا ذکر فرمایا ہے۔ اور آخر میں آنحضرت ﷺ کا نسب نامہ ، آپ کا ذکر ولادت ، آپ کا ذکر بعثت ، آپ کی ازواج مطہرات اور اولاد امجاد، اصحاب و خلفاء اور آپ کے معجزات خصائص و شمائل و عادات کا ذکر فرمایا ہے۔
۳۰صفحات کا یہ رسالہ مطبع رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور سے چھپ چکا ہے اس رسالہ کا سن تالیف ، ۵، ربیع الثانی ۱۳۵۴ھ ہے۔
۸۔ تذکرۃ الصلحاء فی بیان الاتقیاء : خراسان ، عربستان ، سندھ ہندوستان میں آپ جس جس عالم یا ولی اللہ سے ملے اور ان کی صحبت سے لذت یاب ہوئے، ان کے حالات اس کتاب میں آپ نے درج فرمائے ہیں ۔ اس کتاب میں آپ نے تقریبا تیس ( ۳۰) اولیاء اللہ کا ذکر کیا ہے، سندھ سے تعلق رکھنے والے جن اصحاب کا ذکر فرمایا ہے اس میں یہ نام قابل ذکر ہیں ۔
مولانا عبدالرحمن سکھر والے ، مخدوم محمد مجذوب سہون والے، حاجی محمد عثمان شاہ میر پوری ، آخوند سچیڈنہ بختیار پوری ، حاجی محمد اسماعیل خان نظامانی، خلیفہ احمد خان نظامانی، درس محمد ہاشم کڑلی والے ، حاجی میان عبدالواحد بو بکائی، میاں تاج الدین چوٹیاری والے، حاجی محمد احسان جروار، حافظ ابو بکر سدہانی ، حاجی سلیمان ٹکھڑائی ، مولوی عطاء اللہ سکھر والے ، حاجی طیب میمن ۔ فارسی زبان میں لکھی گئی یہ تالیف ۱۳۳۶ھ کی ہے ۔ جو ۱۳۴۸ھ میں مطبع رئیس المطابع کا نپور سے چھپ چکی ہے ۔ اس کا اردو ترجمہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد خان سلطان کوٹی نے کیا یہ رسالہ کراچی سے شائع ہوا تھا۔
۹۔ شرح حکم شیخ عطاء اللہ سکندری: شیخ العارفین ابو الفضل تاج الدین احمد بن عطاء اللہ سکندری نے ایک کتاب ’’حکم ‘‘ کے نام سے علم توحید پر عربی میں تصنیف فرمائی، آپ نے فارسی زبان میں اس کی مبسوط دو سو صفحات پر مشتمل شرح تحریر فرمائی، اس تالیف کی ابتدا آپ نے یکم ربیع الاول ۱۳۴۲ھ میں کی اور اختتام ۲۹، صفر المظفر ۱۳۴۴ھ کو فرمایا۔
۱۰۔ پنج گنج : جب آپ ۱۳۲۰ھ میں حرمین شریفین سے واپس تشریف لا رہے تھے تو دوران سفر آپ نے یہ پانچ رسالے تحریر فرمائے، پہلے رسالہ میں آپ نے ۱۳۲۰ھ میں اپنے سفر حجاز کے حالات تحریر فرمائے ہیں ۔ اور دوسرے رسالہ میں حضرت غوث پاک کے مشہور قصیدہ چہل کاف کی فارسی میں شرح کی ہے۔ تیسرے میں حج کے مسائل دعائیں اور وہاں کے خاص خاص مقامات مقدسہ اور مزارات متبرکہ کا ذکر کیا ہے ۔ اور چوتھے رسالہ میں وہ احادیث مسلسل جو آپ کو حضرت شیخ سید محمد ابو نصردمشقی سے ملی ان کو نقل فرمایا اور پانچویں رسالہ میں چھ سبق آموز نصائح اور دینی دنیوی فلاح دینے والے امور کا ذکر فرمایا ہے۔
۱۱۔ سفر نامہ عربستان : ۲۲شعبان سے آپ نے حجاز مقدس ، عراق اور شام کا سفر شروع فرمایا اور ۱۷ربیع الاول ۱۳۳۳ھ کو وہ سفر اپنے اختتام کو پہنچا اس سفر کے حالات اور اس میں مشاہدہ کئے گئے عجیب و غریب حالات و مشاہدات کا آپ نے اس سفر نامہ میں ذکر فرمایاہے ۔
اس کے علاوہ انبیاء و اولیاء کے مزارات اور ان پر حاضری اور وہاں حاصل ہونے والے فیوضات و برکات کا بھی اس میں تذکرہ کیا ہے۔
۱۲۔ الاشارہ الی البشارہ : نماز کے اندر حالت تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنا ، علماء کے درمیان ایک اختلافی مسئلہ رہا ہے بعض اس کے قائل ہیں ۔ مولانا حکیم علی نواز علوی شکار پوری نے ایک رسالہ ’’بشارت ‘‘ کے نام سے لکھا جس میں اس کو ثابت کیا گیا ۔ آپ نے اس کے جواب میں ’’الاشارہ الی البشارہ ‘‘ کے نام سے یہ کتاب تحریر فرمائی یہ کتاب قلمی ہے اور ابھی تک طبع نہیں ہوئی ۔
۱۳۔ رسالہ فی باب صحۃ الجمعۃ فی القریٰ: ’’تابستان ‘‘ کے زمانہ قیام میں آپ کوئٹہ کے مضافات میں ’’ملک شابو‘‘نامی ایک گاوٗں میں سکونت پذیر تھے ، وہاں کے لوگ آپ کی آمد سے قبل یہاں جمعہ ادا نہیں کرتے تھے ، جب آپ نے تشریف لا کر جمعہ کی نماز کی ابتداء فرمائی تو بہت سکے علماء نے اعتراض کیا جس کے جواب میں آپ نے کتب فقہاء کی مختلف عبارت سے ، مصر کی یہ تعریف ثابت کی کہ ’’مالا یسع اکبر مساجدہ اھلہ المکلفین بھا‘‘ اور اس کے مطابق ’’ملک شابو ‘‘میں نماز جمعہ کے جواز کا فتویٰ صادر فرمایا۔ اور اس کی تفصیل اپنے اس رسالہ میں تحریر فرمائی ۔ یہ قلمی نسخہ ہے جو نا پید ہے۔
۱۴۔ لغات القرآن: اس کتاب میں آپ نے قرآن کے مشکل الفاظ کی آسان عربی الفاظ میں شرح فرمائی ہے۔
۱۵۔ رسالہ در قواعد تجوید : اس رسالہ میں آپ نے فن تجوید قراٗت کے قواعد اور اصول قلمبند فرمائے ہیں یہ بھی قلمی رسالہ ہے ۔ اس رسالہ کے آخیر میں آپ نے’’ضاد ‘‘ کے مخرج کی بڑی محققانہ تحقیق بھی فرمائی ہے اور ان لوگوں کا رد کیا ہے جو ’’ضاد‘‘ کے مخرج کو ’’ظا‘‘ کے مشابہ قرار دیتے ہیں ، چنانچہ آپ اس کے متعلق یہاں تک تحریر فرماتے ہیں کہ :
’’بعضے متشدداں صریحا ’’زا ‘‘ یا ’’ظا‘‘ می خوانند ایں غلط صریح است گناہ عظیم است وتحریف قرآن است الخ ‘‘
اس رسالہ کا سن تالیف ۴، جمادی الاول ۱۳۴۹ھ اس کے آخر میں تحریر ہے:
۱۶۔ رسالہ در سلوک نقشبندیہ : اس رسالہ میں آپ نے طریقہ نقشبندیہ کے لطائف خمسہ اور مراقبے وغیرہ کی تفصیلات ذکر فرمائی ہیں ۔
۱۷۔ رسالہ درتحقیق وحدت الوجود والشہود : اس رسالہ میں تصوف کے ایک مشہور اختلافی مسئلہ وحدت الوجود والشہود کے متعلق دونوں فریقین کے دلائل اور آخیر میں حضرت امام ربانی کے مسلک اور مشرب کی تائید میں دلائل و براہین تحریر فرمائے ہیں ۔
نادر کتب خانہ :
آپ کو بھی اپنے آباوٗ اجداد کی طرح کتابوں سے والہانہ شغف تھا، بلکہ عشق کی حد تک کتابوں سے انسیت تھی ، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے کتب خانہ میں وہ نادر اور نایاب قلمی اور مطبوعہ کتابیں جمع فرمائیں جن کی مثال کسی اور کتب خانہ میں ملنی مشکل ہے ۔اس کتب خانہ میں تفسیر ، حدیث ، فقہ ، ادب اور دیگر علوم دینیہ کے بڑے نادر اور نایاب قلمی نسخے موجود ہیں ۔ بالخصوص سندھ کے نامور علماء اور فقہاء اور صوفیاء مثلا مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی ، مخدوم محمد ابراہیم ٹھٹوی ، خلیفہ احمد خان نظامانی ، محمد امین سندھی ، مخدوم عبدالواحد سیوستانی ، مخدوم محمد جعفر بوبکائی ، حضرت فقیر اللہ علوی شکار پوری اور بہت سے سندھ کے محققین کے علاوہ سر ہندی اور مجددی خاندان کے صوفیاء کی قلمی تصنیفات کا ایک لاجواب ذخیرہ ہے جو پہلے آپ نے ٹنڈو سائیں داد میں رکھا تھا لیکن جب ان کتابوں میں کیڑا لگنے لگا تو آپ و ہوا کی مناسبت سے آپ نے قلمی رسالے اپنے کوئٹہ والے مکان میں منتقل فرما دیئے تھے جو آج تک وہاں موجود ہیں ۔ ان نادر قلمی نسخوں میں سے چند نسخوں کی فہرست حضرت شاہ آغا نے اپنی تصنیف مونس المخلصین میں درج کی ہے۔
شعر و شاعری :
شعر و شاعری کی طرف آپ کا طبعی میلان تھا، یہی وجہ ہے کہ ایک مخصوص بیاض میں آپ نے خیام ، سعدی ، جامی ، صائب اور حافظ جیسے اساتذہ وقت کی اپنی پسندیدہ غزلیں نوٹ فرما رکھی تھیں اور کبھی کبھی ان اشعار کو آپ ایسے ذوق سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جایا کرتے تھے، کبھی کبھی آپ اشعار ترنم سے ذوق لے کر پڑھا کرتے تھے اور کبھی تحت اللفظ پڑھتے تھے۔
اگر چہ شعر و شاعری میں آپ نے کبھی انہما ک نہیں رکھا البتہ کبھی قلب پر کوئی کیفیت طاری ہوئی تو وہ خود بخود اشعار کا روپ دھار کر آپ کی زبان پر آگئی ۔
حضرت غوث پاک کی عمر مبارک ، تاریخ ولادت و وفات ایک شعر میں اس طرح کہی ہے۔
سنینش کامل و عاشق تولد
۹۱ ۴۷۱
وفا تش داں تو مشعوقق الہٰی
۵۴۲
عشق رسول :
آنحضرت ﷺ کے عشق اور محبت میں آپ فنا تھے۔ صاحب مونس المخلصین نے آپ کے بہت سے خوابوں کا ذکر کیا ہے جس میں سے اکثر ایسے ہیں جس میں آنحضرت ﷺ کی زیارت اور آپ پر آنحضرت کی شفقت و عنایت کا ذکر ہے۔
یہ محبت کا تقاضہ تھا کہ ’’دلائل الخیرات ‘‘آپ ہر روز پابندی سے پڑھا کرتے تھے۔ اکثر آپ کی زبان پر درود شریف ہوتا تھا۔ آٹھ بار آپ کو روضہ رسول کی حاضری کی سعادت نصیب ہوئی ۔
دیار رسول مدینہ منورہ کی اپنے اشعار میں تعریف کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں۔
زاد صاف مدینہ ہرچہ گویم قطرہ از دریا است
عفاف آنحا کفاف آنحا صلوۃ آنجا زکوۃ آنجا
خداوند عطاء کن بندہ خود را بفضل خود
قیام آنجا مقام آنجا حیات آنجا ممات آنجا
اگر خواہی کہ بنیی جنت الماویٰ دریں عالم
نشین در روضہ اطہر بخواہ از حق نجات آنجا
سیاسی خدمات:
۱۲۵۶ھ میں جب انگریزوں نے افغانستان پر قبضہ کیا تو وہاں کے تمام علماء اور مشائخ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کیا، اس وقت قندھار کے قریب ’’غزوہ میوند ‘‘ کے نام سے جو مشہور جنگ ہوئی اس میں آپ کے والد گرامی نے بھی بھر پور حصہ لیا، اس وقت آپ کی عمر صرف ۱۷سال تھی اس کم عمری کے باوجود آپ بھی اپنے والد کے شانہ بشانہ اس جہاد میںشریک تھے۔ صاحب مونس المخلصین لکھتے ہیں کہ آخری معرکہ میں ، میں بھی آپ کے ہمراہ تھا اور میں نے دیکھا کہ میدان جنگ میں تیروں اور گولیوں کی بارش میں جہاں بڑے بڑے سور ماہمت ہار گئے وہاں آپ خود بھی کمال استقامت کے ساتھ دشمن سے برسر پیکار رہے اور مجاہدین میں بھی جوش و جذبہ پیدا فرماتے رہے ترکوں کی حکومت کے آپ زبردست حمایتی تھے ۔ اس وقت کے خادم الحرمین شریفین سلطان عبدالحمید خان کو آپ ’’خلیفہ المسلمین ‘‘تسلیم کرتے تھے۔ جب انگریزوں نے سلطان عبدالحمید خان کا تختہ الٹا تو آپ کو آپ کو اس کا بڑا صدمہ ہوا اس کے بعد جب اس کی جگہ محمد شاہ خان تخت سلطنت پر متمکن ہوا تو آپ نے اس کو بھی خلیفۃ المسلمین تسلیم کیا اور ہر طرح سے اس کی اعانت فرمائی حتیٰ کے جب جنگ بلقان ہوئی تو مجاہدین کی مالی مدد کے لئے آپ نے اپنے مخلصین اور اہالیان سندھ سے فنڈ جمع کرکے ’’ہلال احمر‘‘ کو مجاہدین کی مدد کے لئے ارسال فرمایا۔
تحریک خلافت :
جب تحریک خلافت چلی اور ’’ہند و مسلم اتحاد ‘‘ اس عروج پر پہنچ گیا کہ بعض مسلمان لیڈروں نے گاندھی کو اپنا مقتد ااور پیشواحتیٰ کہ مہدی کہنا شروع کر دیا تو آپ نے اس کی سخت ممانعت کی اور فرمایا کہ: ’’تعجب ہے لوگ نصاریٰ سے ترک موالات کرتے ہیں اور جو نصاریٰ سے بھی بد تر ہیں ’’یعنی مشرکین ان سے بھائی چارہ قائم کرتے ہیں یہ بالکل غلط ہے۔ جب حیدرآباد میں آل انڈیا خلافت کانفرنس منعقد ہوئی تو آپ کے دونوں صاحبزادوں نے اس میں شرکت کی آپ سے اجازت طلب کی آپ نے بادل نا خواستہ ان کو شرکت کی اجازت دے دی ، جب کانفرنس سے واپسی پر آپ کے صاحبزادگان نے کانفرنس کا حال سناتے ہوئے آپ کو بتایا کہ اس کانفرنس میں سندھ کے نامور علماء اور مشائخ مثلا پیر صاحب جھنڈہ والے ، مولانا سید اسد اللہ شاہ ٹھکرائی ، مولانا عبدالکریم درس ، مولوی محمد صادق کھڈہ والے بیٹھے ہوئے تھے ، اور ان سب کے درمیان ایک بلند چبوترہ پر تخت بچھایا تھا جس پر گاندھی بیٹھا ہوا تھا تو یہ سن کر آپ کو اس قدر حزن و ملال ہوا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسورواں ہو گئے اور آپ نے فرمایا کہ کیا اتنے سارے علماء اور مشائخ میں ان کو کوئی بھی ایسا نظر نہیں آیا جو صدارت کرتا، ایک ہندو کافر کو مشائخ کے مقابلہ میں یہ عزت دے کر انہوں نے قوم مسلم کو ذلیل و خوار کر دای۔ اس طرح جب انہی لیڈروں نے یہ تحریک چلائی کہ سندھ، پنجاب اور ہندوستان سے ہجرت کر کے فاغانستان میں جا کر آباد ہو جاوٗ تو آپ نے اس کی بھی ممانعت فرمائی ، نہ آپ نے خود ہجرت فرمائی اور نہ اپنے متعلقین کو اس کی اجازت دی ، آپ نے فرمایا کہ نہ وہاں اس ملک میں اتنے لوگوں کی گنجائش ہے اور نہ ہی وہاں کی سختیوں کو یہ سندھ اور ہندوستان کے لوگ برداشت کر سکیں گے اور ایسا ہی ہوا کہ بہت سے قافلے جو کچھ اپنا ہندووٗں کے ہاتھوں بیچ کر وہاں گئے ان کو جب وہاں جگہ نہ ملی تو واپس اس حال میں آئے کہ یہ اپنا ملک بھی ان کے لئے اجنبی بن گیا تھا۔
اسی طرح جب کانگریسی علماء نے یہ فتویٰ دیا کہ انگریزوں کا بنایا ہوا کپڑا پہننا حرام ہے اور اس کو پہن کر نماز پڑھنا ناجائز ہے۔ تو آپ نے اس کے خلاف فتویٰ دیا اور شرعی دلائل سے ثابت کیا کہ اس قسم کا کپڑا پہننے میں شرعی لحاظ سے کوئی حرمت نہیں ہے۔ اگر چہ اپنا بنایا ہوا کپڑا پہننا مستحب اور مستحسن ہے لیکن انگریز کے بنائے ہوئے کپڑے کو شرعی لحاظ سے حرام قرار دینا درست نہیں ہے کیوں کہ محض کسی کی مخالفت میں شرعی احکام کو بدل دینا جائز نہیں ، حتیٰ کہ یہ مسئلہ اتنا بڑھا کہ حیدرآباد میں اس کے لئے ایک مناظرہ کی تاریخ طے ہوئی جس میں آپ کے ہمراہ مولانا عبدالقیوم بختیار پوری ، علا مہ حاجی لعل محمد متعلوی ، مولانا محمد عثمان تھے، اور تحریک خلافت والوں کی طرف سے حاجی اسد اللہ شاہ ٹکھڑائی ، مولوی محمد صادق، حکیم شمس الدین نوشہرہ والے تھے جب کہ اس مناظرہ کے منصف اور ثالث مولانا معین الدین اجمیری تھے جو خلافت کمیٹی راجپوتانہ کے صدر تھے۔ جب مناظرہ ہوا تو آپ کے دلائل کو وزنی قرار دیتے ہوئے آپ کے حق میں مولانا معین الدین اجمیری نے فیصلہ دیا اور اس مناظرہ کی تمام روئد اد ایک کتاب میں تحریر فرما کر ا س کو شائع فرمایا اس کتاب کا نام ’’القول الفیصل فی جواز الشیات من الحربی المقاتل ‘‘ رکھا۔ آپ کے سوانح نگار آغا عبداللہ جان لکھتے ہیں کہ تحریک خلافت کے زمانہ میں جب ہندوستان سے علماء کی سندھ میں آمدورفت ہوئی تو وہابی اور نجدی عقائد بھی سندھ میں آنے شروع ہو گئے ۔ حتیٰ کے دین محمد وفائی نے مولوی تاج محمود امروٹی کی سر پرستی میں ’’تقویۃ الایمان ‘‘ کا سندھی ترجمہ ، ’’توحید الاسلام ‘‘ کے نام سے لکھ کے چھپوایا تو آپ ان عقائد کے خلاف جہاد کے لئے کھڑے ہو گئے اور سب سے پہلے آپ نے بھر پور کوشش کر کے شکار پور سے ’’الحنیف‘‘ کے نام سے ایک اخبار جاری کرایا اس کے علاوہ ’’اصول اربعہ ‘‘ اور اس جیسی بہت سی کتابیں تصنیف فرما کر شائع کروائیں جس میں دلائل اور براہین سے ان کے عقائد کا رد کیا گیا ، اسی طرح جب سعودی حکومت کی طرف سے گنبد خضراء کو مہندم کرنے کی خبر آپ تک پہنچی تو آپ بے چین و بے قرار ہو گئے ۔
چنانچہ صاحب مونس المخلصین رقمطراز ہیں کہ
’’دایں میاں باز فتنہ نجدیت و توہب در سندھ سر بالا کردو مخفی نماند کہ در ملک سندھ تمام علماء و مشائخ و سلف صالحین از زمانہ قدیم ہمہ سنی مقلدو حنفی المذہب بودند و چوں نجدیہ بربلا و حجاز مسلط شد ندو مظالم آنہااز سفک و ماوقتل نفوس ونہب اموال مسلمین و تکفیر مسلماناں وتخریب مقامات مقدسہ وہدم قبور و قباب شنید ند خیلے حسرت و افسوس خوردندو تمام مسلمانان عالم رادل سوختہ و جگر کباب گردید گوکہ بعضے ہم مشرباں اور خوشاں خوش شد ندد شادمانی ہاکروندد تار مبارک بادی ہافر ستادند و بر مظالم آنہا پردہ اندا ختندتا آنکہ خبر ہدم گنبد خضرائے سر کار مدینہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام التحیۃ بسمع ایشاں رسید پس بے قرار دبے آرام شدند ‘‘ اس مسئلہ کے حل کے لئے سند ھ کے تمام معززین اورعلماء دین کو آپ نے شکار پور میں جمع فرمایا اور اس اجلاس میں روضہ نبوی ﷺ کی حفاظت کی تدابیر سوچی گئیں ۔
سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا گیا کہ سندھ کے عاشقان رسول کی طرف سے ابن سعود کو ایک تار روانہ کیا گیا جو خان بہادر علی بخش خان محمد حسین جو ممبر کونسل تھے ان کے ذریعہ وائسرائے تک پہنچایا گیا اور وائسرائے کے توسط سے سعودی فرما نر وا کو پہنچایا گیا ، دوسرے ہی روز بادشاہ کی طرف سے اس کا جواب موصول ہو گیا کہ آپ لوگ پریشان ہ ہوں روضہ اطہر کی بے حرمتی کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں ۔
تحریک پاکستان :
جب تحریک پاکستان کا آغاز ہوا اور ہندوستان کے اکثر مسلمان اپنی ایک جدا گانہ حکومت حاصل کرنے کیلئے مل گئے تو بعض مسلمان کانگریس کے ساتھ مل کر ایک جداگانہ اسلامی مملکت کی مخالفت کرنے لگے لیکن سندھ کے مشائخ اور علماء اہل سنت نے حصول پاکستان کیلئے مسلم لیگ کی بھر پور حمایت کی جس کی وجہ سے مسلم لیگ کو سندھ میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی ، اس کامیابی کا سہراجہاں سندھ کے اور مشائخ کے سر ہے وہاں سر ہندی مجددی خانوادہ کے اس چشم و چراغ حضرت خواجہ حسن جان کے سر بھی ہے جنہوں نے سندھ میں کانگریسیوں کی بھر پور مخالفت کی اور مسلم لیگ کی بھر پور اعانت اور مدد فرمائی اوراس سلسلہ میں اپنے مریدوں کو اس کے لئے خصوصی ہدایت نامے جاری فرمائے ، چنانچہ آپ کا ایک مکتوب گرامی یہاں نقل کیا جاتا ہے جس سے اچھی طرح اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ نے اپنے مریدوں کو مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کرنے کی کس طرح ہدایت فرمائی ۔
مخلصین مکرمین وڈیرہ محمد قاسم وڈیرہ عبداللہ و قاضی جان محمد سلہم ربہم بعد از دعائے خیر شمایاں مخلصاں رابطیق نصیحت تحریر میثود کہ درقصہ خاص مقابلہ ہندواں است با مسلماناں و سید علی اکبر شاہ راٹکٹ مسلم لیگ دادہ شدہ است بنا براں برشمایاں لازم کہ از مخالفت اودستبر دار شوید و حرقدر کہ بتوانید امداد بکنید والسلام
۶، ماہ صفر ۱۳۶۵ھ فقیر محمد حسن عفی عنہ
۱۹۴۶ء
یہ آپ کا آخری خط تھا جس میں آپ نے اپنے مریدوں کو مسلم لیگ کی مخالفت سے منع کیا اور اس کی ہر طرح سے مدد کرنے کا حکم دیا ۔ اس خط کے پانچ ماہ بعد تقسیم پاکستان سے قبل آپ انتقال فرما گئے ، لیکن آپ کی کوشش بار آور ثابت ہوئیں اور اسی سال پاکستان معرض وجود میں آگیا۔
علمائے کرام کی عقیدت :
بہت سارے علماء اہل سنت آپ سے دست بیعت کا شرف رکھتے تھے اور ہر تحریک و موڑ پر آپ کے ساتھ رہے۔ اور مسلک و مذہب اہلسنت حنفیہ کی ترویج و اشاعت ، رد فرقائے باطلہ ، تحریک آزادی اور ملی و فلاحی کاموں میں سر گرم عمل رہے ۔ انوار علمائے اہل سنت ( زیر نظر ) کتاب کے مطالعہ سے بعض اسماء گرامی سامنے آئے جو کہ درج ذیل ہیں :
٭ مفتی اعظم تھر استاد العلماء علامہ محمد عثمان قرانی
٭ استاد العلماء مفتی محمد حسین ٹھٹوی
٭ استاد العلماء مولانا مفتی فتح علی جتوئی اکبر
٭ بحر العلوم علامہ فتح علی جتوئی اصغر
٭ مولانا مفتی میر محمد جتوئی نزد آمری تحصیل جاتی
٭ مولانا مفتی محمد یوسف میمن مڑھی بولا خان تحصیل جاتی
٭ مولانا فقیر حامد اللہ ساند بھ شریف تحصیل نگر پارکر
٭ مولانا اللہ بخش سیٹھر تحصیل کنڈیارو
٭ قاضی نذر محمد دیہاتی دیہات تحصیل کنڈیارو
شادی و اولاد :
آپ نے تین شادیاں فرمائی ، پہلی زوجہ محترمہ سے پانچ لڑکے اور نو لڑکیاں پیدا ہوئی جن میں سے دو لڑکے اور دو لڑکیا ں شروع میں فوت ہوئیں بقیہ تین لڑکے اور سات لڑکیا ں بقید حیات رہیں ۔ دوسری شادی آپ نے کراچی میں حضرت محمد فاروق کی صاحبزادی سے کی ، جن کے بطن سے تین لڑکیاں تین لڑکے پیدا ہوئے جن میں سوائے ایک صاحبزادے محمد حنیف کے باقی تمام ۱۳۵۴ھ میں کوئٹہ کے زلزلے میں شہید ہو گئے ۔ تیسرا نکاح آپ نے سادات کلی گل محمد کے علی جان آغا کی صاحبزادی سے کیا جن کے بطن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی ، پہلی بیوی سے جو صاحبزادے بقید حیات رہے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں :
۱۔ عبداللہ جان عرف شاہ آغا
۲۔ عبدالستار جان
۳۔ محمد ہاشم جان
وصال:
۶، رجب المرجب ۱۳۶۵ھ؍، جون ۱۹۴۶ء بروز پیر ظہر اور عصر کے درمیان ۸۷سال کی عمر میں آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ٹنڈو سائیں داد سے چند میل کے فاصلہ پر ’’کوہ گنجہ‘‘نامی آپ کے آبائی قبرستان میںآپ کے والد ماجد کے پہلو میں آپ کو دفن کر دیا گیا۔ حضرت مولانا رشید احمد مجددی رامپوری ؒ نے آپ کی وفات پراردو میں یہ قطعہ تاریخ لکھا:
عارف کامل اٹھا دنیا سے کیسا ہائے ہائے
طالبان دین کا غم سے دل ہوا جاتا ہے شق
جس کے ایک اونیٰ اشارے سے ہوا کرتے تھے حل
مسئلے علم طریقت کے ادق سے بھی ادق
ہو رہی ہے اہل عرفان میں یہ باہم گفتگو
ہوگیا کم اب کتاب معرفت سے اک ورق
فکر ہے تاریخ رحلت کی تو کہہ دو اے رشید
مرشد کامل امیر ملک معنی قطب حق
۱۳۶۵ھ
(ماخوذ : سندھ کے صوفیائے نقشبندمطبوعہ حیدرآباد)
شیخ الاسلام حضرت علامہ خواجہ
محمد حسن جان مجددی فاروقی
حضرت خواجہ عبدالرحمن مجددی کے صاحبزادے سجادہ نشین اور ٹنڈو سائیں داد میں سر ہندی مجددی آستانہ کے خورشید ضیاء بار ، علوم عقلیہ و نقلیہ کے ماہر علم ، ظاہری و باطنی کے شاہ سوار حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی ۔
۶، شوال المکرم ۱۲۷۸ھ؍۱۸۶۱ء کو افغانستان کے شہر قند ھار مٰن آپ کی ولادت ہوئی ۔ جب آپ کے والد گرامی نے قندھار سے حرمین شریفین کی طرف ہجرت فرمائی تو آپ بھی اس سفر ہجرت میں ان کے ہمراہ تھے، اس سے قبل ۱۸۸۰ء میں جب افغانستان میں فرنگی استعمار کے خلاف علماء اور مشائخ نے جہاد کا اعلان فرمایا تو آپ نے بھی اپنے والد کے ہمراہ اس جہاد میں بھر پور طریقہ سے عملی طور پر حصہ لیا اور انگریزوں کے ایجنٹوں کا اپنے مرید وں کے ساتھ بھر پور مردانہ وار مقابلہ کیا۔
تعلیم و تربیت
اپنی تعلیم کے متعلق خود آپ نے اپنی تصنیف ’’تذکرۃ الصلحاء ‘‘ میں جو لکھا ہے اس کے مطابق سورۃ انا انزلنا آپ نے حضرت ملا میرا عظم افغان علی زئی معروفی ؒ سے پڑھی اس کے بعد چند فارسی کتب ان کے صاحبزادے حضرت ملا باز محمد سے پڑھیں اس کے علاوہ اس کے علاوہ جب سندھ کے ایک گاوٗں ٹکہڑ میں آپ نے ۱۲۹۷ھ میں ہجرت کے بعد قیام فرمایا و یہاں کے مشہور عالم حاجی لعل محمد متعلوی (مٹیاری والے ) سے بھی کچھ عربی فارسی کی کتابیں پڑھیں ، اس کے بعد جب آپ اپنے والد کے ہمراہ گئے تو وہاں مکہ معظمہ کی مشہور دینی درسگاہ ’’مدرسہ صولتیہ‘‘ جس کے بانی حضرت مولانا رحمت اللہ کیر انوی مہاجر مکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ تھے جن کی آپ پر خصوصی نظر کرم تھی، ضعف پیری کے باعث وہ خود نہیں پڑھاتے تھے، بلکہ شہر کے معروف اور مشہور علماء وہاں تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے چنانچہ اس مدرسہ میں مولانا نور محمد صاحب سے آپ نے کچھ اسباق پڑھے ۔ اس کے علاوہ مکہ معظمہ مین عرب شریف کی ایک بڑی اہم اور برگزیدہ شخصیت اورعالم اسلام کے ایک نامور عالم اور محقق حضرت علامہ سید شیخ احمد ذینی دحلان (مصنف الدر السنیہ فی الردعلی الوھابیہ ) کی خدمت میں اپنے والد گرامی کے حکم سے حاضر ہو کر احادیث کا سماع کیا اور علم حدیث کا ان سے اکتساب کیا۔
سند حدیث :
آپ نے حدیث کی سب سے اہم کتاب صحیح بخاری کا درس سبقا سبقا اپنے والد گرامی سے لیا اور انہی سے اس کی سند حاصل کی آپ کے والد گرامی کو سند حدیث حضرت خواجہ ابو سعید کے صاحبزادے حضرت خواجہ عبدالغنی دہلوی مجددی ؒ سے حاصل ہوئی ، اس کے علاوہ ۱۳۲۰ھ میں آپ کے والد ماجد کی ملاقات حضرت غوث پاک کی اولاد امجاد میں سے ایک متبحر عالم حدیث شیخ محمد ابو نصر شامی دمشقی سے ہوئی ان سے بھی آپ نے حدیث مسلسل بالروایہ کی اجازت حاصل کی۔
حفظ قرآن :
آپ کو بچپن سے حفظ قرآن کا شوق دامن گیر تھا، ایک روز اپنے اس شوق کا اظہار اپنے والد گرامی سے کر دیا، انہون نے جواب میں حافظ شیرازی کا یہ مصرعہ پڑھا کہ
’’عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکلہا‘‘
اور فرمایا کہ یہ آسان کام نہیں تم اپنی تمام توجہ تحصیل علوم دینیہ کی طرف رکھو۔ لیکن اس ممانعت کے باوجود آپ کا یہ شوق کم نہ ہوا بلکہ بڑھتا ہی چلا گیا اور آپ نے خاموشی سے قرآن کو یاد کرنا شروع کر دیا۔ باوجود اس کے کہ عربستان میں گھرکے کام کاج ، سودا سلف لانے کی ذمہ داری ، مدرسہ میں دینی تعلیم کے حصول اور بقیہ اوقات میں طواف اور عمرہ جیسی عبادات کی ادائیگی میں بے پناہ مصروفیت تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب جب وقت تھوڑا سا ملتا آپ حفظ میں مصروف ہوجاتے اور حافظہ کایہ عالم تھا کہ ایک نشست میں تین تین چار چار رکوع بعض دفعہ آدھاآدھا سپارہ یاد کر کے اٹھتے ، لیکن اس ڈر سے کہ کہیں والد گرامی کو خبر نہ ہو جائے آپ نے کسی کو نہیں بتایا کہ میں نے حفظ شروع کر دیا ہے، جب بائیس پار ے آپ نے حفظ کرلئے تو اس وقت لوگوں کو خبر ہوئی جب یہ اطلاع آپ کے والد گرامی کو پہنچی تو انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور آپ کی حوصلہ افزائی فرمائی اور جب آپ نے مکمل حفظ کر لیا تو انہوں نے اس خوشی میں ایک عظیم الشان دعوت کا اہتمام کیا اور احباب کو کھانا کھلایا۔
درس مکتوبات :
آپ نے علوم باطنیہ کی تکمیل اپنے والد گرامی سے کی ، چنانچہ اس سلسلہ میں مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی کا درس سبقا سبقا اپنے والد ماجد سے لیا ، آپ کے بڑے بھائی حضرت خواجہ محمد حسین فرماتے تھے کہ ٹکہڑ کے قیام کے زمانے میں ہم دو بھائی اور حضرت عبدالقدوس (المعروف شیریں جاں ) اور چوتھے سید حاجی اسد اللہ شاہ ٹکہڑ والے حضرت سے ایک ساتھ مکتوبات پڑھا کرتے تھے۔
مذہبی و علمی خدمات:
آپ علم و معرفت کے ایک بحرنا پید کنار تھے۔ اپنے اس علم و حکمت سے آپ نے مخلوق کو وعظ و ارشاد کے ذریعہ بھی فائدہ پہنچایا اور تصنیف و تالیف کے ذریعہ بھی ۔ آپ قلم برداشتہ بڑی فصیح اور سلیس فارسی اور عربی تحریر فرماتے تھے آپ کی بہت سی تصانیف کے علاوہ وہ بے شمار خطوط بھی ہیں جو آپ نے احباب کے خطوط کے جواب میں وقتا فوقتا ارسال فرمائے اس میں بہت سے آپ کے صاحبزادے پیر ہاشم جان سرہندی نے جمع فرمائے تھے۔ یہاں آپ کی چند تصانیف کا ذکر کیا جاتا ہے جس سے آپ کی علمی ، سماجی ، سیاسی اور مذہبی خدمات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
۱۔ شفاء الامراض : عربی زبان میں لکھی گئی اس تصنیف میں آپ نے ابتداء سر سے لے کر پاوٗ ں تک تمام امراض بدنیہ کا روحانی علاج یعنی تعویذات ، وظائف اور ادعیہ ماثورہ کا ذکر کیا ہے اس کے بعد دیگر مشکلات اور قضائے حاجات کے لئے دعاوٗں اور وظائف کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں بعض ایسے وظائف اور عملیات بھی ہیں جو آپ کو اپنے آباوٗ اجداد اور مشائخ سے حاصل ہوئے تھے۔ یہ کتاب غیر مطبوعہ ابھی تک ٹنڈو سائیں داد کے تاریخی کتب خانہ میں موجود ہے۔ اس کتاب کی تصنیف سے فراغت آپ نے ۲۳، جمادی الاخری ۱۳۱۴ھ میں حاصل کی۔
۲۔ انیس المریدین : آپ کی یہ کتاب فارسی میں ہے اس میں سلوک طریقہ نقشبندیہ کے متعلق بڑی نفیس ابحاث کے علاوہ اپنے والد گرامی حضرت خواجہ عبدالرحمن مجددی کے حالات و واقعات، معتقدات ، کرامات ، اخلاق وعادات ، ملفوظات وغیرہ کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ۱۳۱۶ھ میں آپ نے تصنیف فرمائی اورس ۱۳۲۸ھ ، ۱۹۱۰ء میں مطبع مجددی امر تسر سے شائع ہوئی ۔
۳۔ انساب الانجات : یہ علم تاریخ کی کتاب ہے۔ جس میں آپ نے حضرت امام ربانی سے لے کر اپنے زمانہ تک کے تمام خاندان مجددیہ کے افراد کے شجرہ نسب ذکر فرمائے ہیں ۔ اور ساتھ ساتھ ہر ایک کے مختصر سے حالات اور سن وفات وغیرہ بھی تحریر فرمائے ہیں ۔ ۲۶، رجب ۱۳۴۰ھ بروز اتوار اس کتاب کی تصنیف سے آپ فارغ ہوئے۔
۴۔ الاصول الاربعہ : مونس المخلصین کے مصنف حضرت آغا عبداللہ جان ؒ فرماتے ہیں کہ تحریک خلافت کے زمانہ میں جب وہابی ، نجدی اور دیوبندی عقائد یہاں سندھ میں آنے لگے اور سندھ کے بعض علماء مثلا دین محمد وفائی نے تقویت الایمان کا سندھی ترجمہ کر کے توحید الایمان کے نام سے شائع کر کے اس فرقہ کے عقائد کو پھیلانا شروع کیا تو آپ اس کے خلاف کھڑے ہوگئے اور آپ نے اس فرقہ کے عقائد کے رد میں ’’الاصول الاربعہ فی تردید الوھابیہ ‘‘ کے نام سے یہ کتاب تصنیف فرمائی ، جسے اپنے خرچ پر آپ نے چھپواکے لوگوں میں مفت تقسیم کرایا۔ اس زمانہ میں امر تسر سے ’’الفقیہہ ‘‘اخبار نکلتا تھا ۔ اس میں بھی اس کتاب کا اشتہار شائع ہوا۔ یہ کتاب نہ صرف سندھ بلکہ پنجاب اور ہندوستان کے علاوہ دوسرے بہت سے ممالک میں مشہور و مقبول ہوئی اس کتاب کے دیباچہ میں اس کی وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے اور وہابی عقائد پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’مخفی مبادکہ دریں زماں فرقہ از اہل ہوا در اسلام پیدا شدہ است کہ خود اہل حدیث می نامند و در مقابلہ اہل سنت و الجماعت خصوصا مقلدین مذہب حنفیہ کاروائی ہائے مخالفانہ بہ پیمانہ اعلیٰ بعمل می آرند و درپیش اطفائے نور ملت و مذہب بجاں کو شاں اند بسا عوام رادر دام فریب خود آور وہ ہم مشرب خود نمودہ اندالحاصل اصول مابہ النزاع درمیان مقلدین و غیر مقلدین چہار چیز است التعظیم لغیر اللہ تعالیٰ ، التوسل با رواح الصلحا ء والا ستمداد منھا، النداللغائب وسماع الموتی الاتباع و التقلید لارباب المذھب الاربعۃ ، این چہار چیز را وہابیہ شرک و کفر بدعت مید انند چناچہ درعقائد آنہا بحوالہ کتب آنہاذ کر یافت ، و اہل السنۃ والجماعت مقلدین مذاہب اربعہ ایں ھر چہار چیز را مباح و مسنون و واجب مید انند الحال برما مقلدان لازم است کہ دلائل اباحت و تسنن ووجوب امور معلومہ از روئے کتاب اللہ و حدیث رسول ﷺ اقوام و افعال سلف صالح و جمہور علمائے امت مرحومہ ثابت کنیم ‘‘۔
یہ تصنیف ۱۸، جمادی الاولیٰ ۱۳۴۶ھ بروز پیر اختتام کو پہنچی ۔ مولانا عبدالستار سعیدی ( مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ ، لاہور) نے اس کا اردو ترجمہ کیا جسے حسن جان سر ہندی اکیڈمی حیدر آباد نے ۱۹۸۸ء میں شائع کیا، اس کے بعد رضا دارالاشاعت، لاہور نے دوسرا ایڈیشن شائع کیا۔ اس طرح اصل عربی کے استنبول ترکی سے کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں ۔
اس کتاب پر سندھ بلوچستان کے ۱۳جیدو اکابر علماء اہل سنت نے زور دار تقاریظ رقم فرمائی ، ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
۱۔ بحر العلوم علامہ مولانا حاجی لعل محمد صاحب مٹیاروی
۲۔ علامۃ الدھر رئیس العلماء مولانا محمد حسن صاحب قادری سجادہ نشین درگاہ کٹبار شریف و مفتی بلوچستان
۳۔ عمدۃ المحققین مولانا مفتی محمد قاسم صاحب گڑھی یاسین ضلع شکار پور
۴۔ تقریظ منظوم علامہ مفتی حافظ محمد ابراہیم صاحب یاسینی ناظم جمعیۃ الاحناف صوبہ سندھ
۵۔ علامہ مولانا خادم حسین صاحب جتوئی بھلیڈ نہ آباد ضلع جیکب آباد
۶۔ قدوۃ السالکین علامہ مخدوم بصر الدین صاحب سیوہانی سیوہن شریف
۷۔ علامۃ العصر ، راٗس العلماء مولانا عبدالباقی صاحب قاضی بلاد سندھ و بلوچستان و سجادہ نشین درگاہ ہمایون شریف ضلع جیکب آباد
۸۔ مولانا عبدالقیوم صاھب بختار پوری ناظم نظام العلماء صوبہ سندھ
۹۔ فاضل محقق مولانا مفتی صاحبداد خان صاحب سلطان کوٹی مدیر رسالہ الھمایون
۱۰۔ غواص بحر الحقائق ، حضرت علامہ مولانا محمود صاحب سجادہ نشین درگاہ فضل الہیہ پاٹ شریف ضلع دادو
۱۱۔ جناب صاحبزادہ محمد معصوم صاحب خلف رشید حضرت سجادہ نشین صاحب درگاہ خنیاری شریف ضلع نواب شاہ
۱۲۔ عالم مدقق مولانا مولوی عبدالستار صاحب صدر مدرس مدرسہ الہ آباد نزد صحبت پور ضلع سبی بلوچستان
۱۳۔ عالم متین مولانا مولوی قمر الدین صاحب عطائی مہیسر مدیر رسالہ مہیسر ضلع لاڑکانہ
۵۔ طریق النجات: اس زمانہ میں آزاد خیال لوگوں کا ایک فرقہ پیدا ہوگیا تھا جو اپنے آپ کو ’’نیچریہ ‘‘ کہتے تھے، اور یونانی فلاسفر کی طرح ہر اسلامی بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتے تھے ، اور اگر ان کی ناقص عقل میں کوئی چیز نہ آتی تو اس سے انکار کردیتے تھے ، چنانچہ انہوں نے حضور کی جسمانی معراج ، عذاب قبر ، میزان ، اعمال اور دیگر بہت سے عقائد شرعیہ کا انکار کردیا ، اس فرقہ کے سر براہ ہندوستان میں سر سید احمد خان تھے آپ نے اس فرقہ کے عقائد باطلہ کے رد میں یہ کتاب عربی زبان میں تصنیف فرمائی اور معقول دلائل اور واضح مثالوں سے اس قسم کے عقائد عوام کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی، بعد میں اس کے فائدہ کو مزید عام کرنے کے لئے آپ کے صاحبزادے پیر محمد ہاشم جان نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا جو سیالکوٹ سے چھپ چکا ہے یہ کتاب کئی سال سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی کے نصاب میں بھی شامل رہی ہے۔ اس کتاب کا سن تالیف ۱۳۴۹ھ ہے۔
۶۔ العقائد الصحیحہ : اس زمانہ میں دیوبندی اور بریلوی حضرات کے درمیان چند مسائل پر اختلاف اتنا بڑھ گیا کہ ایک دوسرے پر کفرکے فتوے لگنے لگے ۔ ان متنازعہ مسائل میں سے چند یہ تھے مسئلہ علم غیب ، مسئلہ ایصال ثواب ، مسئلہ بشریت ، مسئلہ تعظیم غیر اللہ ، مسئلہ سماع موتی ، مسئلہ توسل ، مسئلہ ندائے غائب ، مسئلہ زیارت قبور، مسئلہ شفاعت ، مسئلہ عرس، مسئلہ امکان کذب، وغیرہ آپ نے ’’العقائد الصحیحہ فی بیان مذاھب اھل السنۃ والجماعہ ‘‘کے نھام سے یہ کتاب تصنیف فرمائی جس میں ان مسائل کا قرآن و سنت اور اجماع کی روشنی میں جائزہ لیا اور اس سلسلہ میں اسلاف کے صحیح عقائد کو بھر پور دلائل سے بیان فرمایا۔ اس کتاب کا سن تالیف ۴، محرم الحرام ۱۳۶۷ ہے ۔ یہ کتاب مطبع فقیہ امر تسر سے اردو ترجمہ کے ساتھ شائع ہو چکی ہے۔ خواجہ محمد حسن جان سر ہندی اکیڈمی حیدر آباد نے سندھی ترجمہ شائع کیا۔
۷۔ رسالہ تھلیلیۃ : اس کتاب میں آپ نے کلمہ ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کی تفسیر اس طرح بیان کی ہے کہ کلمہ کے پہلے جز کی تشریح کرتے ہوئے توحید اور اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے متعلق اعتقادات کا ذکر فرمایا ہے اور کلمہ کے دوسرے جز کی تفسیر میں آنحضرت ﷺ کی ذات و صفات کے متعلق آپ کی نبوت و رسالت کے متعلق کیا کیا عقائد رکھنے چاہئے ان کا ذکر فرمایا ہے۔ اور آخر میں آنحضرت ﷺ کا نسب نامہ ، آپ کا ذکر ولادت ، آپ کا ذکر بعثت ، آپ کی ازواج مطہرات اور اولاد امجاد، اصحاب و خلفاء اور آپ کے معجزات خصائص و شمائل و عادات کا ذکر فرمایا ہے۔
۳۰صفحات کا یہ رسالہ مطبع رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور سے چھپ چکا ہے اس رسالہ کا سن تالیف ، ۵، ربیع الثانی ۱۳۵۴ھ ہے۔
۸۔ تذکرۃ الصلحاء فی بیان الاتقیاء : خراسان ، عربستان ، سندھ ہندوستان میں آپ جس جس عالم یا ولی اللہ سے ملے اور ان کی صحبت سے لذت یاب ہوئے، ان کے حالات اس کتاب میں آپ نے درج فرمائے ہیں ۔ اس کتاب میں آپ نے تقریبا تیس ( ۳۰) اولیاء اللہ کا ذکر کیا ہے، سندھ سے تعلق رکھنے والے جن اصحاب کا ذکر فرمایا ہے اس میں یہ نام قابل ذکر ہیں ۔
مولانا عبدالرحمن سکھر والے ، مخدوم محمد مجذوب سہون والے، حاجی محمد عثمان شاہ میر پوری ، آخوند سچیڈنہ بختیار پوری ، حاجی محمد اسماعیل خان نظامانی، خلیفہ احمد خان نظامانی، درس محمد ہاشم کڑلی والے ، حاجی میان عبدالواحد بو بکائی، میاں تاج الدین چوٹیاری والے، حاجی محمد احسان جروار، حافظ ابو بکر سدہانی ، حاجی سلیمان ٹکھڑائی ، مولوی عطاء اللہ سکھر والے ، حاجی طیب میمن ۔ فارسی زبان میں لکھی گئی یہ تالیف ۱۳۳۶ھ کی ہے ۔ جو ۱۳۴۸ھ میں مطبع رئیس المطابع کا نپور سے چھپ چکی ہے ۔ اس کا اردو ترجمہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد خان سلطان کوٹی نے کیا یہ رسالہ کراچی سے شائع ہوا تھا۔
۹۔ شرح حکم شیخ عطاء اللہ سکندری: شیخ العارفین ابو الفضل تاج الدین احمد بن عطاء اللہ سکندری نے ایک کتاب ’’حکم ‘‘ کے نام سے علم توحید پر عربی میں تصنیف فرمائی، آپ نے فارسی زبان میں اس کی مبسوط دو سو صفحات پر مشتمل شرح تحریر فرمائی، اس تالیف کی ابتدا آپ نے یکم ربیع الاول ۱۳۴۲ھ میں کی اور اختتام ۲۹، صفر المظفر ۱۳۴۴ھ کو فرمایا۔
۱۰۔ پنج گنج : جب آپ ۱۳۲۰ھ میں حرمین شریفین سے واپس تشریف لا رہے تھے تو دوران سفر آپ نے یہ پانچ رسالے تحریر فرمائے، پہلے رسالہ میں آپ نے ۱۳۲۰ھ میں اپنے سفر حجاز کے حالات تحریر فرمائے ہیں ۔ اور دوسرے رسالہ میں حضرت غوث پاک کے مشہور قصیدہ چہل کاف کی فارسی میں شرح کی ہے۔ تیسرے میں حج کے مسائل دعائیں اور وہاں کے خاص خاص مقامات مقدسہ اور مزارات متبرکہ کا ذکر کیا ہے ۔ اور چوتھے رسالہ میں وہ احادیث مسلسل جو آپ کو حضرت شیخ سید محمد ابو نصردمشقی سے ملی ان کو نقل فرمایا اور پانچویں رسالہ میں چھ سبق آموز نصائح اور دینی دنیوی فلاح دینے والے امور کا ذکر فرمایا ہے۔
۱۱۔ سفر نامہ عربستان : ۲۲شعبان سے آپ نے حجاز مقدس ، عراق اور شام کا سفر شروع فرمایا اور ۱۷ربیع الاول ۱۳۳۳ھ کو وہ سفر اپنے اختتام کو پہنچا اس سفر کے حالات اور اس میں مشاہدہ کئے گئے عجیب و غریب حالات و مشاہدات کا آپ نے اس سفر نامہ میں ذکر فرمایاہے ۔
اس کے علاوہ انبیاء و اولیاء کے مزارات اور ان پر حاضری اور وہاں حاصل ہونے والے فیوضات و برکات کا بھی اس میں تذکرہ کیا ہے۔
۱۲۔ الاشارہ الی البشارہ : نماز کے اندر حالت تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنا ، علماء کے درمیان ایک اختلافی مسئلہ رہا ہے بعض اس کے قائل ہیں ۔ مولانا حکیم علی نواز علوی شکار پوری نے ایک رسالہ ’’بشارت ‘‘ کے نام سے لکھا جس میں اس کو ثابت کیا گیا ۔ آپ نے اس کے جواب میں ’’الاشارہ الی البشارہ ‘‘ کے نام سے یہ کتاب تحریر فرمائی یہ کتاب قلمی ہے اور ابھی تک طبع نہیں ہوئی ۔
۱۳۔ رسالہ فی باب صحۃ الجمعۃ فی القریٰ: ’’تابستان ‘‘ کے زمانہ قیام میں آپ کوئٹہ کے مضافات میں ’’ملک شابو‘‘نامی ایک گاوٗں میں سکونت پذیر تھے ، وہاں کے لوگ آپ کی آمد سے قبل یہاں جمعہ ادا نہیں کرتے تھے ، جب آپ نے تشریف لا کر جمعہ کی نماز کی ابتداء فرمائی تو بہت سکے علماء نے اعتراض کیا جس کے جواب میں آپ نے کتب فقہاء کی مختلف عبارت سے ، مصر کی یہ تعریف ثابت کی کہ ’’مالا یسع اکبر مساجدہ اھلہ المکلفین بھا‘‘ اور اس کے مطابق ’’ملک شابو ‘‘میں نماز جمعہ کے جواز کا فتویٰ صادر فرمایا۔ اور اس کی تفصیل اپنے اس رسالہ میں تحریر فرمائی ۔ یہ قلمی نسخہ ہے جو نا پید ہے۔
۱۴۔ لغات القرآن: اس کتاب میں آپ نے قرآن کے مشکل الفاظ کی آسان عربی الفاظ میں شرح فرمائی ہے۔
۱۵۔ رسالہ در قواعد تجوید : اس رسالہ میں آپ نے فن تجوید قراٗت کے قواعد اور اصول قلمبند فرمائے ہیں یہ بھی قلمی رسالہ ہے ۔ اس رسالہ کے آخیر میں آپ نے’’ضاد ‘‘ کے مخرج کی بڑی محققانہ تحقیق بھی فرمائی ہے اور ان لوگوں کا رد کیا ہے جو ’’ضاد‘‘ کے مخرج کو ’’ظا‘‘ کے مشابہ قرار دیتے ہیں ، چنانچہ آپ اس کے متعلق یہاں تک تحریر فرماتے ہیں کہ :
’’بعضے متشدداں صریحا ’’زا ‘‘ یا ’’ظا‘‘ می خوانند ایں غلط صریح است گناہ عظیم است وتحریف قرآن است الخ ‘‘
اس رسالہ کا سن تالیف ۴، جمادی الاول ۱۳۴۹ھ اس کے آخر میں تحریر ہے:
۱۶۔ رسالہ در سلوک نقشبندیہ : اس رسالہ میں آپ نے طریقہ نقشبندیہ کے لطائف خمسہ اور مراقبے وغیرہ کی تفصیلات ذکر فرمائی ہیں ۔
۱۷۔ رسالہ درتحقیق وحدت الوجود والشہود : اس رسالہ میں تصوف کے ایک مشہور اختلافی مسئلہ وحدت الوجود والشہود کے متعلق دونوں فریقین کے دلائل اور آخیر میں حضرت امام ربانی کے مسلک اور مشرب کی تائید میں دلائل و براہین تحریر فرمائے ہیں ۔
نادر کتب خانہ :
آپ کو بھی اپنے آباوٗ اجداد کی طرح کتابوں سے والہانہ شغف تھا، بلکہ عشق کی حد تک کتابوں سے انسیت تھی ، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے کتب خانہ میں وہ نادر اور نایاب قلمی اور مطبوعہ کتابیں جمع فرمائیں جن کی مثال کسی اور کتب خانہ میں ملنی مشکل ہے ۔اس کتب خانہ میں تفسیر ، حدیث ، فقہ ، ادب اور دیگر علوم دینیہ کے بڑے نادر اور نایاب قلمی نسخے موجود ہیں ۔ بالخصوص سندھ کے نامور علماء اور فقہاء اور صوفیاء مثلا مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی ، مخدوم محمد ابراہیم ٹھٹوی ، خلیفہ احمد خان نظامانی ، محمد امین سندھی ، مخدوم عبدالواحد سیوستانی ، مخدوم محمد جعفر بوبکائی ، حضرت فقیر اللہ علوی شکار پوری اور بہت سے سندھ کے محققین کے علاوہ سر ہندی اور مجددی خاندان کے صوفیاء کی قلمی تصنیفات کا ایک لاجواب ذخیرہ ہے جو پہلے آپ نے ٹنڈو سائیں داد میں رکھا تھا لیکن جب ان کتابوں میں کیڑا لگنے لگا تو آپ و ہوا کی مناسبت سے آپ نے قلمی رسالے اپنے کوئٹہ والے مکان میں منتقل فرما دیئے تھے جو آج تک وہاں موجود ہیں ۔ ان نادر قلمی نسخوں میں سے چند نسخوں کی فہرست حضرت شاہ آغا نے اپنی تصنیف مونس المخلصین میں درج کی ہے۔
شعر و شاعری :
شعر و شاعری کی طرف آپ کا طبعی میلان تھا، یہی وجہ ہے کہ ایک مخصوص بیاض میں آپ نے خیام ، سعدی ، جامی ، صائب اور حافظ جیسے اساتذہ وقت کی اپنی پسندیدہ غزلیں نوٹ فرما رکھی تھیں اور کبھی کبھی ان اشعار کو آپ ایسے ذوق سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جایا کرتے تھے، کبھی کبھی آپ اشعار ترنم سے ذوق لے کر پڑھا کرتے تھے اور کبھی تحت اللفظ پڑھتے تھے۔
اگر چہ شعر و شاعری میں آپ نے کبھی انہما ک نہیں رکھا البتہ کبھی قلب پر کوئی کیفیت طاری ہوئی تو وہ خود بخود اشعار کا روپ دھار کر آپ کی زبان پر آگئی ۔
حضرت غوث پاک کی عمر مبارک ، تاریخ ولادت و وفات ایک شعر میں اس طرح کہی ہے۔
سنینش کامل و عاشق تولد
۹۱ ۴۷۱
وفا تش داں تو مشعوقق الہٰی
۵۴۲
عشق رسول :
آنحضرت ﷺ کے عشق اور محبت میں آپ فنا تھے۔ صاحب مونس المخلصین نے آپ کے بہت سے خوابوں کا ذکر کیا ہے جس میں سے اکثر ایسے ہیں جس میں آنحضرت ﷺ کی زیارت اور آپ پر آنحضرت کی شفقت و عنایت کا ذکر ہے۔
یہ محبت کا تقاضہ تھا کہ ’’دلائل الخیرات ‘‘آپ ہر روز پابندی سے پڑھا کرتے تھے۔ اکثر آپ کی زبان پر درود شریف ہوتا تھا۔ آٹھ بار آپ کو روضہ رسول کی حاضری کی سعادت نصیب ہوئی ۔
دیار رسول مدینہ منورہ کی اپنے اشعار میں تعریف کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں۔
زاد صاف مدینہ ہرچہ گویم قطرہ از دریا است
عفاف آنحا کفاف آنحا صلوۃ آنجا زکوۃ آنجا
خداوند عطاء کن بندہ خود را بفضل خود
قیام آنجا مقام آنجا حیات آنجا ممات آنجا
اگر خواہی کہ بنیی جنت الماویٰ دریں عالم
نشین در روضہ اطہر بخواہ از حق نجات آنجا
سیاسی خدمات:
۱۲۵۶ھ میں جب انگریزوں نے افغانستان پر قبضہ کیا تو وہاں کے تمام علماء اور مشائخ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کیا، اس وقت قندھار کے قریب ’’غزوہ میوند ‘‘ کے نام سے جو مشہور جنگ ہوئی اس میں آپ کے والد گرامی نے بھی بھر پور حصہ لیا، اس وقت آپ کی عمر صرف ۱۷سال تھی اس کم عمری کے باوجود آپ بھی اپنے والد کے شانہ بشانہ اس جہاد میںشریک تھے۔ صاحب مونس المخلصین لکھتے ہیں کہ آخری معرکہ میں ، میں بھی آپ کے ہمراہ تھا اور میں نے دیکھا کہ میدان جنگ میں تیروں اور گولیوں کی بارش میں جہاں بڑے بڑے سور ماہمت ہار گئے وہاں آپ خود بھی کمال استقامت کے ساتھ دشمن سے برسر پیکار رہے اور مجاہدین میں بھی جوش و جذبہ پیدا فرماتے رہے ترکوں کی حکومت کے آپ زبردست حمایتی تھے ۔ اس وقت کے خادم الحرمین شریفین سلطان عبدالحمید خان کو آپ ’’خلیفہ المسلمین ‘‘تسلیم کرتے تھے۔ جب انگریزوں نے سلطان عبدالحمید خان کا تختہ الٹا تو آپ کو آپ کو اس کا بڑا صدمہ ہوا اس کے بعد جب اس کی جگہ محمد شاہ خان تخت سلطنت پر متمکن ہوا تو آپ نے اس کو بھی خلیفۃ المسلمین تسلیم کیا اور ہر طرح سے اس کی اعانت فرمائی حتیٰ کے جب جنگ بلقان ہوئی تو مجاہدین کی مالی مدد کے لئے آپ نے اپنے مخلصین اور اہالیان سندھ سے فنڈ جمع کرکے ’’ہلال احمر‘‘ کو مجاہدین کی مدد کے لئے ارسال فرمایا۔
تحریک خلافت :
جب تحریک خلافت چلی اور ’’ہند و مسلم اتحاد ‘‘ اس عروج پر پہنچ گیا کہ بعض مسلمان لیڈروں نے گاندھی کو اپنا مقتد ااور پیشواحتیٰ کہ مہدی کہنا شروع کر دیا تو آپ نے اس کی سخت ممانعت کی اور فرمایا کہ: ’’تعجب ہے لوگ نصاریٰ سے ترک موالات کرتے ہیں اور جو نصاریٰ سے بھی بد تر ہیں ’’یعنی مشرکین ان سے بھائی چارہ قائم کرتے ہیں یہ بالکل غلط ہے۔ جب حیدرآباد میں آل انڈیا خلافت کانفرنس منعقد ہوئی تو آپ کے دونوں صاحبزادوں نے اس میں شرکت کی آپ سے اجازت طلب کی آپ نے بادل نا خواستہ ان کو شرکت کی اجازت دے دی ، جب کانفرنس سے واپسی پر آپ کے صاحبزادگان نے کانفرنس کا حال سناتے ہوئے آپ کو بتایا کہ اس کانفرنس میں سندھ کے نامور علماء اور مشائخ مثلا پیر صاحب جھنڈہ والے ، مولانا سید اسد اللہ شاہ ٹھکرائی ، مولانا عبدالکریم درس ، مولوی محمد صادق کھڈہ والے بیٹھے ہوئے تھے ، اور ان سب کے درمیان ایک بلند چبوترہ پر تخت بچھایا تھا جس پر گاندھی بیٹھا ہوا تھا تو یہ سن کر آپ کو اس قدر حزن و ملال ہوا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسورواں ہو گئے اور آپ نے فرمایا کہ کیا اتنے سارے علماء اور مشائخ میں ان کو کوئی بھی ایسا نظر نہیں آیا جو صدارت کرتا، ایک ہندو کافر کو مشائخ کے مقابلہ میں یہ عزت دے کر انہوں نے قوم مسلم کو ذلیل و خوار کر دای۔ اس طرح جب انہی لیڈروں نے یہ تحریک چلائی کہ سندھ، پنجاب اور ہندوستان سے ہجرت کر کے فاغانستان میں جا کر آباد ہو جاوٗ تو آپ نے اس کی بھی ممانعت فرمائی ، نہ آپ نے خود ہجرت فرمائی اور نہ اپنے متعلقین کو اس کی اجازت دی ، آپ نے فرمایا کہ نہ وہاں اس ملک میں اتنے لوگوں کی گنجائش ہے اور نہ ہی وہاں کی سختیوں کو یہ سندھ اور ہندوستان کے لوگ برداشت کر سکیں گے اور ایسا ہی ہوا کہ بہت سے قافلے جو کچھ اپنا ہندووٗں کے ہاتھوں بیچ کر وہاں گئے ان کو جب وہاں جگہ نہ ملی تو واپس اس حال میں آئے کہ یہ اپنا ملک بھی ان کے لئے اجنبی بن گیا تھا۔
اسی طرح جب کانگریسی علماء نے یہ فتویٰ دیا کہ انگریزوں کا بنایا ہوا کپڑا پہننا حرام ہے اور اس کو پہن کر نماز پڑھنا ناجائز ہے۔ تو آپ نے اس کے خلاف فتویٰ دیا اور شرعی دلائل سے ثابت کیا کہ اس قسم کا کپڑا پہننے میں شرعی لحاظ سے کوئی حرمت نہیں ہے۔ اگر چہ اپنا بنایا ہوا کپڑا پہننا مستحب اور مستحسن ہے لیکن انگریز کے بنائے ہوئے کپڑے کو شرعی لحاظ سے حرام قرار دینا درست نہیں ہے کیوں کہ محض کسی کی مخالفت میں شرعی احکام کو بدل دینا جائز نہیں ، حتیٰ کہ یہ مسئلہ اتنا بڑھا کہ حیدرآباد میں اس کے لئے ایک مناظرہ کی تاریخ طے ہوئی جس میں آپ کے ہمراہ مولانا عبدالقیوم بختیار پوری ، علا مہ حاجی لعل محمد متعلوی ، مولانا محمد عثمان تھے، اور تحریک خلافت والوں کی طرف سے حاجی اسد اللہ شاہ ٹکھڑائی ، مولوی محمد صادق، حکیم شمس الدین نوشہرہ والے تھے جب کہ اس مناظرہ کے منصف اور ثالث مولانا معین الدین اجمیری تھے جو خلافت کمیٹی راجپوتانہ کے صدر تھے۔ جب مناظرہ ہوا تو آپ کے دلائل کو وزنی قرار دیتے ہوئے آپ کے حق میں مولانا معین الدین اجمیری نے فیصلہ دیا اور اس مناظرہ کی تمام روئد اد ایک کتاب میں تحریر فرما کر ا س کو شائع فرمایا اس کتاب کا نام ’’القول الفیصل فی جواز الشیات من الحربی المقاتل ‘‘ رکھا۔ آپ کے سوانح نگار آغا عبداللہ جان لکھتے ہیں کہ تحریک خلافت کے زمانہ میں جب ہندوستان سے علماء کی سندھ میں آمدورفت ہوئی تو وہابی اور نجدی عقائد بھی سندھ میں آنے شروع ہو گئے ۔ حتیٰ کے دین محمد وفائی نے مولوی تاج محمود امروٹی کی سر پرستی میں ’’تقویۃ الایمان ‘‘ کا سندھی ترجمہ ، ’’توحید الاسلام ‘‘ کے نام سے لکھ کے چھپوایا تو آپ ان عقائد کے خلاف جہاد کے لئے کھڑے ہو گئے اور سب سے پہلے آپ نے بھر پور کوشش کر کے شکار پور سے ’’الحنیف‘‘ کے نام سے ایک اخبار جاری کرایا اس کے علاوہ ’’اصول اربعہ ‘‘ اور اس جیسی بہت سی کتابیں تصنیف فرما کر شائع کروائیں جس میں دلائل اور براہین سے ان کے عقائد کا رد کیا گیا ، اسی طرح جب سعودی حکومت کی طرف سے گنبد خضراء کو مہندم کرنے کی خبر آپ تک پہنچی تو آپ بے چین و بے قرار ہو گئے ۔
چنانچہ صاحب مونس المخلصین رقمطراز ہیں کہ
’’دایں میاں باز فتنہ نجدیت و توہب در سندھ سر بالا کردو مخفی نماند کہ در ملک سندھ تمام علماء و مشائخ و سلف صالحین از زمانہ قدیم ہمہ سنی مقلدو حنفی المذہب بودند و چوں نجدیہ بربلا و حجاز مسلط شد ندو مظالم آنہااز سفک و ماوقتل نفوس ونہب اموال مسلمین و تکفیر مسلماناں وتخریب مقامات مقدسہ وہدم قبور و قباب شنید ند خیلے حسرت و افسوس خوردندو تمام مسلمانان عالم رادل سوختہ و جگر کباب گردید گوکہ بعضے ہم مشرباں اور خوشاں خوش شد ندد شادمانی ہاکروندد تار مبارک بادی ہافر ستادند و بر مظالم آنہا پردہ اندا ختندتا آنکہ خبر ہدم گنبد خضرائے سر کار مدینہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام التحیۃ بسمع ایشاں رسید پس بے قرار دبے آرام شدند ‘‘ اس مسئلہ کے حل کے لئے سند ھ کے تمام معززین اورعلماء دین کو آپ نے شکار پور میں جمع فرمایا اور اس اجلاس میں روضہ نبوی ﷺ کی حفاظت کی تدابیر سوچی گئیں ۔
سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا گیا کہ سندھ کے عاشقان رسول کی طرف سے ابن سعود کو ایک تار روانہ کیا گیا جو خان بہادر علی بخش خان محمد حسین جو ممبر کونسل تھے ان کے ذریعہ وائسرائے تک پہنچایا گیا اور وائسرائے کے توسط سے سعودی فرما نر وا کو پہنچایا گیا ، دوسرے ہی روز بادشاہ کی طرف سے اس کا جواب موصول ہو گیا کہ آپ لوگ پریشان ہ ہوں روضہ اطہر کی بے حرمتی کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں ۔
تحریک پاکستان :
جب تحریک پاکستان کا آغاز ہوا اور ہندوستان کے اکثر مسلمان اپنی ایک جدا گانہ حکومت حاصل کرنے کیلئے مل گئے تو بعض مسلمان کانگریس کے ساتھ مل کر ایک جداگانہ اسلامی مملکت کی مخالفت کرنے لگے لیکن سندھ کے مشائخ اور علماء اہل سنت نے حصول پاکستان کیلئے مسلم لیگ کی بھر پور حمایت کی جس کی وجہ سے مسلم لیگ کو سندھ میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی ، اس کامیابی کا سہراجہاں سندھ کے اور مشائخ کے سر ہے وہاں سر ہندی مجددی خانوادہ کے اس چشم و چراغ حضرت خواجہ حسن جان کے سر بھی ہے جنہوں نے سندھ میں کانگریسیوں کی بھر پور مخالفت کی اور مسلم لیگ کی بھر پور اعانت اور مدد فرمائی اوراس سلسلہ میں اپنے مریدوں کو اس کے لئے خصوصی ہدایت نامے جاری فرمائے ، چنانچہ آپ کا ایک مکتوب گرامی یہاں نقل کیا جاتا ہے جس سے اچھی طرح اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ نے اپنے مریدوں کو مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کرنے کی کس طرح ہدایت فرمائی ۔
مخلصین مکرمین وڈیرہ محمد قاسم وڈیرہ عبداللہ و قاضی جان محمد سلہم ربہم بعد از دعائے خیر شمایاں مخلصاں رابطیق نصیحت تحریر میثود کہ درقصہ خاص مقابلہ ہندواں است با مسلماناں و سید علی اکبر شاہ راٹکٹ مسلم لیگ دادہ شدہ است بنا براں برشمایاں لازم کہ از مخالفت اودستبر دار شوید و حرقدر کہ بتوانید امداد بکنید والسلام
۶، ماہ صفر ۱۳۶۵ھ فقیر محمد حسن عفی عنہ
۱۹۴۶ء
یہ آپ کا آخری خط تھا جس میں آپ نے اپنے مریدوں کو مسلم لیگ کی مخالفت سے منع کیا اور اس کی ہر طرح سے مدد کرنے کا حکم دیا ۔ اس خط کے پانچ ماہ بعد تقسیم پاکستان سے قبل آپ انتقال فرما گئے ، لیکن آپ کی کوشش بار آور ثابت ہوئیں اور اسی سال پاکستان معرض وجود میں آگیا۔
علمائے کرام کی عقیدت :
بہت سارے علماء اہل سنت آپ سے دست بیعت کا شرف رکھتے تھے اور ہر تحریک و موڑ پر آپ کے ساتھ رہے۔ اور مسلک و مذہب اہلسنت حنفیہ کی ترویج و اشاعت ، رد فرقائے باطلہ ، تحریک آزادی اور ملی و فلاحی کاموں میں سر گرم عمل رہے ۔ انوار علمائے اہل سنت ( زیر نظر ) کتاب کے مطالعہ سے بعض اسماء گرامی سامنے آئے جو کہ درج ذیل ہیں :
٭ مفتی اعظم تھر استاد العلماء علامہ محمد عثمان قرانی
٭ استاد العلماء مفتی محمد حسین ٹھٹوی
٭ استاد العلماء مولانا مفتی فتح علی جتوئی اکبر
٭ بحر العلوم علامہ فتح علی جتوئی اصغر
٭ مولانا مفتی میر محمد جتوئی نزد آمری تحصیل جاتی
٭ مولانا مفتی محمد یوسف میمن مڑھی بولا خان تحصیل جاتی
٭ مولانا فقیر حامد اللہ ساند بھ شریف تحصیل نگر پارکر
٭ مولانا اللہ بخش سیٹھر تحصیل کنڈیارو
٭ قاضی نذر محمد دیہاتی دیہات تحصیل کنڈیارو
شادی و اولاد :
آپ نے تین شادیاں فرمائی ، پہلی زوجہ محترمہ سے پانچ لڑکے اور نو لڑکیاں پیدا ہوئی جن میں سے دو لڑکے اور دو لڑکیا ں شروع میں فوت ہوئیں بقیہ تین لڑکے اور سات لڑکیا ں بقید حیات رہیں ۔ دوسری شادی آپ نے کراچی میں حضرت محمد فاروق کی صاحبزادی سے کی ، جن کے بطن سے تین لڑکیاں تین لڑکے پیدا ہوئے جن میں سوائے ایک صاحبزادے محمد حنیف کے باقی تمام ۱۳۵۴ھ میں کوئٹہ کے زلزلے میں شہید ہو گئے ۔ تیسرا نکاح آپ نے سادات کلی گل محمد کے علی جان آغا کی صاحبزادی سے کیا جن کے بطن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی ، پہلی بیوی سے جو صاحبزادے بقید حیات رہے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں :
۱۔ عبداللہ جان عرف شاہ آغا
۲۔ عبدالستار جان
۳۔ محمد ہاشم جان
وصال:
۶، رجب المرجب ۱۳۶۵ھ؍، جون ۱۹۴۶ء بروز پیر ظہر اور عصر کے درمیان ۸۷سال کی عمر میں آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ٹنڈو سائیں داد سے چند میل کے فاصلہ پر ’’کوہ گنجہ‘‘نامی آپ کے آبائی قبرستان میںآپ کے والد ماجد کے پہلو میں آپ کو دفن کر دیا گیا۔ حضرت مولانا رشید احمد مجددی رامپوری ؒ نے آپ کی وفات پراردو میں یہ قطعہ تاریخ لکھا:
عارف کامل اٹھا دنیا سے کیسا ہائے ہائے
طالبان دین کا غم سے دل ہوا جاتا ہے شق
جس کے ایک اونیٰ اشارے سے ہوا کرتے تھے حل
مسئلے علم طریقت کے ادق سے بھی ادق
ہو رہی ہے اہل عرفان میں یہ باہم گفتگو
ہوگیا کم اب کتاب معرفت سے اک ورق
فکر ہے تاریخ رحلت کی تو کہہ دو اے رشید
مرشد کامل امیر ملک معنی قطب حق
۱۳۶۵ھ
(ماخوذ : سندھ کے صوفیائے نقشبندمطبوعہ حیدرآباد)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )