علامہ لطف اللہ قادری
علامہ لطف اللہ قادری (تذکرہ / سوانح)
شخا المشائخ حضرت علامہ مولانالطف اللہ قادری اگھم کوٹ ضلع حدمرآباد سندھ مں تولد ہوئے۔ اگھم کو ٹ ، حد ر آباد سے بسع پچسج ملہ کی مسافت پر تحصل ماتلی ( ضلع بدین ) کے قریب واقع ہے۔
تعلم و تربتل:
اگھم کوٹ دسویں صدی ہجری مںب بلکہ اس سے قبل بھی علماء ، صوفالء اور درویشوں کا مرکز رہا ہے، خصوصا دسویں صدی کی نصف کے بعد نامورولی کامل حضرت مخدوم محمد اسماعلت سومرو ( متوفی ۹۹۶ھ) اور دیگر معاصر علماء و مشائخ نے علمی و روحانی فووض سے اگھم کوٹ کو چار چاند لگا دیئے جس کی وجہ سے یہاں بڑے بڑے دیید مدارس قائم ہوئے ۔ ان مدارس دیہٹ مںس جدو علماء اہل سنت نے درس دیا۔ علماء کے مدارس اور مشائخ کی خانقاہ ہںھ بارہویں صدی ہجری تک عروج پر رہںے ۔ علامہ لطف اللہ قادری کی تعلمی و تربتس اگھم کوٹ کے ان ہی اعلیٰ درسگاہ مں برگزیدہ علماء اہل سنت کی زیر نگرانی ہوئی ۔
بعتر :
اگھم کو ٹ سلسلہ سہروردیہ اور سلسلہ قادریہ کے مشائخ کی تلقن۔ وار شاد ، فویض و برکات کا مرکز تھا۔ جنہوں نے اپنی زندگی کو عوام الناس کی اخلاقی تربت، اور روحانی ترقی کلئے وقف کر رکھا تھا۔ محبوب سبحانی غوث الثقلنق شخم محی الدین سد عبدالقادر جلاضنی ؒ ( بغداد شریف ) کی اولاد مںی سے حضرت ابوالمناقب سدض جمال الدین عبداللہ جلا نی کے مریدین مںا سے حضرت شخم محمد اسحاق بن سلطان بن بہلول قادری نے اگھم کوٹ مںن سکونت اختا ر فرمائی اور قادریہ سلسلہ کو پھلا یا اور آپ کی وفات بھی اگھم کوٹ مںہ ہوئی ۔
اگھم کوٹ مںا سلسلہ قادریہ کے فضو کا چشمہ جاری تھا۔ حضرت لطف اللہ تکملر تعلم کے بعد راہ طریقت پر گامزن ہوئے اور سلسلہ عالہ قادریہ مں بعتہ ہونے کے بعد سلوک کی منازل طے کرنے کے بعد خلافت سے نواز ے گئے ، تبھی تو کاتب کتاب سندھی رسالو نے ص۹۶پر آپ کو ’’شخ المشائخ ‘‘ تحریر کات ہے۔
تصنفھ و تالفا :
آپ کی فقط تنن تصانف کا علم ہوا، ان کی تفصلی درج ذیل ہے:
٭ تحفۃ السالکن : غالبا آپ کی پہلی تصنفی ہے۔ تصوف کے موضوع پر تفصیتح کتاب ہے۔
٭ منھاج المعرفۃ (فارسی ) : تصوف کے موضوع پر اکسپ ابواب پر مشتمل کتاب ہے۔ ۱۰۷۸ھ کی تصنف) ہے۔
٭ سندھی رسالو (نظم) : توحدف و رسالت ، شریعت و طریقت ، معرفت و حققتس اور مرشد و مرید کے تعلق کے متعلق آگاہی دی گئی ہے۔
شاعری :
سندھ کے علماء مشائخ و صوفاوء نے غالبا نو صدی ہجری ( پندرہویں صدی عسوھی ) سے سندھی شاعری کے ذریعہ حسن اخلاق ، اصلاح معاشرہ اور دعوت و تبلغی کا فریضہ انجام دیا۔ تزکہی نفس، تصفہخ نفس ، اخلاقی تربتغ ، خالق کی معرفت ، محبوب پاک ﷺ کی محبت ، عظمت ، رفعت ، نسبت اور مخلوق سے ہمدردی وغراہ شاعری کے اہم باب وجود مں آئے ۔ اس طرح سندھی شاعری ’’فکر و معنی ‘‘سے سرفراز ہونے لگی ۔ قاضی قادن اور حضرت سدح عبدالکریم شاہ بلڑی والے کے بعد حضرت لطف اللہ کی شاعری کا نمبر آتا ہے۔ حضرت عبدالکریم بلڑی والے، حضرت مخدوم محمد عثمان اگھم کوٹی اور حضرت مخدوم محمد اسماعلد سومروا گھم کوٹی کا آپ کی شخصتم پر گہرا اثر تھا ۔
آپ کی تمام شاعری سندھی مںخ ہے، موضوع کے لحاظ سے تصوف و معرفت کے متعلق فکر انگزا و اثر پذیر ہے۔
وصال:
شخا المشائخ علامہ لطف اللہ قادری نے ایک اندازے کے مطابق ۱۰۹۰ھ ؍ ۱۶۷۹ء کو انتقال کاخ۔ اور غالبا اگھم کوٹ مں مدفون ہوئے۔
حضرت کے حالات زندگی کے متعلق سندھ کی تاریخ خاموش ہے۔ یہ تو حسن اتفاق ہے کہ محترم ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کو آپ کی دو قلمی کتابں دستا ب ہوئںا جس کی بنامد پر مختصر حالات مرتب ہو سکے اور سندھی کلام شائع ہوا ورنہ کوئی آپ کے نام سے بھی آشنانہ ہوتا۔
[سندھی رسالو عرف لطف اللہ قادری جو کلام : مرتبہ تحقق و مقدمہ : ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ مطبوعہ انسٹوخش ٹ آف سند ھالاجی سندھ یونومرسٹی جامشورو ۱۹۶۸ء ۔ بشکریہ جناب پروفسرٹ ڈاکٹر غلام محمد لاکھو صاحب جامشورو]
(انوارِ علماءِ اہلسنت )