سید الفقہاء علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی
سید الفقہاء علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی (تذکرہ / سوانح)
مفتی اعظم ، اما م العلماء ، علامہ مفتی عبدالغفور ’’ مفتون ‘‘ ہمایونی بن صدر العلماء بدر الطریقہ علامہ مفتی خلیفہ محمد یعقوب ہمایونی ۱۲۶۱ھ ؍ ۱۸۴۵ء کو ہمایون شریف ضلع شکار پو ر سندھ میں تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت :
تعلیم کا آغاز گھر سے کیا ۔ ابتدائی کتب شرح جامی تک والد ماجد سے پرھیں ۔ ۱۲۷۳ھ؍۱۸۵۷ء میں والد محترم علامہ محمد یعقوب کا انتقال ہوا ۔ اس وقت علامہ عبدالغفور کی عمر بارہ سال تھی۔ آپ اپنے والد کے اکلوتے بیٹے تھے ۔ بقیہ تعلیم والد ماجد کے شاگر دارشد استاد العلماء علامہ حکیم سلطان محمود سیت پوری سے حاصل کر کے فارغ التحصیل ہوئے۔ ان سے علم طب بھی حاصل کیا۔ ( ہماہما یونی)
بیعت :
ولی کامل حضر ت میاں غلام حیدر قادری ؒ (متوفی ۱۳۰۰ھ درگاہ کٹبار شریف ، بیل بٹ ، ضلع کچھی ، قلات ڈیژن ، صونہ بلوچستان ) کے وصال پر آپ نے ان کی شان میں نہایت عقیدت و احترام سے منقبت کہی :
عارف کامل ولی حق کرامت را ستون
واصل ذات خدائی بے مثال و بے چگوں
ایک مصرع میں فرماتے ہیں:
نام آں شیخ طریق حق غلام حیدر است
(عمدۃ الاثار فی تذکار اخبار الکتبار ۔ مصنف مفتی محمد
قاسمیاسینی)
جس سے غالب گمان ہے کہ آپ ان سے سلسلہ قادریہ میں دست بیعت و خلیفہ مجاز تھے ۔
ایک روایت کے مطابق اپنے والد ماجد سے دست بیعت تھے اور بعد وصال ان سے اویسی فیض حاصل کیا ۔
امام العارفین سے عقیدت :
آپ درگاہ عالیہ راشدیہ پیر ان پگارہ پیر جو گوٹھ کے سجادہ نشین حضرت پیر سید شاہ مردان شاہ اول راشدی پیر صاحب پگارہ پنچم ؒ کی دعوت پر سالانہ جلسہ جشن معراج النبی ﷺ و عرس امام العارفین حضرت پیر سائیں روضے دھنی قدس سرہ الاقدس و جامعہ راشد یہ کے فضلاء کی دستار فضیلت کے عظیم الشان موقعہ بتاریخ ۲۷، رجب المرجب نہایت عقیدت و احترام سے شرکت فرمایا کرتے تھے ۔
درس و تدریس :
بعد فراغت ، مادر علمی میں درس و تدریس ، فتاویٰ نویسی اور تصنیف و تحقیق کے اہم و مفید کام میں مصروف رہے ۔
مفتی اعظم :
پروفیسر ڈاکٹر قاضی یا ر محمد مرحوم ( کوٹری ) اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ میںآپ کے فقہی مقام و مرتبہ کے متعلق رقمطراز ہیں :
’’علامہ ہمایونی علم کے ہر فن میں یکتائے روز گار تھے خصوصا علم فقہ میں آپ کی نظیر سندھ ، ہند ، بلوچستان اور خراسان میں بھی نہ تھی ۔ اپنے وقت میں بلوچستان اور شمالی سندھ میں مرجع فتاویٰ اور مرجع علماء تھے ۔ کوئی بھی فتویٰ یا تحریر تب تک قبولیت کی نظر سے نہیں دیکھی جاتی تھی جب تک علامہ ہمایونی کے دستخط نہ ہوں ۔
بلوچستان کے حاکم شرعی فیصلوں کے لئے شاہی جرگوں کے مواقع پر آپ کو بڑی تعظیم و تکریم سے مدعو کرتے تھے اور آپ مشکل مسائل حل فرماتے تھے ۔(سندھی فقہی تحقیق جوار تقاء ص۱۷۷)
علامہ ہمایونی کے متعلق ایک اشارہ امام احمد رضا خان بریلوی محدث بریلوی کے فتاویٰ ’’فتاویٰ رضویہ ‘‘میں ملتا ہے۔ سراج الفقہاء مفتی سراج احمد خانپوری (ضلع رحیم یار خان ) مولانا مفتی امجد علی اعظمی (مصنف :بہار شریعت ) کے نام ایک خط میں رقمطراز ہیں :
مسئلہ قاعدہ تحریم ضعف رابع ذو ی الا رحام مندرجہ لفافہ ہمارے علماء گردونواح کا مختلف فیہ واقع ہوا ہے ۔ کوئی متون کوترجیح دیتے ہیں ، دیو بندیوں کا فتویٰ بھی یہی ، حتیٰ کہ ’’ مفید الوارثین ‘‘ کتاب میں بالتصریح مذکور ہے اور کوئی ’’ فتاویٰ خیر یہ ‘‘ کو مقدم سمجھتا ہے ۔ جس کی شامی نے بھی تائید کی ہے ۔ اب مسئلہ معرکہ بن گیا ہے ۔ ایک اس کا استفتاء مولانا عبدالغفور ہمایونی بن علامہ خلیفہ محمد یعقوب ہمایونی کو بھیجا گیا مگر افسوس وہ فوت ہوگئے ہیں ۔
باقی دیوبندی علماء غیر مقلد ہیں ان کے فتوے پر اعتبار نہیں آتا ۔ آج کل فقہ حنفی کا عالم متبحر مولانا احمد رضا خان صاحب کے علاوہ اور کوئی نظر نہیں آتا۔ (فتاویٰ رضویہ جلد نہم ص۳۸۵ طبع قدیم۔ بحوالہ امام احمد رضا اور علماء ریاست بہاولپور )
معلوم ہوا کہ اس دور میں استاد العلماء مفتی سراج احمد خانپوری کی نظر میں ہندوستان میں فقط دو بڑے مفتی تھے اور دونوں سنی حنفی تھے باقی دیونبدی علماء کے فتویٰ پر انہیں اعتبار نہیں کیوں کہ وہ انہیں غیر مقلد کی مثل سمجھتے تھے ۔ ان دو عظیم مفتیوں میں ایک علامہ ہمایونی تھے جو کہ ان دنوں تازہ وصال کر گئے تھے جس کا انہیں نہایت افسوس تھا اور دوسرے مولانا مفتی احمد رضا خان قادری محدث بریلوی تھے ۔ آخر یہ معرکۃ آلا راء مسئلہ فاضل بریلوی نے حل فرمایا ۔
شاعری :
آپ شاعری کا پاکیزہ ذوق بھی رکھتے تھے ، آپ کا دیوان عشق کا خزینہ ہے ۔ تخلص ’’ مفتون ‘‘ ہے ۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ’’ دیوان مفتون ‘‘ سندھی اور فارسی نعتیہ وصوفیانہ شاعری پر مشتمل ہے۔
انتخاب کلام :
نعت
مصطفیٰ و مجتبیٰ و مقتدا و محتشم
صاحب عز و علا و والی جملہ امم
اولین کائنات و آخرین ممکنات
مالک حوض و شفاعت صاحب تاج و علم
ذات پاکش چوں ببطحا شدپد یدارو عیاں
گشت پیدا شوکت اسلام کفران شد عدم
کمترین بندگان بارگا ہش جبرئیل
آدم و موسیٰ و عیسیٰ پیش درگاہش خدم
آں محمد سرور کونین ختم المرسلین
حاکم جن و بشر فرمان دہ عرب و عجم
آں حبیب ایزد و سالار جملہ انبیاء
دستگیر مستغیثان درمیان موج و غم
درمیان خلق باخلق عظیم آمد فزون
نیست کس ہمتاء او اندر رہ علم کرم
سیر کردی در شب معراج ای عالی جناب
ہمچو سیر ماہ تابان ازحرم سوئے حرم
زآن سپس معراج تو برائی عرش آمد چناں
کاندر آنجا عقل را ہرگز نہ توفیق قدم
نیست ’’مفتون‘‘ رابدل جز آرزوی خدمت
لطف باشد گر بر آری حاجتش ای محترم !
منبقت صدیق اکبر
من چگو یم وصف آں صدیق یار غار را
آن امیر المومنین و واقف اسرار را
قطب عالم، غوث امت، تاج جملہ اولیاء
آں خلیفہ مصطفی و قاتل کفار را
ہست بعد از انبیاء افضل جملہ خلق حق
جان فدا بود او ہمیشہ احمد مختار را
صجتش ثابت شد بانص قرآن مجید
پس نماندہ جز لعنت صاحب انکار را
ہرچہ بنیی ز اولیاء و اصفیاء و اتقیاء
جملگی ہستند خادم آن شہ بیدار را
ہست ’’مفتون‘‘ خاکپایت ای امام عارفاں
چیست گر رفعت دہی این عاجز بیکار را
منقبت حیدر کرار
شد دل من پر نظارت ہمچو باغ و بوستان
چوں حدیث حیدر کرار آمد درمیان
مرد میدان و غاوٗ شیر بیشہ اجتہاد
رہ نمائے عارفان و قطب دور آسمان
ابن عم مصطفی و والد سبطین بود
جان پاک آن مقدس طائر عرش آشیان
بعد ذوالنورین بود او مند آرائے نبی
گشت زو فقر خلافت خوشتر از باغ جنان
ورد ہر کس ہر زبان نامش علی المرتضیٰ
بود ذات خاص پاکش رہنمائے انس و جاں
خادم درگاہ تو ’’مفتون‘‘ بس درماندہ است
کن نظر از مرحمت برحال زار ناتواں
دست پاک کی شان :
منقول ہے کہ آپ نے جوانی میں مسجد شریف میں بصورت قیام قرآن حکیم کی زکوۃ ادا کی تھی ، سخت و مشکل مجاہدہ کے اختتام پر نبی اکرم حضور پر نور سید عالم ﷺ نے اس عاشق صادق کو بیداری میں زیارت سے مشرف فرمایا اور مصافحہ کی سعادت بخشی یہی وجہ تھی کہ سیدھے ہاتھ پر ہمیشہ رومال لپٹا کر رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود ہاتھ مبارک سے خوشبو آتی تھی ۔ ( ہماہما یونی)
حکمت :
آپ علم طب میں مہارت رکھتے تھے ۔ بے شمار لا علاج مریض شفا یاب ہوئے ۔ مہنگی اور معمولی دوا وٗں کے مرکبات موجود ہوتے تھے جوکہ خلق خدا کو مفت تقسیم فرماتے تھے۔
(سندھ کی طبی تاریخ جلد ۲ ص۶۲۵)
عادات و خصائل :
آپ کا درمیانی قد ، گندمی رنگ اور سفیدریش او ر۲۴ گھنٹہ میں ایک بار کھانا تناول فرماتے تھے ۔ (تذکرہ مشاہیر سندھ ) سفید لباس زیب تن فرماتے تھے۔ متقی پرہیز گار ، پیکر اخلاص ، سراپا محبت و شفقت، مہمان نواز غریب پرور ، سخی ، متوکل ، شب بیدار خدمت خلق کے جذبہ سے سر شار ، صابر شاکر اور مرجع خلائق تھے۔
ڈاکٹر یار محمد قاضی مرھوم لکھتے ہیں: مولانا صاحب مستجاب الدعوات اور مرجع خلائق تھے ۔ ہر طبقے کے لوگ آپ کے حضور دعا کے واسطے حاضر ہوتے تھے اور علم کی طلب و فتاویٰ کے حصول کے لئے پنجاب ہندوستان ایران اور افغانستان جیسے دور دراز علاقوں سے سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے آتے تھے ۔ آپ کے آستانہ عالیہ پر ہر وقت خلق خدا کا ہجوم جمع ہوا کرتا تھا ، دروازہ پر دربان مقرر تھا جو کہ سائلین کو نمبر سے ملاقا ت کرواتا تھا ۔ آپ کی یہ خصوصیت تھی کہ کسی سے بھی ہاتھ نہیں ملاتے تھے ۔ آپ کم گوتھے ، ہمیشہ دیدار یار میں رہتے تھے۔ آپ کا سینہ عشق مصطفیٰ ﷺ جیسی عظیم دولت سے سر فراز تھا ۔ (سندھی میں فقہی تحقیق جوار تقائ)
مرجع خلائق :
حاجت مند سائل اپنی اپنی مراد پاتے تھے ۔ آپ سراپا کرامت تھے، آپ کی کرامات دیکھ کر بڑے بڑے نواب ، قومی سردار ، زمیندار ، جاگیر داروڈیرے ، اپنے ظلم و جبر سے میں آپ ہی کی جانب رجوع کیا۔ ان طویل فہرست میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں :
٭ جناب محمدابراہیم
وزیراعظم ریاست خیر پور میرس (سندھ)
٭ بنی بخش خان
وزیراعظم ریاست بہاولپور (پنجاب )
٭ قاضی جلال الدین
وزیراعظم ریاست قلات (بلوچستان )
٭ بابو سید سراج الدین
چیف جسٹس بہاولپور
٭ سر دار محمد طاہر خان محمد زئی اور ان کے صاحبزادے سر دار محمد حسین خان امیر کابل کے شاہی خاندان کے افرا د
٭ بلوچستان کے مشہور سر دار نواب اسد اللہ خان بگٹی
٭ نواب میر قیصر خان مگسی
جھل مگسی
٭ نواب محراب خان بگٹی
٭ سر دار اسلام خان بگٹی
٭ سردار سہراب خان بگٹی
٭ خان بہادر شاہ پسند خان پٹھان
زمیندار سلطان کوٹ
٭ سیف الدین خان
زمیندار سلطان کوٹ
٭ میر حسن خان کھوسہ
٭ میر قائم خان کھوسہ
اس کے علاوہ عمرانی ، سدھایا ، بھٹہ کھاوڑ زمین دار بھی اس در کے سوالی تھے تو عوام الناس کو کون شمار کر سکتا ہے ؟
حضرت پیر سید ابو محمد صالح شاہ جیلانی سجادہ نشین درگاہ جیلانیہ رانی پور جیسی روحانی شخصیت بھی حضرت مولانا سے دست بیعت کا شرف رکھتے تھے۔
ردوہابیت :
سندھ میں وہابیت کا آغاز امروٹ سے ہوا جہاں تاج محمو د امروٹی نے مدرسہ قائم کیا اور عبید اللہ سندھی نے درس دیا اور انہیں کی تحریک پر دین محمد وفائی نے دین و ایما ن سے بے وفائی کر کے تقویۃ الا یمان کا سندھی ترجمہ شائع کیا۔
ا س دور میں ’’ سنی ‘‘اور ’’وہابی ‘‘ کی پہچان مشکل ہو گئی تھی کیوں کہ وہابی اپنے ااپ کو سنی کہلوا کر سنیوں کو دھوکہ دے رہے تھے ، ایسے عالم میں تاج الفقہاء ، شیخ طریقت ، عاشق مصطفی حضرت علامہ مفتی پیر عبدالغفور ہمایونیؒ ( ہمایون شریف ) مسلک حقہ اہل سنت و جماعت کی نظریاتی حفاظت اور عوام اہل سنت کی رہنمائی کے لئے میدان عمل میں نکل آئے او ر فرقہ وہابیہ کو تحریر ی تقریری اور تدریسی ہر میدان میں شکست دی ۔ عبید اللہ سندھی اور تاج محمود امروٹی کو بار ہا مناظر ہ کی دعوت دی ان کے باطل نظریات کا بڑے بڑے اجتماعات میںکھل کر رد فرمایا لیکن وہ میدان میں آنے کی جراٗت نہ کر سکے اس کشمکش کے دور میں’’ہمایونی ‘‘ اہل سنت کی پہچان بنی اور ’’ امروٹی ‘‘ وہابیو ں کی پہچان بنی اور ا سی نسبت سے دونوں گروہ پہچانے جاتے تھے ۔
قیام پاکستان کے بعد بریلوی اور دیوبندی نام سندھ میں زیادہ شناس ہوئے پھر ہمایونی بریلوی سے اور امروٹی دیوبندی کے نام سے پہچانے لگے ۔ پھر رفتہ رفتہ لوگ پچھلے نام بھول گئے لیکن ’’امروٹی فتنہ ‘‘ جوں کا توں برقرار ہے۔ ( سندھ کے دو مسلک ص۲۱)
ایک استفتاء کے جواب میں وہابیوں کے نظر یہ کی بیخ کنی فرمائی ہے وہابیوں کا نظریہ ہے کہ حضور پاکﷺ کو اردو زبان دارالعلوم دیو بند کے تعلق کی بنا پر آتی ہے ۔ حضرت مولانا ایک مقام پر رقمطراز ہیں :
’’آنحضرت ﷺ ہر ایک قوم سے اسی کی زبان میں گفتگو فرماتے تھے۔ ‘‘ ( فتاویٰ ہمایونی )
مفتی اعظم پاکستان علامہ مولانا صاحبدا دخان جمالی ؒ رقمطراز ہیں :
حضرت علامہ ہمایونی ؒ کی کتاب ’’الدر المنشور فی ر دمنکر الا ستمد اد من اھل القبور ‘‘ وہابیوں کی جگر سوزی کے لئے موجود ہے اور مولوی عبید اللہ شیخ دیوبندی ( سندھی ) نے امروٹ اور جھنڈہ کو سندھ میںوہابیت کے مرکز بناکے گیا ہے ۔ ان کی تردید میں علامہ ہمایونی کے کئی رسائل عر بی فارسی میں قلمی صورت میں موجود ہیں ‘‘۔( البلاغ المبین ص۲۹ ۱طبع اول ۱۳۴۵ھ)
سندھ کے ہمایونی علماء نے دیوبندی تحریک کی سخت مخالفت کی اور اس تحریک نے اس نئے فرقے کی سر کوبی کے لئے ایک تنظیم بنائی جس کا نام ’’جمعیت الا حناف سندھ ‘‘رکھا گیا ۔ مزید تفصیل کے لئے ’’سندھ کے دو مسلک‘‘ اور ’’امروٹی جو اصلی روپ ‘‘ میں ملا حظہ فرمائیں :
تصنیف و تالیف :
آپ نے تحریری میدان میں بھی قابل قدر کام سر انجام دیا۔ اس میں سے اکثر لٹر یچر غیر مطبوعہ ہے اور سجادہ نشینوں کی غفلت شعاری اور عدم دلچسپی کی وجہ سے اکثر ضائع ہوگیا ہوگا ۔ بعض کے نام درج ذیل ہیں :
۱۔ فتاوی ہمایونی ( فارسی ، ۲جلد ) علامہ مفتی مھمد قاسم یاسینی کی کوشش سے مطبع رقاہ عام لاہور سے ۱۳۳۱ھ؍ ۱۹۱۳ء کو شائع ہوا۔ آج کل نایاب ہے ۔ مفتی محمد مبراہیم یاسینی نے پہلی جلد کا دو جلدوں میں سندھی ترجمہ کیا ۔ سندھی ترجمہ کئی بار چھپ چکا ہے غالبا پہلی بار گرونا نک پریس شکار پور نے ۱۳۴۶ھ؍۱۹۲۸ء کو شائع کیا ۔ اس کے بعد مفتی نجم الدین یا سینی نے شائع کیا ۔ اس کے بعد مولوی عطیم کتب فروش شکار پورنے دو ایڈیشن شائع کئے ۔ ۱۹۸۱ء کا طبع ثانی پیش نظر ہے ۔
۲۔ فرہنگ طب ہمایونی :۔ مفتی محمد قاسم یا سینی کی کوشش سے شائع ہوا ۔
۳۔ دیوان مفتون ( سندھی ) مفتی محمد قاسم کی کوشش سے پہلی بار شائع ہوا۔ اس میں غزل اور کافی کی بھر میںنعتیہ کلام بیان کیا گیا جو کہ عشق رسول کا خزینہ ہے ۔ دوسرا ایڈیشن سندھی ادبی بورڈ جامشورو نے شائع کیا ۔
۴۔ دیوان مفتون ( فارسی ) غیر مطبوعہ غائب یا پھر ضائع
۵۔ الدر المنشور فی رد منکر الا ستمداد من اصحاب القبور ( عربی ) جب وہابیوں دیوبند یوں نے اہل قبور کے سماع واستمد اد کا انکار کیا تو آپ نے یہ عظیم علمی تحقیقی شاہکار تحریر فرمائی ۔ سس میں معترضین کے مدلل و مفصل جوابات بیان کئے ہیں ۔ ا س رسالہ کی اہمیت کے پیش نظر اس کے بے شمار نقل بنائے گئے جو کہ اہل علم کی لائبریر یوں میں آج تک محفوظ ہے اور ا س سے استفادہ کیا گیا ۔
کیلن اس کی پہلی بار اشاعت فقیر راقم الحروف کی کوشش سے ہو رہی ہے فقیر نے قلمی نسخہ مولانا مفتی محمد علیم الدین مجدد ی کو پیش کیا ہے ان کی نگرانی میں اردو ترجمہ ہورہا ہے اور مولانا عبدالصمد صاحب ادارہ مظہر علم لاہور کی جانب سے اشاعت کا اہتمام کر رہے ہیں ۔
۶۔ التنبیہ العظیم للمولوی فیض الکریم
۷۔ الفوائد الملھمۃ فی رد ازالۃ الشبھۃ اس رسالہ میں آپ نے عبید اللہ کو ’’امروٹی ‘‘ لکھا ہے۔
۱۱۔۸ مولوی عبید اللہ سندھی کے رسالہ ’’ ازالۃ الشبھۃ عن فرضیۃ الجمعۃ کے رد میں حضرت علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی نے ’’ الفوائد الملھمۃ فی ردازالۃ الشبھۃ ‘‘ تحریر فرمایا ۔ ایک قلمی نسخہ جس کی کتابت مفتی محمد سعد اللہ انصاری نے کی وہ مدرسہ قاسم العلوم گھوٹکی میںایک مجموعہ کی صورت میں محفوظ ہے ۔ اس مجموعہ قلمی میں اس رسالہ کے علاوہ علامہ ہمایونی کے چار رسائل اور ہیں ۔ ( شریعت ، سوانح نمبر ۱۴۷)
۱۲۔ رسالہ خراج :
سندھ کی زمین خراجی ہے اس موضوع پر مذکورہ تحقیقی رسالہ علامہ کے رشحات قلم کا نتیجہ ہے ۔ اس رسالہ کو مولوی رشید احمد دیوبندی ( کراچی ) نے مجموعہ فتاویٰ ’’احسن الفتاویٰ ‘‘میں شامل کیا ہے۔ ( ایضا )
ان کے علاوہ بھی آپ نے کتابیں و رسائل اور ہزاروں فتاویٰ تحریر فرمائیں لیکن ہائے افسوس !’’خانقاہ ہمایون شریف ‘‘ میں آپ پر کو ئی کام اب تک نہیں ہوا۔ نہ رسائل کی ترتیب کا اور نہ اشاعت کا اور نہ ان کے پاس کوئی پروگرام ہے ۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ۔
تلامذہ :
آپ کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے جنہوں نے آپ کے فیضان کو عام کیا ، ان میں سے بعض کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں :
۱۔ استاد العلماء مولانا مفتی محمد قاسم یاسینی ( صاحب فتاویٰ قاسمیہ ) ضلع شکارپور
۲۔ استاد العلماء مفتی محمد ابراہیم یا سینی
۳۔ استاد العلماء مولانا مفتی عبدالرھمن دھامراہ ( صاحب فتاویٰ رحمانی) ضلع لاڑکانہ
۴۔ استاد العلماء مولانا بنی بخش کولاچی اوستہ محمد بلوچستان
۵۔ استاد العلماء علامہ محمد فاضل درخانی ڈھادر بلوچستان
۶۔ استاد العلماء علامہ محمد عمردین پوری مستونگ بلوچستان
۷۔ استاد العلماء مولانا محمد یعقوب حجک ضلع سبع بلوچستان
۸۔ مولانا حکیم قاضی عبدالرزاق صدیقی گوٹھ ترائی تحصیل گڑھی یاسین
۹۔ استاد العلماء مولانا سید زین العابدین شاہ افغانستانی
۱۰۔ مبلغ اسلام مولانا عبدالحق شاہ جانی بند تحصیل قمبر
۱۱۔ مولانا قاضی رسول بخش جہل مگسی
۱۲۔ مولانا محمد وارث کھوسہ
۱۳۔ مولانا محمد اسماعیل اوستہ محمد
۱۴۔ مولانا خلیفہ خدا بخش لھٹی اوستہ محمد
۱۵۔ مولانا میاں محمد میاں جو گوٹھ ضلع شکار پور
۱۶۔ مولانا مخدوم ہادی بخش قادری
سجادہ نشین درگاہ محمد پور تحصیل پنو عاقل
۱۷۔ مولانا محمد حیات قریشی شکار پور
۱۸۔ مولانا عبدالرحیم شکا ر پور
۱۹۔ مولانا سید محمد اسماعیل شاہ ہالا
۲۰۔ مولانا محمد صادق
۲۱۔ مولانا محمد صدیق سدھایو
۲۲۔مولانا دین محمد بلڑی والے وغیرہ وغیرہ
وصال :
عشق و علم کے بحر بے کنار علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی نے ۱۱، رمضان المبارک ۱۳۳۶ھ؍ ۱۹۱۸ء کو بروز جمعہ ، رات کے وقت ۷۷ سال کی عمر میں انتقال کیا ۔ شاگرد ارشد مفتی محمد قاسم یاسینی ؒ نے نماز جنازہ کی امامت کی ۔ اور اپنے والد کے پہلو میں فن ہوئے ۔ رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ واسمۃ
آپ کا مزار پر انوار ہمایونی شریف ( ضلع شکار پور ) میںمرجع خلائق ہے ۔ آپ کی نرینہ اولاد نہ تھی ۔ نوا سے مفتی عبدالباقی ہمایونی کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ فرمائی اور اپنا جانشین مقر ر کیا ۔ ان کا ۱۹۶۳ء کو انتقال ہوا ۔ ان کے بیٹے میاں عبدالباری سجادہ نشین ہوئے اور ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے میاں عبدالباقی ( صوبائی وزیر محکمہ اوقاف سندھ بر حکومت جنرل پرویز مشرف ، قبل الیکشن ) اس وقت سجادہ نشین ہیں اور ڈیفنس کراچی میںقیا م پذیر ہیں ۔
آپ کی لوح مزا ر پر نواب گل محمد خان ’’زیب ‘‘ مگسی مرحوم کا قطعہ تاریخ خوشخط درج ہے:
استاذی فاضل ہمایوں
آں شمس زماں شھاب گیتی
روپوش چوگشت گفت ھاتف
’’پنہاں شد آفتاب گیتی‘‘
۱۳۳۶ھ
مفتی محمد ابراہیم یا سینی نے درج ذیل قطعہ عربی میں کہا:
اسفا لفقد الفاضل
بحر العلوم العامل
فخر الزمان الکامل
مولیٰ الداریہ والشعور
غوث الزمان بدھرہ
قطب الارشاد بعصرہ
نور الالہ بصدرہ
کان اسمہ عبدالغفور
تعلیم علم الیقین
معلوم مافی الصدور
من بین الناس بالیقین
قد انطفی محسباح نور
۱۳۳۶ھ
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)