حضرت علامہ مفتی غلام محمد مہیسر
حضرت علامہ مفتی غلام محمد مہیسر (تذکرہ / سوانح)
حضرت علامہ خلیفہ غلام محمد بن آخوند میاں عبدالکریم مہیسر گوٹھ کمال دیرو ( تحصیل گمبٹ ضلع خیر پور میرس) میں ۱۲۴۸ھ کو تولد ہوئے۔ آپ کے دادا جان مولانا فقیر محمد مہیسر بھی اپنے وقت کی علمی شخصیت اور بہترین خوش نویس تھے۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم اپنے گوٹھ کے مکتب میں حاصل ہے۔ سات سال کی صغیر سنی عمر میں آپ کے والد نے پنہواری ( تحصیل پنو عاقل ضلع سکھر ) میں حضرت مولانا عبدالقادر پنہواری انڈھڑ(وفات ۱۳۲۸ھ ) کے مدرسہ میں داخل کروایا ۔ ( مولانا عبدالقادر اندھڑ ، علامہ الزمان ، جامع شریعت و طریقت علامہ خلیفہ محمد یعقوب ؒ ہمایون شریف کے شاگرد رشید تھے ) جہاں آٹھ سال دینی نصابی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے گوٹھ والدین کے پاس واپس آئے لیکن فقط ایک رات قیام کے بعد دوسرے روز والد صاحب نے اعلی تعلیم کیلئے سندھ کی نامور دینی درسگاہ جو کہ شہداد کوٹ ( ضلع لاڑکانہ ) میں واقع تھی وہاں داخل کروایا۔ جہاں غوث زمان ، استاد الاساتذہ ، مخزن برکات، جامع الفیوضات مفتی اعظم ہندو سندھ خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی قدس سرہ العزیز کی خدمت اقدس میں رہ کر فقہ ، تصوف ، میراث اور فتاویٰ نویسی جیسے علوم و فنون میں مہارت اور کمال حاصل کر کے فارغ التحصیل ہوئے۔
ابتدائمیں کھہڑا شہر کے مخدوم پیر محمد عباسی سے بھی کچھ اسباق پڑھے۔
(خیر پور کے میروں کا ادب ، سیاست اور ثقافت میں حصہ ، ص ۳۹۳، از: ڈاکٹر عطا محمد حامی مرحوم )
بیعت و خلافت :
مولانا غلام محمد نے سلسلہ قالیہ قادریہ میں اپنے استاد محترم حضرت خواجہ غلام صدیق شہدادکوٹی قدس سرہ کے دست اقدس پر بیعت ہو کر ذکر و اذکار روحانی تعلیم و تربیت حاصل کی اور سلوک طے کر کے مقام و مرتبہ پایا۔ اس کے بعد خلافت سے نواز ے گئے۔ حضرت خواجہ صاحب ، عمدۃ العارفین حضرت مولانا غلام حیدر قادری قدس سرہ ( خانقاہ کٹبار شریف بلوچستان ) کے مرید و خلیفہ تھے۔ ( شجرہ کیلئے دیکھئے حالات علامہ محمد یعقوب ہمایونی ؒ )
درس و تدریس :
بعد فراغت درس و تدریس ، فتاویٰ نویسی اور وعظ و نصیحت میں مصروف رہے۔ سب سے پہلے اپنے گوٹھ کمال دیرو سے درس و تدریس کا آغاز کیا ۔ اس کے بعد مخدوم دین محمد کی دعوت پر درگاہ مخادیم کھہڑا پر ۹ سال کا عرصہ درس دیا۔
(سوانح حیات مولانا غلام محمد مہیسر قلمی محررہ ۱۹۶۸ء ، از : مولانا عنایت اللہ مہیسر ( یہ رسالہ آج کل گم ہے ) بحوالہ ڈاکٹر حامی مرحوم )
اس کے بعد لاڑکانہ سے متصل گوٹھ سنہڑی ( غالبا حضرت مولانا حافظ محمد کامل کے مدرسہ میں ) میں کافی عرصہ درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد آخری ایام میں اپنے گوٹھ واپس آئے اور وہیں تدریسی تحریری کام کیا ۔
تلامذہ :
آپ کے کثیر تلامذہ میں سے بعض کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں :
۱۔ حضرت علامہ مخدوم اللہ بخش عباسی ساکن درگاہ مخادیم کھہڑا تحصیل گمبٹ
۲۔ مولانا حکیم جان محمد عباسی ساکن سنہڑی ( جدا مجد مولوی جان محمد عباسی وہابی ، نائب امیر جماعت اسلامی )
۳۔ حضرت علامہ شہاب الدین شاہ لکیاری ساکن ہالانی تحصیل کنڈیارو
۴۔ مولانا عبداللطیف رتڑ( والد مولوی نور محمد غفاری درگاہ نور پور)
۵۔ مولانامیاں عبدالمالک ناریجو ضلع خیر پور میرس
۶۔ مولانا عبدالحق ناریجو
۷۔ مولانا خدا بخش نزد روہڑی
۸ مولانا نبی بخش
۹۔ مولانا پیر محمد ساکن فرید آباد
۱۰۔ مولانا عبید اللہ مہیسر گوٹھ کمال دیرو ( نواسہ مولانا غلام محمد مہیسر )
۱۱۔ مولانا خدا بخش ناریجو
۱۲۔ مولانا عبدالحکیم کلہوڑو گوٹھ سنہڑی
شادی و اولاد:
آپ کی شادی کے ضمن میں ایک واقعہ آپ کے استاد محترم کی سوانح میں منقول ہے کہ ، ایک مرتبہ حضرت خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی قدس سرہ نے اپنے خلیفہ مولانا غلام محمد مہیسر کمال دیرے والے سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہاری منگنی ہو گئی ہے؟
خلیفہ صاحب ، خوش طبع انسان تھے جواب میں عرض کیا: حضور آپ کا شاگرد ہو اور شادی نصیب ہو، یہ کہاں لکھا ہے۔ اس پر حضرت خواجہ صاحب نے ( جلال میں آجج جکر ) فرمایا: غلام محمد کل رات تمہاری شادی ہے ، اس لئے فورا اپنے گھر چلے جاوٗ ۔
خلیفہ صاحب گھر پہنچے تو عجیب منظر تھا ان کے چچا ان کے انتظا ر میں تھے۔ ار کہا : بیٹا غلام محمد! میری بیٹی بالغ ہوگئی ہے ہم نے کپڑے پہلے سے سلوا کر تیاری کر لی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے۔ جائو انتظام کرو اور آج رات اپنا نکاح پڑھائو۔
اس طرح حضرت خواجہ صاحب کی کرامت ظہور پذیر ہوئی اور اسی رات مولانا غلام محمد کی دوسری شادی ہوگئی۔ (تجلیات صدیقہ ص۲۰ مطبوعہ کوئٹہ ۵۷۹۱)
آپ کو اس بیوی کے بطن سے سات بیٹیاں اور ایک بیٹا مولانا میاں عنایت اللہ مہیسر تولد ہوئے۔ مولانا عنایت اللہ بہترین عالم دین تھے انہوں نے اپنے والد گرامی قدر کی سوانح و خدمات پر کتاب لکھی جو کہ اب تک شائع نہ ہوسکی بلکہ ضائع ہوگئی۔ بعد میں مولانا بھی انتقال کرگئے ان کے بیٹے میاں شفیع احمد مہیسر سرکاری ملازم ہیں اور اہم عہدے پر فائز ہیں اور دین کا درد رکھتے ہیں اور اپنے جد امجد کے مشن کو جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں کامیاب فرمائے۔ آمین۔
کتب خانہ:
مولانا کی کتب دوستی ضرب المثل تھی، کتابوں کو جمع کرنا ان کا عظیم مشغلہ تھا، ویسے بھی عالم اور کتاب کا چولی دامن کا تعلق ہے۔ آپ نے کتب خانہ میں تفسیر ، حدیث، تصوف ، شرح حدیث، فتاویٰ ، فقہ حنفی، عقائد، اصول حدیث، اصول فقہ، اس کے علاوہ درسی کتب کا عظیم ذخیرہ جمع کیا تھا۔
عادات و خصائل:
مولانا غلام محمد جلیل القدر عالم و صوفی باصفا تھے لیکن عالمانہ جاہ و جلال سے کوسوں دور تھے۔ سادہ طبیعت ، اوڑھنا بچھونا سادہ، تواضع و انکساری نمایاں تھیں۔ درویشی و فقیری کا مجموعہ تھے۔ کھانا اکثر مٹی کے برتن میں تناول فرماتے تھے۔ اخلاق و اخلاص کے پیکر، مہمان نواز۔ مولانا کی مجلس میں دنیوی گفتگو نہ ہوتی تھی۔ ذکر خدا و عشق مصطفی ﷺ اور فکر آخرت سے سرشار گفتگو ہوا کرتی تھی۔ آپ کی مجلس میں قال و حال دونوں کی سرمستیاں ہوتی تھیں۔ ہر ایک اپنے ظرف کے مطابق مولانا کی مجلس سے استفادہ کرتا تھا۔
آپ مذہباً حنفی، مشرباً قادری تھے۔ سلسلہ قادریہ میں بیعت لیتے تھے ، کافی تعداد میں امیر و غریب ان کے مرید و معتقد تھے۔
آپ کی سخاوت اور علم پروری کا یہ عالم تھا کہ جو طالب علم آپ کے پاس فارغ التحصیل ہوتا آپ انہیں کتابوں کی گٹھڑی تحفتاً عطا فرما کر ارشاد فرماتے: اب تک نصابی کتب کی تکمیل ہوئی ہے۔ لیکن اب آپ نے عمل کی دنیا میں قدم رکھا ہے خود بھی عمل کریں دوسروں کو بھی اعمال صالحہ کی دعوت دیں بلکہ اعمال صالحہ کا نمونہ بن کر دکھائیں۔ کتاب بہترین دوست ہے، مطالعہ و تدریس کو جاری رکھیں یہ آپ کا صدقہ جاریہ ہے۔‘‘
مولانا متوکل ، تارک دنیا صوفی کے ساتھ حق گو اور جرأت مند عالم دین تھے۔ خواہ مخواہ کسی سے نہیں الجھتے تھے۔ بحث و مباحثہ ان کی عادت نہیں تھی۔ اگر کسی کو شریعت مطہرہ کے خلاف، ملک حقہ اہل سنت وجماعت کے خلاف بات کرتے ہوئے سنتے تو انہیں دلائل و براہین سے بات سمجھانا اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں اگر خیر پور ریاست کے حکمران میر صاحبان سے بھی کوئی بات سنتے تو بروقت اس کا جواب مرحمت فرماکر اہل سنت کی نمائندگی و ترجمانی فرماتے تھے ۔ میر صاحبان ٹالپر شیعہ نواز تھے۔ آپ ان کی غیر شرعی کاروائیوں کا بروقت نوٹس لیتے، پس و پیش او خاموشی سے کام نہیں لیتے تھے۔ فرماتے تھے کہ ’’ایسے وقت خاموشی کا کردار ادا کرنا ایک عالم دین سے ممکن نہیں ہے۔‘‘
آپ نے اپنے معاصر مشہور وہابی تاج محمود امروٹی کے باطل نظریات کا بھی بروقت نوٹس لیا اور اس کے رد میں شدید فتاویٰ اور رسائل تحریر فرمائے۔
حضرت مولانا ایک قلمی قلمی قرآن پاک (حمائل) اور درود شریف کے موضوع پر وظائف کی کتاب ’’دلائل الخیرات‘‘ ہمیشہ سفر و حضر میں ساتھ رکھتے تھے۔ آپ دلائل الخیرات کے عامل اور زبان مبارک پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا سُبْحَان اللہِ وَبِحَمْدِہٖ اور سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ کا ورد جاری رہتا تھا۔ یعنی مولانا کی زندگی سراپا نصیحت اور پیغام تھی۔
رجبی شریف:
امام العارفین غوث العلامین حضرت شیخ کبیر خواجہ سید محمد راشد پیر صٓحب روضے دھنی رضی اللہ عنہٗ کے دربار مقدس ’’راشدیہ پیراں پگارہ‘‘ پیر صاحب جو گوٹھ (ضلع خیر پور میرس) پر عرصہ دراز سے حضور پر نور سید عالم ﷺ کے معراج شریف کی نسبت سے ۲۷ رجب المرجب (شب معراج) کا پروگرام نہایت عقیدت و احترام سے آج تک منعقد پذیر ہوتا ہے۔
مولانا غلام محمد کے وقت میں دربار مقدس کے سجادہ نشین حضرت قدسی صفحات، شمس العلماء الربانین حضرت پیر سید شاہ مردان شاہ راشدی المعروف پیر صاحب کوٹ دھنی علیہ الرحمۃ تھے۔ حضرت بھی رجبی شریف کو اسی آب و تاب سے منعقد فرماتے تھے۔ اور سندھ بھر کے نامور علماء اہل سنت و مشائخ طریقت کو مدعو کرتے تھے۔
علامہ عبدالغفور ہمایونی، علامہ غلام صدیق شہیدا کوٹی، علامہ مفتی محمد سعد اللہ انصاری، علامہ حسن اللہ صدیقی، علامہ مخدوم اللہ بخش عباسی، علامہ میر علی نواز علوی، علامہ بہائوالدین بھائی پتافی، علامہ سید اسد اللہ شاہ نکھڑائی، علامہ محمد فاضل شاہ حیدرآبادی، علامہ مفتی عبدالحق رائو اتسر، علامہ سید شہاب الدین لکیاری، علامہ مخدوم بصر الدین سیوہانی، علامہ عبداللہ نوناری، علامہ خادم حسین جتوئی، علامہ قمر الدین انڈھڑ، مولانا محدم سلیمان واعظ، علامہ محدم ہاشم انصاری نوابشاہی، علامہ سید میران شاہ الکیاری، مخدوم محمد شفیع صدیقی، علامہ مفتی ابو الفیض غلام عمر جتوئی، علامہ عبدالرحمن سکھر والے، حضرت میاں جامی سہروردی، علامہ محمد ابراہیم سرحدی، علامہ عبدالقادر اندھڑ، مفتی محمد ہاشم ، مفتی محمد قاسم، مفتی محمد ابراہیم یاسینی، مفتی محمد فاضل درخانی، علامہ محمد عمر دین پوری (مستونگ)، حضرت میاں غلام حٰدر قادری کتؓار شریف، حضرت میاں محمد حسن، حضرت علامہ گل حسن کٹبار شریف، مولانا میاں عبدالغفار مہر، علامہ عبدالحلیم کنڈوی، علامہ محمد یعقوب ہمایونی اور دیگر علماء اہل سنت کی طرح علامہ غلام محمد مہیسر بھی نہایت عقیدت و احترام سے ہر سال دربار مقدس پر رجبی شریف کے موقع پر حاضری دیا کرتے تھے۔
وصال:
حضرت خلیفہ غلام محمد مہیسر نے طویل عمر پائی، انتقال سے قبل اہل خانہ کو آخرت کی تلقین فرمائی۔ اس کے بعد ۱۰ ، شعبان المعظم ۱۳۵۸ھ بمطابق ۱۹۳۹ء کو ۱۳ سال کی عمر میں وصال کیا۔ وصال سے لے کر دفن تک مولانا کے دل کی حرکت جاری تھی جسے زائرین نے اپنی آنکھوں سے دیکھا یعنی جنہوں نے دل کو دنیا میں زندہ رکھا ان کا دل انتقال کے بعد بھی زندہ ہوتا ہے۔ آپ کے مزار کمال دیرو میں مرجع خلائق ہے اور سالانہ عرس مبارک کی روح پر ور محفل منعقد ہوتی ہے۔
(حوالہ جات کے علاوہ مواد میاں شفیق احمد مہیسر صاحب (حیدرآباد) نے عنایت فرمایا ۔ فقیر مشکور ہے۔)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)