استاد العلمائ، لاڑ جو لال، سندھ کے قابل فخر فقیہ عالم دین مولانا حامد اللہ بن میاں گل محمد میمن گوٹھ بیلو (تحصیل سجاول ضلع ٹھٹھہ سندھ) میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم بیلو شہر میں حاصل کی، اس کے بعد ٹھٹھہ میں مولان اعبدالرحیم دھوبی کے پاس تعلیم حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم بحر العلوم علامہ مولانا عطاء اللہ فیروز شاہی علیہ الرحمۃ کی درسگاہ فیروز شاہ (تحصیل میہڑ ضلع دادو) میں حاصل کرکے فارغ التحصیل ہوئے ۔ (ٹھٹھہ صدین کان)
مہران میں ہے علامہ عطا اللہ فیروز شاہی جب سندھ کی عظیم درسگاہ شہداد کوٹ میں فارغ التحصیل ہونے لگے تو اس وقت مولانا حامد اللہ شہداد کوٹ میں زیر تعلیم تھے، جب مولانا فیروز شاہی دستار بندی کے بعد اپنے گوٹھ جارہے تھے تو اس وقت استاد محترم نے مفتی حامد اللہ کو بھی ساتھ کردیا کہ ان کی تعلیم و تربیت کریں۔ مولانا حامد اللہ نہایت ذکی و ذہین تھے۔ (مہران سوانح نمبر ۱۹۵۷ئ)
بیعت و خلافت:
حضر پیر ابراہیم جان سرہندی علیہ الرحمۃ (رحلت ۲۰۰۲ئ) رقمطراز ہیں: مولانا حامد اللہ صاحب علیہ الرحمۃ ہمارے پردادا قطب ارشاد حضرت خواجہ عبدالرحمن سرہندی مجددی فاروقی قدس سرہ سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت اور خلیفہ تھے۔ حضرت علامہ مفتی عبدالرحمن ٹھٹوی لکھتے ہیں: حضرت علامہ حامد اللہ صاحب یگانہ عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ولی اللہ بھی تھے۔
(وہابیت کے انوکھے انداز ص:۸،۷۳)
درس و تدریس:
ابتداء میں تحصیل میر پور ٹھورو کے ایک گوٹھ سے درس کا آغاز کیا۔ مدینہ طیبہ کی زیارت نے بہت بے قرار کر رکھا تھا اسلئے حرمین طیبین کا سفر اختیار کیا۔ اور مدینہ منورہ میں دس سال کا عرصہ قیام کیا، جس کی تفصیل نہیں مل رہی ہے البتہ یہ معلوم ہوا کہ وہاں بھی درس و تدریس کا مشغلہ جاری رکھا ، عرب شریف کے طلباء نے خوب استفادہ کیا۔
نہیں فرقت تمہاری اب گوارا یا رسول اللہ
یہ دل بے چین ہے ، بہر نظارا یا رسول اللہ
مری حرماں نصیبی خوش نصیبی سے بدل جائے
جو ہوجائے تمہارا اِک اشارا یا رسول اللہ
اس کے بعد وطن واپس آئے اور پانے گوٹھ بیلو میں ’’مدرسہ مطہر العلوم حامدیہ‘‘ میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور اہل سندھ کو بھر پور استفادہ کا موقعہ فراہم کیا۔ غالباً ۱۸۸۶ء کو عبدالرحیم شاہ سجاولی نے حضرت مفتی صاحب کو بیلو سے سجاول مدعو کیا اور اپنے دو بیٹوں کی تعلیم کیلئے استاد مقرر کیا اور سجاول میں ’’مدرسہ دارلفیوض ہاشمیہ‘‘ کی بنیاد رکھی اور حضرت مفتی حامد اللہ کو مدرسہ کا صدر مدرس مقرر کیا آپ نے محنت شاقہ سے دن رات درس و تدریس کا مشغلہ جاری رکھا۔ لیکن افسوس صد افسوس! اہل سنت وجماعت کی غلفت، سستی اور دین میں لاپرواہی کے سبب سازشی وہابیوں نے مولانا صاحب کے بعد مدرسہ پر قبضہ جما لیا۔ حضرت مولانا محم دنور میمن بن مفتی حامد اللہ نے عبدالرحیم شاہ کو نشاندہی فرماکر بتایا کہ فلاں فلاں مدرسین وہابی ہیں جن کے ذریعہ اہل سنت کے مدرسہ پر وہابیت کا قبضہ ہورہا ہے لیکن شاہ صاحب یا تو قبضہ سے خوش تھے یا پھر سازشیوں کی زد میں آگئے تھے جس سے نکل نہ سکے۔ انا للہ ونا الیہ راجعون۔
اسی طرح ’’مدرسہ مظہر العلوم‘‘ کھڈہ مارکیت (لیاری کراچی) کا حضرت مولانا احمد الدین چکوالی پنجابی نے سنگ بنیاد رکھا تھا، وہ اہل سنت و جماعت کے فقیہ و نامور مدرس تھے انہوں نے مولوی صادق وہابی کے والد کو مدرس رکھا تھا جو کہ صحیح العقیدہ تھے۔ مولانا چکوالی کے انتقال کے بعد مولوی صادق وہابی مدرسہ پر قابض ہوگیا اور اب تک انہیں کا قبضہ ہے۔ تفصیلات اور اصل پروف دیکھنے کیلئے ڈاکٹر مجید اللہ قادری کا مقالہ ’’امام احمد رضا اور علماء سندھ‘‘ مطبوعہ المختار پبلی کیشنز ریگل چوک صدر کراچی کا مطالعہ فرمائیں۔
اس کے بعد حضرت مولانا حامد اللہ نے دوبارہ حرمین شریفین کا سفر اہل خانہ کے ساتھ اختیار کیا، اس بار بھی دس سال کا عرصلہ مدینہ منورہ میں گنبد خضریٰ کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھائوں میں درس و تدریس میں گزارا۔ دس سال کے بعد چکر لگانے کیلئے سندھ آئے ان دنوں پہلی عالمگیر جنگ شروع ہوچکی تھی جس کے سبب تمام راستے بند ہوچکے تھے۔ اسلئے بیلو میں سکونت اختیار کی اور تدریس کا مشغلہ جاری رکھا۔ ان دنوں لاڑ کے علاقہ کے علماء اہل سنت نے ایک تنظیم ’’انجمن معلم الشرع‘‘ قائم فرمائی، جس کا آپ کو صدر مقرر کیا گیا۔
آپ کا مسلک مبارک:
حضرت علامہ مفتی حامد اللہ سنی حنفی نقشبندی عالم، فاضل، کامل، مفتی، فقیہ، عظیم مدرس اور لاڑ کے صدر العلماء تھے۔ متقی شب بیدار شرعیت مطہرہ کے پابند، حاجی، عابد و زاہد تھے اور حضور پر نور ﷺ کے عاشق زار تھے۔ ان کا بیاض قلمی حضرت شیخ الحدیث علامہ مفتی عبدالرحیم سکندری صاحب کے کتب خانہ میں محفوظ ہے آپ اپنی بیاض میں رقمطراز ہیں:
’’پھر (وہابیوں نے) نے ایسا ظلم (حرمین شریفین پر) دو سال کیا۔ ان کے ساتھ کیا جو کہ اچھے تھے اچھائی میں اور اچھی جگہ (حرمین شریفین) رہتے تھے ۔ اس کے بعد ۱۲۳۳ھ میں سلطان روم کے لشکر نے آکر ان پر فتح حاصل کی اور مارے مردودوں(وہابیوں) کو جہنم رسید کیا۔‘‘
پھر فرقہ وہابیہ کیلئے تمام علمائے اہل سنت و جماعت نے فتاویٰ جاری فرمائے کہ فرقہ وہابیہ بے شک اپنے فاسد عقائد کی بنا پر کافر ہیں۔‘‘
(بیاض مفتی حامد اللہ بیلو، قلمی بحوالہ وہابی ، علماء سندھ کی نظر میں مطبوعہ ۱۹۹۲ئ)
تلامذہ:
آپ کے تلامذہ کی جماعت کثیرہے، ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں:
٭ استاد العلماء مولانا مفتی علی محمد مہیری
٭ مولانا سید علی بخش شاہ
٭ مولانا محمد سلیمان بنوری گوٹھ، بنو ضلع ٹھٹھہ
٭ مولانا مفتی محمد یوسف میمن گوٹھ مڑھی بولاخان
٭ مولانا ھاجی عبداللہ ولہاری (ضلع ٹھٹھہ)
٭ مولانا محمد ہاشم کھتری (گوٹھ غلام اللہ ضلع ٹھٹھہ)
٭ صاحبزادہ مولانا محمد نور میمن
شادی و اولاد:
حضرت مولانا نے تین شادیاں کیں، جن میں سے دو بیٹے (۱) مولانا محمد نور میمن (۲) مولانا محمد سعید میمن اور تین بیٹیاں تولد ہوئیں ۔ تیسری بیٹی مسمات بچل خاتون باقاعدہ سند یافتہ عالمہ فاضلہ تھیں جن کا مولانا عبدالحکیم سے عقد ہوا۔ (ٹھٹھہ صدین کان)
وصال:
بیلو میں سیلاب اانے کا خطرہ وہا تو آپ نے اپنے شاگرد ارشد علامہ مفتی علی محمد مہیری کی استدعا پر بیلو سے گوٹھ پھٹون نزد کھورواہ (تحصیل گولارچی ضلع بدین) جارک سکونت اختیار کی ار جلد ہی وہیں ۱۰ شعبان المعظم ۱۳۳۸ھ/۱۹۲۰ء کو انتقال کیا اور اسی گوٹھ پھٹون میں آخری آرام گاہ ہے (لاڑ جی ادبی و ثقافتی تاریخ ، از : ڈاکٹر غلام علی خواجہ)
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)