تاج الفقہاء علامہ مفتی حسن اللہ صدیقی
تاج الفقہاء علامہ مفتی حسن اللہ صدیقی (تذکرہ / سوانح)
مخدوم حسن اللہ بن میاں وہب اللہ صدیقی درگاہ پاٹ شریف (اسٹیشن پیارو گوٹھ ضلع دادو) میں نامعلوم سن میں تولد ہوئے۔ سیوہن شریف ار پاٹ شریف کے صدیقی حضرات ایک ہی خاندان سے ہیں۔ اسی خاندان کی ایک شاخ نے بھار تکے شہر برہان پور جا کر سکونت اختیار کی۔ برہان پور میں ’’مسیح اولیائ‘‘ کی دربار آج بھی مرجع خلائق ہے انہیں’’مسیح اولیائ‘‘ کا خطاب مجدد الف ثانی سر ہندی نے عطا فرمایا تھا۔ اسی خاندان کی علمی و روحانی خدمات جلیلہ کا تذکرہ ج’’برہان پور کے سندھی اولیاء اللہ‘‘ (مطبوعہ سندھی ادبی بورڈ جامشورو طبع اول ۱۹۵۷ئ) میں درج ہے ۔ سیوہن اور پاٹ کی بعض علمی و روحانی شخصیات کے اسماء گرامی:
۱۔ شیخ الاسلام مخدوم دین محمد صدیقی
۲۔ مخدوم عبدالواحد کبیر سیوھانی (صاحب کشف الاسرار)
۳۔ نعمان ثانی مخدوم امام عبدالواحد سیوہانی (صاحب فتاویٰ واحدی)
۴۔ قاضی القضاۃ مخدوم فضل اللہ صدیقی
۵۔ مخدوم محمد شفیق صدیقی (قصیدہ بردہ کے منظوم سندھی شارح)
وغیرہ وغیرہ
المختصر اس خاندان صدیقی کی اہل سنت و جماعت احناف کیلئے بہت خدمات ہیں جنہیں سنہری حروف سے لکھا جائے پھر بھی حق ادا نہ ہوگا۔
اس عظیم خاندان کی آخری علمی نشانی ، افقہ الفقہ فی السند ، مفتی اعظم استاد الاساتذہ ولی کامل حضرت علامہ مخدوم حسن اللہ صدیقی ہیں۔
تعلیم و تربیت:
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے تایا جان عارف باللہ حضرت علامہ قاضی مخدوم فضل اللہ صدیقی قدس سرہٗ (مدفون پاٹ شریف متوفی ۱۲۹۰ئ) کے شاگرد ارشد حضرت علامہ مولانا حافظ محمد شفیع صدیقی سے پاٹ میں حاصل کی۔ اس کے بعد شہداد کوٹ (ضلع لاڑکانہ) کی نامور دینی درسگاہ میں داخلہ حاصل کرکے اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کے بعد اسی درسگاہ سے فارغ التحصیل ہوئے۔ شہداد کوٹ میں غالباً استاد العلماء حضرت علامہ مولانا گل محمد اور استاد العلماء مفتی اعظم، غوث الزمان حضرت علامہ غلام صدیق شہداد کوٹی سے اکتساب فیض کیا۔
بیعت:
مشاہیر میں ہے کہ آپ نقشبندی طریقت کے ذکر اذکار پابندی سے کرتے ھتے لیکن پیر و مرشد کا نام درج نہیںاسلئے مخدوم زادہ سلیم اللہ صدیقی صاحب (حیدرآباد) سے رابطہ کیا۔ وہ راقم الحروف کے استفسار کے جواب میں اصل صورت کو واضح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’وہ اپنے چچا غواص، بحر العرفان مولانا الحافظ الحاج محمد فضل اللہ صدیقی علیہ الرحمۃ کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت تھے اور وہ اپنے چچا حضرت علامہ مخدوم محمد عارف سیوہانی اور وہ نعمان ثانی، فقیہ الاعظم علامہ مخدوم عبدالواحد صدیقی رحمہم اللہ تعالیٰ (سیوہن شریف) سے دست بیعت اور صاحب اجازت تھے۔
درس و تدریس:
مخدوم صاحب نے پوری زندگی درس و تدریس اور فتویٰ نویسی میں گزاری ۔ وہ ایک بلند پایہ عالم دین متکلم، مناظر ار محقق فقیہ تھے۔ آپ نے پاٹ شریف (ضلع دادو) دربیلو (ضلع نو شہرو فیروز) اور مٹیاری (ضلع حیدرآباد) وغیرہ مقامات پر درس دیا، جہاں کثرت سے علماء اہل سنت نے استفادہ کیا۔
سفر حرمین شریفین:
آپ نے دو بار حج بیت اللہ اور مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت حاصل کی۔ مکہ مکرمہ میں ولی کامل حضرت شیخ عبدالحق الہ آبادی مہاجر مکی چشتی صابری علیہ الرحمۃ (مصنف الدر المنظم فی مولد النبی الاعظم ﷺ) اور دیگر علماء کرام اور مشائخ عظام کی علمی و روحانی مجالس میں بیٹھے، صحبتیں اختیار کیں اور دلائل الخیرات، حزب البحر اورقصدیدہ بردہ شریف وغیرہ وظائف کی اجازتیں حاصل کیں۔
عادات و خصائل:
آپ تدریس کے بادشاہ تھے، آپ نے اہل سنت کو عظم گراں قدر مدرس عطا فرمائے، جنہوں نے درس و تدریس کی دنیا میں خوب نام کمایا۔ خوف خدا اور عشق مصطفیﷺ سے سرشار تھے خوف خدا میں اکثر گریہ زاری فرماتے تھے خود بھی روتے اور جماعت کو بھی رلاتے تھے، سادہ طبیعت ، سادگی پسند، تواضع انکساری سے آراستہ، پیکر اخلاص ، صاحب صدق و صفا، اخلاق مصطفوی کے نمونہ، کتابوں کے شائق، وظائف کے عامل، شب خیز، تلاوت قرآن مجید، دلائل الخیرات اور قصیدہ بردہ شریف کا ورد روزانہ پابندی سے جاری رکھے ہوئے تھے ، صحابہ کرام ، خلفاء راشدین، امہات المؤمنین، اہل بیت کرام ، سادات عظام اور اپنے اساتذہ کا بے حد ادب و احترام رکھتے تھے۔
مخدوم صاحب کے شاگرد ارشد علامہ ابو الفیض جتوئی علیہ الرحمۃ کا کتب خانہ نہایت وسیع تھا ، اس لئے آپ اپنے شاگر کے پاس (توغھ سونہ جتوئی مدرسہ دارالفیض) اکثر تشریف لے جایا کرتے اور کتب خانہ سے خوب استفادہ فرماتے اور شاگرد کو دعائیں دیتے تھے۔ دارالفیض کے کتب خانہ میں بیٹھ کر آپ نے دو کتابیں (۱) نور العینین (۲) تحفہ تحریر فرمائیں۔
مشہور ہے کہ غبی طالب علم آپ کے مزار شریف پر حاضری دے اور مسجد شریف میںدو رکعت نفل ادا کرکے اس کا ثواب آپ کی روح مبارک کو پہنچائے تو کند ذہن نہ رہے، اس کا مرض نسیان بھاگ جائے، حافظہ قوی اور مضبوط ہو۔ یہ بات اکثر غبی طلباء کی آزمودہ اور مجرب ہے۔
اولاد:
آپ ن ایک شادی کی جس سے تین صاحبزادیاں اور تین صاحبزادے تولد ہوئے جس کی تفصیل یوں ہے۔
۱۔ آمنہ خاتون۔ عالمہ، حافظہ، فقیہ اور عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں جن کا عقد اپنے ہی خاندان کے چشم و چراغ عالم دین مخدوم قاضی نصر اللہ بن میاں احمدی قاضی آف پاٹ سے انعقاد پذیر ہوا۔
۲۔ محمد سرور
۳ فضل اللہ
۴۔ حسن الدین
۵۔ عصمت خاتون
۶۔ مریم خاتون
آپ کے بیٹے آپ کی صحبت علمی و روحانی سے محروم رہے ۔ اس طرح آپ کے علمی نانشین بڑی صاحبزادی کی اولاد ہوئی۔
تلامذہ:
آپ نے علماء کی جماعت تیار کی ، جس میں سے بعض کے اسماء گرامی معلوم ہوسکے وہ درج ذیل ہیں:
٭ استاد الاساتذہ علامہ مفتی ابو الفیض غلام عمر جتوئی بانی مدرسہ دارالفیض گوٹھ سونہ جتوئی
٭ اتاد العلماء علامہ قاضی لعل محمد مٹیاروی
٭ خطیب السام مولانا پیر غلام مجدد سر ہندی (مٹیاری)
٭ مخدوم مولانا قاضی بصر الدین سیوہانی (متوفی ۱۹۳۸ئ)
٭ مخدوم مولانامعین الدین سیوہانی سیوہن شریف
٭ استاد العلماء مولانا مکدوم محمد دائود قریشی دربیلو
٭ مولانا محمد صدیق سیتائی (صحافی مولانا عبدالغفور سیتائی کے نانا جان
٭ مولانا سید شہاب الدین لکیاری ہالانی (سندھ جا اسلامی درسگاہ ص۴۱۳)
٭ مخدوم مولانا قاضی نصر اللہ صدیقی پاٹ شریف
٭ مولانا پی رمحمد قریشی جونانی شریف تحصیل وارہ (سندھ جا اسلامی درسگاہ ص۴۰۰)
٭ مولانا علامہ مخدوم غلام محمد ملکانی بلوچ ملکانی شریف ضلع دادو
٭ مولانا خیر محمد جونیجو ، پاٹ شریف
تصنیف و تالیف:
آپ صاحب تصنیف بزرگ تھے، آپہ کے فتاویٰ کو اگ رجمع کیا جاتا تو کئی جلدیں تیار ہو سکتی تھیں (تزکرہ مشاہیر سندھ)
٭ نور العینین فی اثبات علم الغیب لسید الثقلین دیوبندیوں وہابیوں کا عقیدہ ہے کہ حضور پر نور سید عالم ﷺ کو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں ۔ (براہین قاطعہ ص۵۵)
اسی طرح اشر ف علی تھانوی نے ’’حفظ الایمان‘‘‘ پمفلٹ میں آپ ﷺ کے علم شریف کا تمسخر اڑایا ہے۔ یہ گستاخیاں زبان درازیاں جب سندھ میں پہنچیں تو عوام نے علماء سے علم غیب کے متعلق دریافت کیا ۔ بعض علماء خصوصاً حضرت علامہ پیر غلام مجدد سرہندی مٹیاروی نے اپنے استاد محترم حضرت علامہ مفتی حسن اللہ صدیقی سے استفسار کیا تو آپ نے حضور پور نور ﷺ کے علم غیب کے اثبات اور وہابیت دیوبندیت کے باطل عقیدہ کی تردید میں یہ لاجواب علمی تحقیقی کتاب عربی میں تحریر فرمائی۔ اس کا سندھی ترجمہ آپ کے نواسہ حضرت مخدوم قاضی علی گوہر صدیقی (متوفی ۱۹۷۲ئ) نے کیا ۔ سندھی ترجمہ کا ایک قلمی نسخہ مدرسہ صبغۃ الھدیٰ شاہ پور چاکر کی لائبریری میں محفوظ ہے۔ اس نسخہ کیمیا کی اشاعت کی جانب توجہ دینی چاہئے۔
٭ تحفہ اولی الالباب فی رد علی طاعن الاصحاب(سندھی)
مولانا قاضی ہدایت اللہ متعلوی نے کتاب ’’کواکب السعادات‘‘ میں شان اہل بیت بیان کرتے ہوئے صحابہ کرام پر تنقید کی خصوصاً حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو نشانہ بنایا۔ تو حضرت قبلہ مفتی صاحب نے قاضی صحب کے اس نظریہ کے آپریشن میں یہ بلند پایہ علمی شاہکار مدرسہ دارالفیض گوٹھ سونہ جتوئی میں تحریر فرمایا۔ مولانا احمد ابڑو ، قاضی صاحب کے استاد تھے اسلئے انہوں نے مولانا ابڑو کے نام سے کتاب چھپوائی۔ انہوں نے ۱۳۲۸ھ/ ۱۹۱۰ء کو یہ کتاب اپنے خرچہ پر کراچی سے چھپوا کر لارکانہ سے عام کیا۔ اس کتاب کی تفصیل قاضی صاحب کے حالات میں ملاحظہ فرمائیں۔
٭ مرأۃ العلوم: آپ نے اپنے شاگر مولانا پیر غلام مجدد سرہندی مٹیاروی کو مفصل سند اپنے قلم سے تحریر فرما کر دی تھی جو کہ کئی صفحات پر مشتمل ہے جس کو ’’مرأۃ االعلوم‘‘ کا نام دی اگیا ارو پیر غلام رسول سر ہندی مجددی سجادہ نشین درگاہ مجددیہ مٹیاروی نے کتابچہ کی صور ت میں شائع کیا۔ اس مین آپ نے اپنے اساتذہ کے اسماء گرامی اور سلسلہ اساتذہ تحریر فرمایا ہے۔
٭ انساب مشائخ سیوستان (فارسی) اس کا سندھی ترجمہ آپ کے نواسہ حضرت مخدوم قاضی علی گوہر صدیقی نے ۱۹۵۰ء میں کیا لیکن تا ہنوز قلمی صورت میں سلیم اللہ صدیقی صاحب (حیدرآباد) کے پا س محفوظ ہے اور اشاعت کا منتظر ہے۔
وصال:
حضرت علامہ مفتی اعظم مخدوم حسن اللہ صدیقی ۲۶ ربیع الاول ۱۳۳۹ھ بمطابق ۸ دسمبر ۱۹۲۰ء کو داغ مفارقت دے گئے۔ آپ کا مزار منور درگاہ پاٹ شریف (ضلع دادو) کی مسجد شریف کے برابر میںمرجع خلائق ہے ۔ آپ کے وصال پر حکیم فتح محمد عباسی (سیوہن شریف) نے عربی میں ’’قطعہ تاریخ وصال‘‘ کہا جو کہ درج ذیل ہے:
امثل الدھر بانواع المنن
فات عنا الشیخ مولانا الحسن
کان شیخاً عالماً متبحراً
کان فی الافضال مفضال الزمن
اشتغل بالجھد فی درس العلوم
قد تفقہ فی الشرائع والسنن
بعد فوتہ قلت فی تاریخہ
مات مولانا الشریف الحسن
۱۳۳۹ھ
[ماخوذ: تذکرہ مشاہیر سندھ، سندھ جا اسلامی درسگاہ، ماہنامہ بیداری اپریل ۲۰۰۳ء اور ذاتی معلومات تاریک وصال لوح مزار سے زیارت کے وقت راقم نے نوٹ کر لی تھی۔]
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)