عارف کبیر حضرت علامہ مولانا محمد اکبر علی قدس سرہ العزیز(میا نوالی)
عارف کبیر حضرت علامہ مولانا محمد اکبر علی قدس سرہ العزیز(میا نوالی) (تذکرہ / سوانح)
عام متجر ، عارف اکبر حضرت مولانا محمد اکبر علی بن مولانا غلام حسین بن خدا یار (رحمہم اللہ تعالیٰ) ۱۳۰۱ھ/۱۸۸۴ء میں میا نوالی میں پیدا ہوئے [1]
،قرآن مجید والد ماجد سے حفظ کیا ، فارسی کی ابتدائی کتابیں مولانا محمد (میانوالی)سے پڑھیں ، بعد ازاں مولانا نور زمان ، کوٹ چاند شریف (ضلع میانوالی) سے علمی استفادہ کیا ، کچھ عرصہ چکی ( ضلع کیمپور) میں پڑھتے رہے ۔ استاذ العلماء مولانا احمد الدین گانگوی (میانوالی ) کے سامنے زانوے تلمذ طے کیا ،اس کے بعد ضلع ہزارہ کے مختلف علماء سے تحصیل علم کرتے رہے ۔ دورئہ حدیث دارلعلوم دیوبند میں کیا ۔ ۲۹ذیقعدہ ۱۴۴۲ھ، ۱۹۰۵ء کو سند فراغت حاصل کی ۔ آپ راسخ العقیدہ علماء اہل سنت میں سے تھے ، سلسلۂ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں حضرت خواجہ احمد میروی قدس سرہ العزیز کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور اجازت وخلافت سے مشر ف ہوئے ۔
تحصیل علوم سے فارغ ہوئے تو اپنے محلے( زادہ خیل ) کی چھوٹی سی مسجد میں امامت و خطاب کے فرائض انجام دینے شروع کئے ، جلدہی آپ کی نیک نفسی اور جلالت علمی کا شہرہ دو دور تک ہو گیا، طلباء تحصیل علوم کے لئے اور عوام و خواص آپ سے ظاہری و باطنی فیوض و بر کات حاصل کرنے کے لئے جوق حاضر ہوتے اور اکتساب فیض کرتے ، دیکھتے ہی دیکتھے مختصر سی مسجد کی جگہ عظیم الشان و سیع و عریض مسجد تعمیر ہو گئی۔ آپ کے تلامذہ ، مریدین اور متعقدین کا حلقہ بہت وسیع ہے ، مسائل دینبہ حل کرانے کے لئے اکثر لوگ آپ ہی کی طرف رجوع کرتے ، اہل محلہ جو کم علمی کی بنا ء پر احکام شریعت سے بے خبر اور اتباع شریعت سے محروم تھے آپ کے فیض صحبت سے نمازی ، حاجی متبع سنت اور علم دوست بن گئے۔
آپ کو اللہ تعالیٰن ے زہد و تقویٰ ، عبادت دریاضت ، وسعت ظرف ، خوش خلقی ، سخاوت،حق گوئی اور مخلوق خدا سے بے نیزی ایسے اوصاف حمیدہ سے نواز ا تھا ۔ ایک دفعہ میانوالی کے انگریز ڈپٹی کمشز نے آپ کو کئی مربعے کی پیشکش کی لیکن آپ نے انکار کردیا۔ آپ کے پاس ایک برہمن حدیث شریف پرھا کرتا تھا ،ایک خادم نے درخواست کی کہ اسے نہ پڑھا یا جائے کہ مباد ا پرھ کر ہمارے مقابلہ پر اتر آئے ۔ آپ نے فرمایا ’’بے شک مقابلہ کرے ، کیا ہمارا مذہب جھوٹا ہے ؟’’ مذاہب باطلہ کی بیخ کنیم یں پوری سعی فرماتے تھے ، اس ضمن میں کئی مرتبہ مخالفین سے مناظرہ کئے اور انہیں شکشت فاش دی ۔
شیخ المسلمین حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی قدس سرہ سے آپ کے گہرے مراسم تھے ، چنانچہ کئی دفعہ عرس مبارک میں شمولیت کے لئے گولڑہ تشریف لے جاتے ، مولانا فیضاحمد گولڑوی لکھتے ہیں:۔
’’حضرت مولوی اکبر عکی صاحب خطیب میانوالی (وصال ۲۷جمادی الاولی ۱۳۷۶ھ ۲۹ دسمبر ۱۹۵۶ء) حضرت خواجہ احمد میروی کے اعاظم خلفاء میں سے تھے اور ہمارے حضرت (حضور اعلیٰ گولڑوی قدس سرہ )کے ساتھ ان کا گہر روحانی رابطہ تھا ، مسنتد علام تھے ، تصوف ، کشف اور وحانیت میں بلند مقام رکھتے تھے ، چوہدری اور زنگ زیب صاحب ڈپٹی کمشز سے ، جو ہمارے حضرت قبلۂ عالم قدس سرہ کے دامن گرفتہ ہیں ، ان کے خصوصی تعلاقات تھے اور ان سے بعض اوقات خاص اسرار کی باتیںبھی بیان فرمادیتے ، مثلاً یہ کہ آج سبق کے دوران فلاں بزرگ کی روح تشریف فرما ہوئی ، گولڑہ شریف عرس کے موقع پر بھی کبھی حاضر ہو ا کرتے تھے۔
ایک دفعہ عرس کی مجلس ختم ہوئی تو چودھری صاحب سے فرمایا کہ آج روحانی مجلس میں آقاز بلند ہوئی کہ غوث کی عمر ایک برس اور بڑھادی گئی ہے چنانچہ پور ے ایک سال بعد حضرت قبلۂ عالم قدس سرہ کا وصال ہوا[2]
ملفوظات
انسان کو چاہئے کہ وہ خوف کی بجائے حیا کی بنا پر گناہ کو ترک کرے او یہ یقین رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ میرے ہر فعل کو دیکھ رہا ہے ، گناہ کرتے ہوئے شرمائے ہر مصیبت و ابتلاء میں ثابت قدم رہنا چاہئے ۔ شریعت مطہرہ کو کبھی بھلایا نہ جائے اور ہمیشہ خندہ پیشانی سے رہنا چاہیے تاکہ ولاے کو انسان کی تکلیف کا احساس نہ ہو سکے ۔
اصل عزت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے حاصل کی جائے اور اسی کے لئے خرچ کی جائے اس سے نفس ذلیل ہو جاتا ہے وہ عزت جو اپنے نفس کیلئے حاصل کی جائے اور خواہشات نفسانی کیلئے استعمال ہو قہر الٰہی کا باعث بنتی ہے ۔
۲۷ جمادی الاولیٰ، ۲۹ دسمبر ( ۱۳۷۶/۱۹۵۶ء) کو حضرت مولانا محمد اکبر علی رحمہ اللہ تعالیٰ کا وصال ہوا ، کمیٹی باغ کے وسیع میدان میں آپ کے استاذ محترم مولانا احمد دین گانگوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں نیا نوالی اور اس کے مضافات کے کثیر التعداد دنیا ز مندوں نے شرکت کی ، مزار انورآپ کی عظیم دینی یادگار اکبر المساجد کے پہلو میں بنایا گیا جہاں ہر سال نہایت اہتمام سے آپ کا عرس منایا جاتا ہے اس عرس میں پاکستان کے مقتدر علماء خاص طور پر غزالی زمان حضرت علامی سید احمد سعیدکاظمی دامت بر کاتہم العالیہ شیخ الحدیث انوار العلوم ، ملتان ، ملک المدرسین استاذ الا ساتذہ مولانا عطا محمد بنیا لوی دامت بر کاتہم العالیہ شرکت فرمایا کرتے ہیں ، مولانا ابو الفتح محمد اللہ بخش رحمہ اللہ تعالیٰ مہتمم شمس العلوم جامعہ مظفریہ رضویہ ، واں بھچراں بھی شریک ہوا کرتے تھے۔
حضرت مولانا محمد اکبر علی رحمہ اللہ تعالیٰ کی اولاد نرینہ میں سے دو صاجزادے سے یاد گاار ہیں ، مولانا غلام ربانی سرکاری ملازمت سے منسلک ہیں اور مولانا الحاج غلام جیلانی مد ظلہ ( فاسل مدارسہ اسلامیہ امر دبہ ضلع سہانپور )اکبر المساجد (میانوالی ) کے خطیب اور میانوالی کے مفتی ہیں ، آپ کی نگر انی میں مسجد و مدرسہ کا نظام بحسن و خوبی چل رہا ہے ۔ ان کے فرزنداجمند مولانا محمد عبد المالک[3]
سلمہ ر بہ ان دونں درس نظامی کی آخری کتابیں پرھ رہے ہیں ، انہیں ذہانت ، شرافت اور سلامت طبع کے جوہر درثے میں ملے ہیں، مسلک اہل سنت و جماعت کی ترقی کے لئے ان سے بری توقعات وابستہ ہیں، مولائے قدوس انہیں سلامت رکھے اور بیش از بیش دینی خدمات کی توفیق ارزانی فرمائے آمین۔
[1] فاضل صل مولانا علماء مہر علی مد ظلہ نے الیواقیتا الہریہ ص ۱۰۹ میں سن ولادت ۱۲۹۸ء لکھا ہے ۔
[2] فیض احمد ، ولانا مہر منیر : ص ۴۰۴
[3] یہ تمام حالات انہوں نے ایک قلمی بیاض سے میا کئے ، اس تعاون پر راقم ان کا شکر گزارہے۔
(تذکرہ اکبریہ اہلسنت)