رئیس الفضلاء علامہ محمد ہاشم انصاری
رئیس الفضلاء علامہ محمد ہاشم انصاری (تذکرہ / سوانح)
مدینہ منورہ کے انصار صحابہ کرام کی اولاد امجاد میں ایک بزرگ حضرت خواجہ کرم اللہ انصاری رحمتہ اللہ علیہ کی سندھ کے نامور نقشبندی بزرگ سلطان الاولیاء حضرت خواجہ محمد زمان صدیقی نقشبندی رحمتہ اللہ علیہ ( بانی درگاہ لواری شریف ضلع بدین ) سے ملاقات مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفا و تعظیما میں ہوئی۔ خواجہ کرم اللہ انصاری پہلی ملاقات میں بہت متاثر ہو کر سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت سلطان الاولیاء کے دست بیعت ہوئے۔ مرشد کریم کی محبت میں وطن کو خیر باد کہہ کر سندھ میں سکونت اختیار کی۔ حضرت خواجہ صاحب کے ایک مرید بلال ملاح کی دختر سے خواجہ کرم اللہ کی شادی خانہ آبادی ہوئی۔ فقیر بلال ملاح یھلجی ( ضلع دادو) میں سکونت پذیر تھے اس لئے خواجہ کرم اللہ انصاری نے یھلجی کو اپنا مستقل سکونت گاہ بنایا۔ حضرت خواجہ کرم اللہ انصاری کا حضرت سلطان الاولیاء کے بڑے خلفاء میں شمار ہوتا ہے۔ آپ کا مزار مبارک یھلجی میں مرجع خلائق ہے۔
خلیفہ کرم اللہ انصاری کو بلال ملاح کی دختر سے دو صاحبزادے اور ایک صاحبزادی تولد ہوئی ۔ ( ۱) حاجی ہدایت اللہ (۲) مولوی عبدالصمد ۔ حضرت مولانا محمد ہاشم انصاری ، مولانا عبدالصمد صاحب کی اولاد میں سے ہیں ۔ سلسلہ نسب خواجہ صاحب سے اس طرح ملتا ہے : مولانا محمد ہاشم بن ملا محمد بن حافظ الہ ڈنہ بن حاجی احمد بن مولانا عبدالصمد بن حضرت خواجہکرم اللہ مدنی انصاری ۔
رئیس الفضلاء عاشق خیر الوریٰ حضرت علامہ مولانا الحاج محمد ہاشم انصاری ۱۲، ربیع الاول ۱۳۰۵ھ میں یھلجی شہر ( ضلع دادو) میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت :
ابتدا میں پھلجی شہر میں قرآن پاک اور فارسی کی تعلیم حاصل کی اور عربی کی تعلیم حاصل کر نے کیلئے نامور عالم دین و مدرس حضرت علامہ مفتی محمد حسن کھوسہ بلوچ کے مدرسہ میں جو ہی ( ضلع دادو ) میں داخلہ لیا۔
کچھ عرصہ استاد العلماء سند المدرسین علامہ عطاء اللہ فیروز شاہی کے پاس بھی تعلیم حاصل کی لیکن پھر اما م المیراث حضرت مفتی محمد حسن کھوسہ کے پاس جو ہی واپس آئے جہاں درس نظامی کی تکمیل اور دستار فضیلت باندھی ۔
درس و تدریس :
علامہ محمد ہاشم انصاری نہایت ذکی ذہین تھے اور کتب بنیی کا جنون تھا۔ تحصیل کے بعد درس و تدریس کا مشغلہ جاری رکھا۔ سب سے پہلے دادو شہر کی قاضی مسجد میں تدریس شروع کی ۔ اس کے علاوہ سندھ کے مختلف مقامات پر درس و تدریس کے لئے تشریف لے گئے۔
٭ میاں جو گوٹھ نزد اسٹیشن ہمایون شریف ضلع جیکب آباد
٭ درگاہ مخادیم کھہڑا شریف ضلع خیر پور میرس
٭ گوٹھ قاضی کی کنڈی نزد اسٹیشن یھلجی
٭ مسجد میاں جیون شاہ دادو شہر
٭ شکار پور میں پیر ضیاء معصوم سر ہندی کے پاس
٭ کھاہی کنڈا نزد نوشہرو فیروز
٭ درگاہ میاں سید نور شاہ ؒ نو شہرو فیروز ، اس کے بعد
٭ جامع مسجد نوابشاہ کے امام مدرس و خطیب مقرر ہوئے۔
آپ اعلیٰ پایہ کے مدرس ، طلباء پر بڑے شفیق تھے، اس لئے ان پر بڑی محنت کرتے تھے ، تدریس کے لئے جہاں بھی تشریف لے گئے وہاں طلباء کا جمع غفیر جمع ہو جاتا اور آپ سے خوب استفادہ کرتے رہتے ۔ آپ کا مقصد بھی یہی تھا کہ ناخواند ہی ختم ہو ۔ اس لئے جید علماء کی کھیپ تیار کی تاکہ ملک کے گوشہ گوشہ میں پھیل جائیں اور دینی تعلیم عام کریں ۔ شاگرد کو سبق ذہن نشین کرانا یہ آپ کا خاصہ تھا، ذہین طلباء پر بہت محنت کرتے ، سبق کی تقریر اس طرح آسان پیرا میں فرماتے کہ سبق آسانی سے طلباء کے دماغ میں نقش ہو جاتا۔
سفر حرمین شریفین:
۱۳۴۱ھ میں حج بیت اللہ اور مدینہ منورہ میں روضہ رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی سعادت حاصل کی۔
مدینہ منورہ میں فرنگی محل لکھنو( انڈیا) کے نامور عالم دین مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے شاگرد ارشد حضرت مولانا عبدالباقی انصاری فرنگی محلی سے حدیث مین سند حاصل کی۔ مولانا ہندوستان کی ہنگامی زندگی ( تحریک ہجرت وغیرہ ) سے بیزار ہو کر مدینہ منورہ میں مستقل سکونت اختیار کی اور مسجد نبوی میں روزانہ درس حدیث دیا کرتے تھے۔
جب حجاز مقدس میں نجدیوں نے خون ناحق عام کر کے قابض ہوئے ان دنوں میں مولانا محمد ہاشم صاحب نے دوسری بار حج اور زیارت روضہ اقدس کی سعادت و حاضری سے فیض یاب ہوئے۔
حفظ قرآن :
حضرت مولانا محمد ہاشم صاحب تقریبا ۱۹۳۶ء سے نواب شاہ میں سکونت پذیر تھے ۔ قیام نوابشاہ کے بعد قرآن شریف کے حفظ کا شوق دامن گیر ہوا اور خود اپنی محنت سے قرآن شریف حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی اور پھر ہر سال تراویح میں سناتے رہتے ۔ قیام نوابشاہ کے بعد ہر سال حج کی سعادت حاصل کرتے رہے۔
بیعت و خلافت :
زمانہ طالب علمی سے علم تصوف اور سلوک طئے کرنے کا شوق رہا ہے اس لئے اپنے والد صاحب کے ہمراہ حضرت خواجہ محمد سعید صدیقی نقشبندی رحمتہ اللہ علیہ سجادہ نشین لواری شریف ( ضلع بدین ) کے دست اقدس پر بیعت ہوئے۔ اس کے بعد حضرت مولانا علامہ غلام حسین جتوئی ؒ ( بھلیڈ نہ ضلع جیکب آباد ) کی صحبت اختیار کی جہاں سے آپ کو خلافت عطا ہوئی ۔
مولانا خادم حسین ؒ ، حضرت خواجہ محمد عمر جان نقشبندی ؒ چشمہ شریف ( کوئٹہ ) کے خلیفہ اجل تھے۔ یہی وہ مولانا خادم حسین جتوئی ہیں جنہوں نے مناظر اہل سنت علامہ حشمت علی خان بریلوی کی کتاب ’’الصوارم الہندیہ ‘‘پر تصدیق ثبت فرمائی اور یہ کتاب وہابی دیوبندی اہل حدیث علماء کی تروید میں لکھی گئی ۔ ملا حظہ فرمائیں راقم کا مقالہ ’’سندھ کے دو مسلک ‘‘۔
حضرت مولانا خادم حسین تمام دینی علوم میں ماہر تھے خصوصا علم کلام میں سند کا درجہ رکھتے تھے۔ اس دور کے طلباء میں ایک شعر مشہور تھا:
خیالات خیالی بس بلند ست
برای حل آن خادم حسین ست
اصل شعر اس طرح ہے:
خیالات خیالی بس بلند ست
کہ آنجائی نہ قل احمد نہ جند ست
مولانا محمد ہاشم انصاری ایک سچے عاشق رسول تھے، عشق و محبت کی جیتی جاگتی تصویر سادگی اخلاص کے سراپا پیکر تھے ۔ حدیث ، تفسیر اور فقہ سے خاص شغف و شوق رکھتے تھے۔ پیرانہ سالی اور علالت کے باوجود طلباء کو درس برابرا دیتے تھے۔ اس میں ناغہ نہیں کرتے اور لاپرواہی کو بالکل پسند نہیں کرتے ،کیوں کہ لاپرواہی سے طلباء کی عمر عزیز کا وقت ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ بلکہ آپ تو دینی علوم کا درس دینا عبادت سمجھتے تھے پھر وہ اس میں لاپرواہی کس طرح کر سکتے تھے ۔ حضرت مولانا کا وجود ا س قحط الرجال کے دور میں باعث نعمت تھا ۔ آپ کی صحبت سراسر فیض و برکت تھی اور صحبت میں بیٹھنے کے بعد اٹھنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔
رب کریم نے آپ کی زبان میں ایسی تاثیر دی تھی کہ آپ کی تقریر سننے سے کئی بد کار اور ظالم لٹیرے پاکبا ز بن گئے۔ آپ کا خطاب سننے کے لئے قرب و جوار کے علاوہ دور و دراز علاقوں سے لوگ آتے تھے ۔ آپ مستجاب الدعوات تھے۔ آپ کی صحبت میں بیٹھنے والا اپنے وجود کو بھول جاتا اور وقت گذرنے کا احساس ہی ختم ہو جاتا۔ حضرت مولانا صاحب کا مل و اکمل تھے، خلیفہ مجاز تھے لیکن دینی علوم کی تراویح و اشاعت کے سبب کی جانب کم توجہ دی ا س لئے بیعت ہونے والوں کی تعداد نہایت قلیل ہے۔ آپ سے بیعت رکھنے والے خاص اہل علم ہیں ، کچھ بعض مریدین نے آپ کی رہنمائی میں سلوک کی منازل طے کر چکے ہیں ۔ آپ کے ایک مرید خلیفہ مولانا اکبر علی صاحب ( کراچی ) کا مکتوب درج ذیل ہے:
قبلہ دار ین مدظلہ العالیٰ
بعد از تسلیمات و آداب کہ عرض ہے کہ مدت ہوئی ، بندہ حضور کی خدمت عالی میں اپنی درخواست پیش نہ کر سکا ۔ معافی کاخواستکار ہوں ۔ ظاہری زیارت کے علاوہ اب کوئی خواہش باقی نہیں ۔ آپ کی غائبانہ توجہ سے دل مسرور ہے۔ وہ کیفیت جو دماغ سے شروع ہوئی تھی ، پاوٗں تک پہنچ گئی ہے۔ حضور امام ربانی کا خوب ارشاد ہے کہ : ہر انتہا ایک اور ابتدا ہے۔ نہایت اور ہے اور نہایت النہایات اور ہے۔ آپ کی عالی توجہ سے نسبت خاصہ کا حصول نعمت عظمیٰ ہے۔ اور آئندہ امید ہے کہ حضور کے زیر قدم باری تعالیٰ رکھ کر خاص اپنی رحمت سے نوازیں گے ۔ واللہ یختص برحمتہ من یشاء
وکل ولی لہ قدم وانی
علی قدم النبی بدر الکمال
مخدوما ! یہ سب حضور کی ذرہ نوازی ہے ورنہ
’’من معمولی مرد کمینہ بنجاھیم و لیکن صحبت ا ٓنجناب این من خام راکندن کردہ‘‘۔
مکرمی جناب قاضی جان محمد صاحب بخیر و عافیت ہیں ، انہوں نے علیحدہ عریضہ ارسال خدمت کیا ہے۔ غائبانہ توجہ میں شامل رکھ کر ممنون فرمائیں ۔
خاکپائے اکبر علی عفی عنہ
حضرت مولانا صاحب ملک میں مروجہ گندی سیاست سے ہمیشہ دور رہے۔ البتہ ’’خلافت تحریک ‘‘( ۱۹۔ ۱۱۹۲۰ئ) میں خوب کام کیا۔ آپ کی تقریر و تحریر نہایت موثر تھی اور تمام کانفرنسوں میں شرکت کی۔ اس کے باوجود دیگر لیڈروں کی طرح اندھے جذبہ ، خوامخواہ جوش کے کبھی شکار نہیں ہوئے۔ خلافتی مولویوں کے غلط اقدام کی بھر پور مخالفت کی۔ مثلا:
اس دور میں انگریز کی مخالفت کے جوش میں خلافتی لیڈروں نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا اور مسلمانوں کو افغانستان کی طرف ہجرت کیلئے باقاعدہ تحریک چلائی ۔ ایک طرف خلافتی لیڈروں ( ابوالکلام آزاد ، مولوی محمود الحسن دیوبندی ، عبید اللہ سندھی ، تاج محمود امروٹی، رشد اللہ شاہ جھنڈا ئی، دین محمد وفائی مولوی صادق کھڈہ لیا ری وغیرہ ) نے فتویٰ جاری کیا کہ اگر ہندوستان سے ہجرت نہ کی تو کافر ہو کر مرو گے ۔ اور دوسری طرف مسلمانوں کو سبز باغ دکھائے گئے کہ افغانستان میں یہ فا ئدے حاصل ہوں گے ۔
حضرت مولاناصاحب نے اس دور میں تحریک ہجرت کی زبانی خواہ عملی طور پر سخت مخالفت کی۔ اور آپ نے جو فرمایا وہی حق تھا اور ہوا بھی وہی کہ تحریک ہجرت سخت ناکامی سے دو چار ہوئی ۔
اس دور میں ابو الکلام آزاد جیسے ( عقل و خرد سے آزاد) ہندوستان کے جو شیلے و جذباتی مولویوں نے شرعی فتویٰ شائع کیا( جس میں قرآن حدیث و فقہ کے احکام میں خیانت کی گئی ) کہ ’’ولایتی کپڑے کا استعمال کرنا قطعی حرام ہے ‘‘۔
سندھ کے مولویوں کی اکثریت بھی ان جو شیلے واعظین کی ہمنوا بن گئی ۔ مگر حضرت علامہ مولانا الحاج محمد ہاشم انصاری نے بالکل صاف و واضح الفاظ میں اعلان فرمایا:
’’شریعت محمد یہ کی کسی دلیل سے بھی ولایتی کپڑے کی حرمت ثابت نہیں ہوتی ، اس لئے خوامخواہ اللہ عزوجل و رسول اللہ ﷺ پر افترا پر دازی نہ کی جائے ۔
البتہ ! بے شک یہ بتانا چاہئے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی بہتری اس میں ہے کہ ولایتی کپڑا ستعمال میں نہ لائیں ‘‘۔
آپ نے ایسا فتویٰ جاری فرما کر اس وقت کے ( خلافتی ) علماء کے سامنے پیش کیا۔ مگر مجموعی خواہ انفرادی کوششوں کے باوجود اس تحریر لاجواب کا جواب نہ دے سکے ۔ ( از:۔ علامہ مخدوم امیر احمد سوانح نمبر ۱۹۵۷ء )
اس کا مطلب اس دور میں کدھر پوش مولویوں نے اپنی بات کو منوانے کے لئے قرآن و سنت کا سہارا لیا اور قرآن و سنت کی غلط تاویلات کر کے مسلمانوں کو دھوکا دیا اور ان کے جذبات سے کھیلے ۔
کدھر پوشوں کے صحیح خدوخال جاننے کے لئے راقم الحروف کی کتب برصغیر کی مذہبی تحریکیں ، ناکام سیاستدان اور اصلی روپ کا مطالعہ نہایت مفید ثابت ہو گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔
علامہ مفتی عبدالرحیم صاحب سکندری نے روایت کی کہ الحاج رحیم بخش قمر نوابشاہی نے اپنے استاد کے متعلق ایک واقعہ بتایا کہ ایک با ر وہابیوں کے مشہور عالم مولوی غلام خان ( موٗلف جواہر القرآن) راولپنڈی سے نواب شاہ مدعو تھے، رات کو شہر میں تقریر کی۔ مولانا محمد ہاشم انصاری کے ذہن میں آیا کہ دیوبندی اپنے مولوی کو ’’شیخ القرآن ‘‘ کہتے ہیں اس لئے اس کی تقریر سنی چاہئے کہ آخر وہ کیا کہتے ہیں ؟( پوسٹر میں لکھے ہوئے بڑے بڑے خطابات القابات سے مرغوب ہو کر ہماری عوام بھی یہی کہتی ہے کہ آخر مخالف مولوی کیا کہتے ہیں ؟لیکن بیچاروں کو یہ پتہ نہیں گستاخ رسول و صحابہ کی مجلس میں جانا ہی نحوست ہے بلکہ حضور پاک ﷺ کی ناراضگی کا سبب ہے، اس واقعہ کو پڑھ کر سبق حاصل کریں ) جب رات ہوئی مولانا نے طلباء سے مدرسہ کی چھت پر چار پائی بچھوا کر تقریر سننے کے بعد وہیں سو گئے ۔ مولانا کا دل مثل آئینہ صاف اور عشق رسول سے لبریز تھا، روز رات سے یہ سلسلہ متقطع ہو گیا۔ جس کو روزانہ حضور کی محفل میں آنا جانا نصیب ہو پھر یہ سلسلہ ٹوٹ جائے اس کی کیفیت کا کون انداز لگا سکتا ہے بلکہ جس طرح مچھلی بغیر پانی کے تڑپتی ہے ، مولانا بھی ساری ساری رات درود شریف پڑھنے رہتے ، روتے رہتے ، دل تڑپتا رہتا اور معافی مانگتے رہتے ۔ آخر تیسری رات بعد نماز عشاء مسجد شریف میں درود شریف پڑھتے پڑھتے آنکھ لگ گئی اور قسمت جاگ اٹھی کہ رحمت العالمین شفیع المذنبین ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے مولانا کے لئے عید ہوگئی لیکن حضور پاک ﷺ کے چہرہ والضحیٰ پر ناراضگی کے آثار تھے اور حضور کے ساتھ دو شہزاد ے بھی تھے ( یعنی حضرت سید نا امام حسن المجتبیٰ اور سیدنا امام حسین سننے لگے ہیں ‘‘۔
جان رحمت ، والی امت ﷺ نے فرمایا:’’ہم اسی لئے تو ان سے ناراض ہیں ‘‘۔ شہزادوں نے عرض کی : ’’نانا جان !آپ انہیں معاف فرمائیں یہ آئندہ ایسی غلطی نہیں کرے گا‘‘۔ اس کے بعد سر کار دو عالم حبیب کریم ﷺ نے تبسم فرمایااور مولانا صاحب پر راضی ہو گئے ۔ ( مفتی عبدالرحیم صاحب )
مولوی غلام خان اپنے دور کا نامور گستاخ رسول تھا اور اس حوالے سے کافی شہرت رکھتا تھا اس کی موت کا واقعہ بڑا حیرت انگیز ہے ۔ دبئی میں دو گھنٹے تقریر کی ، دوران تقریر سر کار دو عالم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخیاں کرتا رہا، چنانچہ تقریر کے دوران دل کا دورہ پڑا جو کہ جان لیوا ثابت ہوا، ہسپتال میں داخل ہوا، تکلیف و بدبو میں ا س قدر شدت تھی کہ اس کی چیخ و پکار سے دہشت کا عالم تھا، ڈاکٹر نرس و دیگر اسٹاف خوف و دہشت سے کمرے چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ جسم میں عجیب اچھل کود تھی ۔ ایک گھنٹہ کے بعد کمرہ میں خاموشی ہو گئی۔ ڈاکٹر خوف کے مارے اندر جانے کے لئے تیار نہیں تھے، آخر کافی لوگوں کے جمع ہو جانے کے بعد ڈاکٹر اندر کمرہ میں داخل ہوئے۔ کیا دیکھا ایک گھنٹہ کی سخت سکرات ، کشمکش کے بعد جان جسم سے نکل چکی تھی ، جسم مردہ پڑا ہے، بدن پھول چکا ہے، شکل سیاہ ہو چکی ہے زبان منہ سے باہر لٹک رہی ہے اور آنکھیں ابھر کر باہر کو آگئیں ہیں ۔
مجبور ااسی حالت میں غلام خان کی میت کو صندوق میں بند کیا اور پاکستان بھجوادیا گیا اور اس پر ہسپتال کا سر ٹیفیکٹ لگا ہوا تھا کہ او ر اس صندوق کو کھول کر لاش کونہ دیکھا جائے اور یوں ہی دفن کر دیا جائے ۔ میت کراچی سے راولپنڈی پہنچی ، راستہ میں خواہش کے باوجود کسی کو بھی چہرہ نہیں دکھایا گیا یہاں تک کہ اس کے گھر والے اہل خانہ نے بھی اس کا آخری بار چہرہ نہیں دیکھا۔ اسی طرح شاگرد و معتقدین اور جماعت والے بھی محروم رہے۔ آخر نماز جنازہ کے بعد ان لوگوں نے شدید احتجاج کیا جس کے سبب مجبور ہو کر چہرہ دکھایا گیا۔ اس روئد اد کو دوسرے روز اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا۔ دیکھئے روز نامہ نوائے وقت لاہور ؍راولپنڈی ۲۹، مئی ۱۹۸۰ء و دیگر اخبارات ۔ سلطان الواعظین مولانا ابو النورر محمد بشیر کوٹلوی نے اس واقعہ پر اپنی نظم میں یوں تبصرہ کیا ہے:
ان کے دشمن پہ لعنت خدا کی رحم پانے کے قابل نہیں ہے
ہے یہ میت کسی بے ادب کی ، منہ دکھانے کے قابل نہیں ہے
تلامذہ:
آپ کے شاگردوں کے نام درج ذیل ہیں :
٭ استا د العلماء حضرت مولانا سید امیر محمد شاہ الحسینی امینانی شریف
٭ علامہ مخدوم امیر احمد کھہڑا شریف تحصیل گمبٹ ضلع خیر پور
٭ شعلہ بیان مقرر مولانا پیر غلام مجدد سر ہندی ماتلی
٭ مولانا مفتی محمد ابوبکر لسبیلہ بلوچستان
٭ مولانا محمد قاسم پہنور اسٹیشن یھلجی
٭ مولانا عبداللہ انصاری برادر اصغر
٭ مولانا امم االدین لغاری ڈندو شہر ضلع بدین
٭ مولانا قاضی حاجی محمد بن علامہ محمد حسن قریشی کنڈی والے دادو
٭ مولانا حکیم علی محمد دادو
٭ مولانا محمد صالح جمالی گڑھی خیرو
٭ الحاج رحیم بخش قمر لاکھو نوابشاہ
٭ مولانا کمال الدین خواجہ کھہڑا
٭ مولانا عبدالعزیز اوڈھو
٭ مولانا محمد عثمان جمالی
٭ مولوی محمد عظیم کتب فرو ش شکار پوری ( الرحیم )
شادی خانہ آبادی :
مولانا صاحب نے دو شادیاں کی تھیں ۔ پہلی شادی اپنے خاندان سے کی اس سے ایک صاحبزادہ میاں عمر الدین تولد ہوئے ۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کی اس سے تین صاحبزادے تولد ہوئے ۔
سفر حرمین شریفین :
حضرت مولانا صاحب عاشق خیر الوریٰ ﷺ تھے، پیرانہ سالی ، علالت ، ضعف کے باوجود ہر سال حرمین شریفین کی زیارت کو جاتے تھے۔ ۱۹۵۷ء تک گیارہ حج کئے۔
(مہران سوانح نمبر ۱۹۵۷ئ)
شعر و شاعری :
شعر و شاعری سے کوئی خاص شغل نہ تھا لیکن نبی اکرم روٗف رحیم ﷺ کی محبت و عقیدت جب لبریز ہوتی تو الفاظ شعر کی صورت اختیار کر لیتے ، اس طرح نعتیہ کلام مرتب ہوتا۔ یہاں صرف ایک نعت شریف ( فارسی ) ہدیہ قارئین ہے۔
نعت شریف
شدم در عشق تو حیران پریشان یارسول اللہ
فتادہ خشک لب در تب چومستان یارسول اللہ
کسی کز عشق تو عاری، بل شک بیکس و ناری
نہ زائد زین زیاں کاری بدوراں یارسول اللہ
چو باغ حسن تو دیدم چولالہ داغ در دل شد
زگل و صفت بکن مارا تو خندان یارسول اللہ
زگریہ من چہ برخیزد کہ از صدمہ یکے شوید
شعاعت کن چو بیحد شد گناہاں یارسول اللہ
’’عمر دین‘‘ رانشد دیگر بجز ’’لاتقنطوا‘‘ تکیہ
رھائی دہ تو’’ہاشم‘‘ را از ہجران یارسول اللہ
وصال :
جامع مسجد نواب شاہ ( جہاں آپ امام خطیب و مدرس تھے) میں ۱۲، صفر المظفر۱۳۸۲ھ؍ ۱۴، جولائی ۱۹۶۲ء کو وصال کیا اور اسی جامع مسجد شریف کے احاطہ میں دفن ہوئے آج بھی آپ کی مزار شریف مرجع خلائق ہے۔ ( سندھ جااسلامی درسگاہ )
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )