حضرت علامہ نذر محمد اندھڑ
حضرت علامہ نذر محمد اندھڑ (تذکرہ / سوانح)
استاد العلماء مولانا علامہ نذر محمد ساکن بھونگ شریف (تحصیل صادق آباد) ایک عظیم المرتبت عالم دین، علم منطق و معانی کے بڑے ماہر تھے۔ تاریخ ماہ سن اور مقام ولادت معلوم نہ ہوسکا۔
تعلیم و تربیت:
چھوٹی عمر میں اپنے گوٹھ سے باہر مال و مویشی چرارہے تھے کہ اس طرف عارف باللہ حضرت علامہ مولانا محمد ابراہیم بھیو علیہ الرحمۃ ساکن گوٹھ سرحد ضلع گھوٹکی کا گزر ہوا ان کی نگاہ کیمیا اثر اس لڑکے پر پڑی اور اسے علم دین حاصل کرنے کی ترغیب دلائی تو نذر محمد نے تمام مال مویشی وہیں چھوڑ کر مولانا سرحدی صاحب کے ساتھ چل پڑے اورع ان کے مدرسہ میں داخل ہوگئے اور رات دن حصول تعلیم میں لگ گئے۔ اور ان پر لنگر کے کام کی ذمہ داری بھی ڈال دی گئی اور پھر وہ اپنے استاد محترم کے گھریلو کام بھی کیا کرتے تھے۔ مولانا نذر محمد فارسی پڑھنے لگے۔ لیکن دوسرے کاموں کی وجہ سے پریشان رہتے کیونکہ وہ حصول علم میں زیادہ وقت نہیں دے سکتے تھے۔ ان کے ہم درس طلباء ان کا مذاق اور طنز کیا کرتے ۔ نذد محمد کو اپنے ہم مکتب طلباء کا یہ طور طریقہ دل پر اثر کرتا۔ بالآخر ایک روز پریشان ہو کر استاد محترم سے مدرسہ سے اجازت چاہی تاکہ کسی دوسرے مدرسہ میں جاکر اطمینان قلب سے حصول علم کی کوشش کروں۔ حضرت مولانا سرحدی نے فرمایا : ’’ہماری خدمت کا صلہ ضرور ملے گا‘‘ آج تم یہاں ٹھہرو صبح دیکھا جائے گا۔ مولانا نذر محمد کا بیان ہے کہ رات کو سوگیا کہ ایک بزرگ صاحب نے آکر مجھے نیند سے جگایا اور اپنے مدرسہ میں آیا۔ مدرسہ میں جتنی بھی فارسی، عربی کتب رکھی تھیں ان میں سے ہر ایک کی پہلی اور آخری سطر پڑھاتے گئے۔ اس کیبعد فرمایا: اب جاکر سوجائو۔
صبح ہوئی طلباء مطالعہ میں مصروف ہوگئے جو بھی غلط پڑھتا، میں اس کی غلطیاں پکڑتا وہ پھر بھی مذاق کر کے ٹال دیتے اور کہتے یہ جانتا تو کریما بھی نہیں ہے اور ہم عربی والوں کی غلطیاں کیسے نکالتا ہے۔ طلباء کا یہ شور سن کر حضرت مولانا سرحدی تشریف لائے ، طلباء نے حقیقت حال عرض کی آپ نے خم دیا کہ سب سے سب اپنی اپنی کتاب یہاں لائو۔ نذر محمد کو اپنے پاس بٹھایا، طلباء پڑھنے لگے مگ رجب نذر محمد نے پڑھنا شروع کیا تو سارے کے سارے حیران رہ گئے۔ اور عالم حیرت میں کہنے لگے کہ ہم کس طرح آگے بڑھ گیا ہے اور کس طرح اس نے تحصیل علم کی ہے۔
مولانا نذر محمد بتاتے ہیں: دوسری رات مجھے پھر ایک بزرگ صاحب سفید ریش خواب میں آئے اور فرمایا: بیٹا اٹھو اور قرآن پاک سنائو۔ نذر محمد نے عرض کیا کہ مجھے قرآن مجید یاد نہیں ہے بزرگ صاحب نے فرمایا: نہیں چند چھوٹی سی سورتیں ہی سنا دو۔ مولانا نذر محمد کہتے ہیں کہ وہ میں نے پڑھ لیں۔ پھر بزرگ صاحب نے اپنا لعاب دہن نکال کر میرے منہ میں ڈال دیا اور فرمایا : اب سوجائو۔ میرے قلب میں بڑا ذوق پیدا ہوا اور یہ دیکھنے میں آیا کہ کلام پاک اور سب کتابیں میرے سامنے رکھی ہوئی ہیںاور ان میں سے ہر ایک مجھے کہہ رہی ہے کہ مجھے پڑھو۔ اس حال میں رات گزرگئی۔
اسی کشمکش میں گزری میری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی، کبھی پیچ و تاب رازی
صبح ہوئی تو استاد محترم حضرت مولانا سرحدی نے فرمایا: قرآن حکیم کے سات حصے کر لو اور روزانہ ایک حصہ سناتے رہو۔ میں نے ایسا ہی کیا اس طرح ایک ہفتی میں قرآن پاک حفظ ہوگیا۔
بیعت:
آپ سلسلہ عالیہ سہروردیہ میں اپنے استاد محترم حضرت علامہ محمد اباراہم سرحدی نور اللہ مرقدہ سے دست بیعت و خلیفہ مجاز تھے۔ (شریعت سوانح نمبر)
درس و تدریس:
آپ فرماتے ہیں: رمضان المبارک کی آمد قریب تھی پیر صاحب غوث پوری نے استاد محترم کو لکھا کہ جس نے علم لدنی حاصل کیا ہو وہ طالب علم ہمارے پاس بھیج دو تاکہ ہمارے مدرسہ میں درس دے اور رمضان المبارک میں تراویح میں قرآن کریم بھی سنائے۔
استاد محترم نے فرمایا: مولوی نذر محمد تم جائو تم آج سے غوث پور کے پیر صاحب کے حوالے ہو۔ میںغوث پور پہنچا تو پیر صاحب نے مسجد ، مدرسہ ، جماعت اور امامت میرے سپرد کردی۔ پیر صاحب کے صاحبزادے اور گرد نواح کے کافی لڑکے میرے حلقہ درس میں داخل ہو گئے۔ اسی طرح کافی عرصہ غوث پور (کندہ کوٹ ، ضلع جیکب آباد) میں تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔
حضرت پیر شاہ حسین کی رحلت کے بعد یہ معدن علم و فضل نواب امام بخش خان مزاری کے اصرار پر ’’روجھان زاری‘‘ چلے گئے۔ نواب صاحب کی وفات کے بعد سردار رئیس ولی محمد خان اندھڑ کے اسرار پر بھونگ شریف تشریف لے گئے اورع اس کے بعد آپ نے تا حیات بھونگ شریف میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔
شادی و اولاد:
مولانا نذر محمد جامع کمالات شخصیت تھے، بھونگ کے نامور سردار رئیس اعظم سخی مرد، انسان دوست، علم پرور، محب علمائ، فقیر صفت غازی محمد خان اندھڑ کی معراج ارتقاء میں اس ولی کامل کی دعا اور شفقت کا خاصہ عمل دخل تھا۔
سردار رئیس ولی محمد خان نے مولانا نذر محمد کی یکے بعد دیگرے تین شادیاں کرائیں۔ آپ کی اولاد نرینہ میں دو صاحبزادے ۱۔ مولانا دوست محدم اندھڑ ۲۔ مولانا محمد ابراہیم تھے۔ مولانا کے پسماندگان میں حاجی عبدالغفور اور خلیل احمد اچھے خاصے نیکو کار آدمی تھے۔
تلامذہ:
حضرت علامہ حافظ نذ محمد کے شاگردوں کی تعداد بے حساب ہے جن میں سے چند کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
٭ پیر سید شاہ حسین جیلانی
غوث پور جیلانی تحصیل کندھ کوٹ
٭ رئیس غازی محمد خان اندھڑ
بھونگ شریف
٭ پیر محمود شاہ
تختہ ہزارہ صوبہ سرحد
٭ مخدوم محمود صدیقی
پاٹ شریف ضلع دادو
٭ حضرت علامہ خادم حسین جتوئی
رتو دیرو
٭ مولانا میر محمد نورنگی
قمبر
٭ استاد العلماء علامہ قمر الدین اندھڑ
پنو عاقل
٭ مولانا عبدالرحمن ضیائی پتافی
میر پور ماتھیلو
٭ مولانا میاں محمد صالح بھیو
سرحد (گھوٹکی)
٭ مولانا محمد فاضل بروہی
جھٹ پٹ بلوچستان
٭ مولانا میر احسان الحیدری چانڈیو سہروردی
اوباڑو ضلع گھوٹکی
٭ مولانا عبدالرزاق ڈھر
سابق خطیب جامع مسجد بھونگ
وصال:
آپ کی قبر مبارک بھونگ شریف (صادق آباد ضلع رحیم یار خان) کی عید گاہ والے قبرستان میں ہے۔ (ماخوذ: تاریخ قبیلہ اندھڑ ص۲۰۱،بشکریہ محمد نعیم طاہر سہروردی سنجر وپور)
آپ کے تاریخ ماہ و سال وصال کے سلسلہ میں مختلف اہل علم سے رابطہ کیا، غازی جامع مسجد بھونگ کے موجودہ خطیب مولانا مفتی محمد عبدالقادر سعیدی صاحب کو بھی خط لکھا لیکن کہیں سے کوئی اطلاع نہیں ملی۔ لیکن ایک اندازے کے مطابق آپ نے ۱۹۵۰ء کو انتقال کیا۔ واللہ اعلم
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)