حضرت علامہ قاضی لعل محمد مٹیاری علیہ الرحمۃ
بحر العلوم علامہ قاضی لعل محمد مٹیاروی
استاد العلماء والفضلاء علامہ قاضی لعل محمد، مٹیاری (ضلع حیدر آباد سندھ) میں ۲۹، شوال ۱۲۷۴ھ میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
مٹیاری میں تعلیم و تربیت حاصل کی، آپ کی خوشی نصیبی کہئے کہ ان دنوں مٹیاری میں رئیس العلماء حضرت علامہ حسن اللہ صدیقی (پاٹ شریف ) تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے، اور آپ نے خوب ان سے استفادہ کیا۔ ( سندھ جا اسلامی درسگاہ ص ۴۱۳ ص۴۰۰)
قاضی صاحب نے میاں عبدالولی مٹیاروی سے بھی تعلیم حاصل کی جو کہ بے نظیر عالم ، عظیم فقیہ ، مخدوم محمد مٹیاروی کے شاگردار شد تھے اور وہ مخدوم عبدالکریم مٹیاروی بن مخدوم محمد عثمان مٹیاروی سے ، مخدوم عبدالکریم اپنے والد محترم سے جو کہ عالم اور فقیہ تھے، فقہ کی جزئیات پر عبور رکھتے تھے اور اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ وہ نصر پور کے مشہور عالم ، محدث ، فقیہ صوفی نور محمد نصر پوری کے اور وہ امام اہل سنت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی کے ہونہار شاگرد تھے۔ ( ایضاص ۲۷۱ص ۳۱۰)
درس و تدریس :
اپنے وقت کے عظیم عالم، فاضل جلیل ، محقق مفتی حضرت حاجی حافظ لعل محمد مٹیاروی یوں تو اپنے زمانہ کے بہت بڑے عالم تھے اور تمام علوم میں مہارت رکھتے تھے لیکن علم فقہ اور علم فرائض میں آپ کو خصوصی شہرت اور مہارت حاصل تھی ۔ بڑے بڑے علماء آپکی خدمت میں حاضر ہو کر علم فرائض کی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ اس علم کا آپ کے پاس پڑھنا سند کمال اور سبب فخر شمار کیا جاتاتھا۔
حضرت خواجہ عبدالرحمن مجددی جب سندھ تشریف لائے اور ٹکھڑ میں قیام پذیر ہوئے توآپ نے اپنے صاحبزاد گان خصوصا حضرت شیخ الاسلام خواجہ محمد حسن جان سر ہندی کی تعلیم کے لئے حضر ت مولانا قاضی لعل محمد کا انتخاب فرمایا اور حضرت مولانا کو ٹکھڑ بلا کر یہاں آپ سے صاحبزادگان کو تعلیم دلوائی۔
حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی جب عرب شریف سے اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس سندھ لوٹے تو آپ ٹنڈو غلام علی والے میر صاحبان کی استدعا اور گذارش پر ٹنڈو غلام علی کے مدرسہ میں تدریس کے لئے اپنے استاد محترم حضرت قاضی صاحب کا تقرر فرمایا۔ قاضی صاحب کے حسن اخلاق اور طریقہ تعلیم کے باعث وہ دارالعلوم اس مقام اور شہرت کو پہنچا کہ دور دراز سے طلبا ء تحصیل علوم و فنون کیلئے آنے لگے اور خوب اکتساب فیض کر کے اس خطہ کو علم کی روشنی سے منور کرنے لگے یہاں تقریبا بیس سال آپ نے علوم و فنون کے جوہر لٹائے ۔
ٹنڈو غلام علی ( ضلع بدین ) کے دارالعلوم کے سرپرست میر امام بخش خان جب فوت ہو گئے تو وہ مدرسہ تتر بتر ہو گیا ، کوئی نگاہ داشت اور سر پرستی کرنے والا نہ رہا اس کی رونقیں ختم ہونے لگیں تو خواجہ محمد حسن جان سر ہندی نے اپنے استاد محترم کو اپنے صاحبزادگان حضرت آغا عبداللہ جان مجددی وغیرہ کی تعلیم کے لئے ٹنڈو سائینداد ( ضلع حیدر آباد ) بلا لیا۔ جہاں آپ نے دو سال قیام فرمایا اور صاحبزادگان کو تعلیم دے کر اپنے گوٹھ مٹیاری شریف تشریف لے گئے اور وہیں مستقل رہائش اختیا ر کر لی اور آخر تک یہیں درس و تدریس اور فتویٰ نویسی میں مشغول رہے۔ کثرت تعلیم کے باعث کتب درسیہ آپ کو زبانی یاد ہو گئیں تھیں ۔ چنانچہ آٰخر عمر میں بغیر کتاب کے طلباء کو زبانی پڑھایا کرتے تھے ۔
(سندھ کے صوفیائے نقشبندحصہ دوم ص ۲۷۲)
۱۳۰۰ھ میں مدرسہ صولتیہ ( مکہ مکرمہ ) میں ایک سال اعزازی طور پر حدیث کے مدرس رہے۔
(سندھو )
تلامذہ :
آپ زندگی بھر درس و تدریس سے وابستہ رہے اس لئے تلامذہ کی تعداد کثیر ہے۔ ان میں سے بعض کے اسماء درج ذیل ہیں ۔
٭ قاطع نجدیت حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی
٭ پیر طریقت آغا عبداللہ جان سر ہندی
٭ رئیس العلماء مفتی اعظم تھر علامہ محمد عثمان قرانی
٭ صاحبزادہ غلام علی جان بن آغا عبداللہ جان سر ہندی
٭ مشہور شاعر حافظ حامد ٹکھڑ
٭ مولانا میاں احمد نصر پوری
٭ علامہ مولانا محمد قاسم کالرو عمر کوٹ
٭ سید میران محمد شاہ
٭ مولانا مفتی محمد حسین ٹھٹوی
نوٹ :پیر حاجی بقادار شاہ مٹیاروی مرحوم کی روایت کے مطابق قاضی صاحب کے تلامذہ کی تعداد ۷۰۰ہے ۔
بیعت :
شیخ طریقت خواجہ عبدالرحمن جان سر ہندی قدس سرہ سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں آ پ بیعت تھے۔ ( روز نامہ سندھو حیدرآباد ۱۰ستمبر ۱۹۹۱ء ، مضمون نگار: محبوب علی مٹیاروی )
تصنیف و تالیف :
درس و تدریس کی مسلسل مشغولیت کے سبب تصنیف کی جانب کم وقت ملا ہو گا۔ ڈاکٹر جمن ٹالپر لکھتے ہیں : قاضی میاں لعل محمد متعلوی تیرہویں صدی کے اکابر علماء وفقہاء میں سے تھے ۔ جن کے پاس سندھ اور بیرون سندھ سے شرعی مسائل اور وراثت کے متعلق استفتاء آتے رہتے تھے۔ مٹیاری شہر کے قاضی تھے، قاضیوں کی مسجد شریف میں تعلیم وفتویٰ دیتے تھے۔ آپ کا تحریر کردہ مجموعہ تقریبا دو ہزار فتاویٰ پر مشتمل ہے ۔ ( سندھ جا اسلامی درسگاہ ص ۲۷۱)
آپ کی دو تصنیف کا علم ہوا ہے وہ آج بھی مٹیاری میں قلمی صورت میں محفوظ ہیں :
٭ نور العینین فی افضلیت الشیخین : سیدنا ابوبکر صدیق و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہم کی افضلیت پر مشتمل اس کتاب میں ۶۳احادیث مبارکہ درج کی گئی ہیں ۔
٭ شروط الصلوٰۃ (سندھی ) وضو غسل طہارت و مسائل نماز پر مشتمل ہے۔
٭ مولانا محمد معروف مٹیاروی نے قاضی صاحب کے تقریبا ۸۳ فتاویٰ کی جمع و ترتیب کا کام کیا تھا۔ لیکن وہ ابھی تک قلمی صورت میں مولوی عبداللہ مٹیاروی کے پاس ہے۔ خدا کرے اشاعت کی کوئی صورت نکل آئے ۔ ( روز نامہ سندھو)
٭ قاضی صاحب نے اپنے ہونہار شاگرد خواجہ حسن جان سر ہندی کی وہابیت دیوبندیت غیر مقلدیت کے رد میں لکھی گئی کتاب ’’اصول الاربعہ فی تردید الوھابیہ ‘‘پر عربی میں تقریظ تحریر فرمائی تھی وہ کتاب کے ساتھ ہندو پاک اور ترکی وغیرہ سے کئی بار چھپ چکی ہے۔
سفر حرمین شریفین :
حضرت خواجہ عبدالرحمن مجددی جب ٹکہڑسے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ حرمین شریفین چلے گئے تو حضرت قاضی صاحب بھی آپ کے ہمراہ تھے ۔ لیکن آپ مکہ معظمہ میں حج بیت اللہ اور مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ کی حاضری کے بعد واپس سندھ تشریف لے آئے تھے۔ جب کہ حضرت نے وہاں پانچ سال قیام فرمایا۔
قاضی صاحب عشق رسول ﷺ سے سر شار دل رکھتے تھے اور آل رسول کے انتہائی ادیب تھے۔
وصال :
7حضرت قاضی لعل محمد نے ۱۰، ذوالحجہ ۱۳۵۳ھ ؍ ۱۹۳۵ء کو یعنی عین عید الاضحی کے روز مٹیاری میں ۷۹سال کی عمر میں وصال فرمایا اور وہیں مدفون ہوئے ۔ (مونس المخلصین از: آغا جان ۔ صوفیائے نقشبند)
(انوارِ علمائے اہلسنت سندھ)