علامہ سید محمد ہاشم فاضل شمسی
علامہ سید محمد ہاشم فاضل شمسی (تذکرہ / سوانح)
فاضل متبحر علامہ سید محمد ہاشم فاضل شمسی بن سید محمد قاسم ۹ ، رمضان المبارک ۱۳۳۲ھ بمطابق ۱۲گست ۱۹۱۴ء کو محلہ چاند پورہ ، موضع کا ندھا ( صوبہ بہار ، بھارت ) میں تولد ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت سید نا قطب الدین مودو د چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے سیدنا امام علی نقی تک پہنچتا ہے۔
تعلیم و تربیت:
تعلیم کا آغاز اپنے گھر سے کیا پھر مدرسہ سلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ ( بھارت ) میں داخل ہوئے، جہاں آپ کے چچا مولانا سید معین الدین زیر تعلیم تھے اور نصاب کے آخری مرحلہ میں تھے۔ آپ مدرسہ میں ممتاز طلباء میں شمار کئے جاتے تھے۔ مدرسہ شمس الہدیٰ کا نصاب تعلیم پندرہ سال پر محیط تھا، جسے فاضل شمسی نے گیارہ سال میں مکمل کر لیا۔ پھر پٹہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ مادر علمی کی نسبت سے ’’فاضل شمسی ‘‘ کہلائے ۔ آپ نے تحصیل علم کے لئے جن علماء کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا وہ سب علم دین کے بحر بیکراں تھے مثلا مولانا سید عبید اللہ قادری ، مولانا محمد سہول بھاگلپوری ۔ مولانا نادیانت حسین ۔ ملک العلماء علامہ ظفر الدین محدث بہاری ( صاحب صحیح البھاری ) وغیرہ ( انوار حدیث ، المرکز الاسلامی کراچی)
درس و تدریس:
ابتدا مدرسہ اسلامیہ اور نگ آباد ضلع گیا صوبہ بہار میں عربی ادب اور حدیث کے استاذ مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۶ء میں مادر علمی مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں تفسیر و حدیث کی تدریس کی مسند پر فائز ہوئے۔ ۱۹۴۰ء میں مشہور زمانہ خدا بخش اور ینٹل لائبریری پٹنہ میں ماہر مخطوطات اور ریسرچ کیٹلاگ کی حیثیت سے مقرر ہوئے۔ ۱۹۴۴ء سے ۱۹۴۷ء تک رائل ایشیا ٹک سوسائٹی کلکتہ میں اسی عہدے پر مامور ہوئے۔
۱۹۴۸ء میں کلکتہ سے پاکستان تشریف لے کر آئے اور حیدر آباد سندھ میں پراونشنل لائبریری اور میوزیم کی بنیاد رکھی اور ۱۹۶۹ء تک اس سے وابستہ رہے۔ اسی عرصہ میں حکومت پاکستان کی طرف سے جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں ’’شیخ التصوف ‘‘ کی حیثیت سے مقرر کئے گئے ، ابھی چھ ماہ ہی گذرے تھے کہ حکومت سندھ نے آجپ کو واپس لائبریری میں بلوالیا کیوں کہ لائبریری کے انتظامی معاملات بہت دگر گوں ہو رہے تھے۔ دسمبر ۱۹۶۹ء کو آپ نے لائبریری سے ریٹائر منٹ لے لی۔
۱۹۵۹ء میں آپ ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے وابستہ ہوئے جہاں آپ نے محفل ’’درس قرآن ‘‘ کا سلسلہ شروع کیا اور پانچ پاروں کی تفسیر پیش ی۔ لائبریری سے سبکدوش ہونے کے بعد ۱۹۷۰ء کو مولانا مفتی محمد خلیل خان برکاتی آپ کو اپنے مدرسہ درالعلوم احسن البرکات حیدرآباد میں بحیثیت ’’شیخ الحدیث ‘‘ لے گئے، جہاں آپ نے چار سال تک درس حدیث دیا ۔ بعد ازاں ۱۹۷۴ء کو علیمیہ انسی یوں آف اسلامک اسڈیز ( المعروف جامعہ علیمیہ المرکز الاسلامی ) شمالی ناظم آباد کراچی تشریف لے گئے اور لیگل ایڈوائزر کی حیثیت سے تاحیات وابستہ رہے۔ یہیں سے جاری ہونے والے انگریزی ماہنامہ ’’دی منارٹ ‘‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ سے بھی منسلک رہے۔
۱۹۸۱ء کو گورنر سندھ نے آپ کو سندھ یونیورسٹی اور سنڈیکیٹ کا ممبر نامزد کیا۔
شادی و اولاد :
۱۹۴۷ء کورشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ دو صاحبزادیاں اور تین صاحبزادے تولد ہوئے۔
۱۔ سید محمد عبدالرحمن شمسی
۲۔ سید محمد عبدالرب شمسی مرحوم
۳۔ سید محمد منور احمد شمسی مرحوم
امامت و خطابت:
فاضل شمسی کم و بیش پچیس سال (۲۵) حیدر آباد کی نئی عید گاہ کے خطیب و امام رہے۔ جس دوران ہزاروں لوگ آپ کی تقریر کے ذریعے علوم دینیہ سے مستفیض ہوئے۔ جن دنوں کراچی تشریف لائے تو جامع مسجد المرکز الاسلامی میں جمعہ کے دن ا ن کی تقریر مختلف عنوان پر خطبہ سے قبل ہوتی تھی ۔ پھر اپنے عربی خطبہ میں مضمون سے متعلق ، خصوصی نکات کو قرآن و حدیث کی اسناد کے ساتھ عربی میں پیش کرتے اور اس برجستگی اور عام فہم انداز میں کہ دونوں زبانوں سے واقف طلباء اور حاضرین لطف اندوز اور مستفید ہوتے تھے۔ (انوار حدیث ص ۱۴)
تصنیف و تالیف :
فاضل شمسی تحریر و تقریر دونوں میں صاحب کمال تھے ۔ درج ذیل کتب ورسائل آپ کے یاد گار اور صدقہ جاریہ ہیں اور بعض رسائل کئی بار چھپ کر عام ہوئے ہیں ۔
٭ قرآن اور الہامی فیصلے
٭ توحید یا نشلیث(عیسائیوں کے نظر یہ تین خدا کارد ) مطبوعہ جمعیت قادریہ سکھر طبع ثانی ۱۳۸۷ھ؍ ۱۹۶۷ء
٭ اسلام کا آخری اور ابدی پیغام ہدایت
٭ اسلام میں نظام اطاعت
٭ اسلام ایک عملی مذہب ہے
٭ عالمگیر نبوت ( حضور سب کے نبی ہیں )
٭ صلوۃ و سلام مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور
٭ انوار حدیث مطبوعہ المرکز الاسلامی ، کراچی
٭ اسلام میں دستور کی تلاش
٭ وثیقہ خلافت
٭ جہاد و قتال
٭ ایصال ثواب
٭ بیمار قوم اور اس کاعلاج
٭ سکون کا راستہ
٭ اقلیت و اکثر یت
٭ فلسفہ نماز
٭ شیطان کے فریب
٭ تلاش حق
٭ گناہ و تقدیر
٭ روسی راکٹ قرآن کی نظر میں
٭ عید قربان اور مسلمان
٭ تنشیط الاذھان یعنی تنقید حفظ الایمان (مولوی اشرف تھانوی کے کتابچہ کا رد شدید)
٭ ا س کے علاوہ جدید انداز میں قرآ ن پاک کی تفسیر بھی لکھی جس میں عقلی دلائل سے بحث کی گئی۔
ابتدائی پانچ پاروں کی تفسیر آپ کی زندگی میں زیر طبع تھی۔ ( عظمتوں کے پاسبان ص ۲۸۸)
اب صاحب ذوق کی ضرورت ہے جو کہ ان رسائل کو ’’مقالات فاضل شمسی ‘‘ کے نام سے ترتیب دے کر جدید معیار کے مطابق شائع کرے۔
عادات و خصائل :
فاضل شمسی کے متعلق خوشہ چین اہل علم کے تاثرات پیش کئے جاتے ہیں جس سے آپ کی شخصیت کے مختلف گوشے نمایاں ہوں گے ۔
مولانا عبدالحکیم شرف قادری صاحب ( لاہور ) رقمطراز ہیں : ’’فاضل شمسی اپنے دور کے یگانہ روز گار فاضل تھے۔ قرآن و حدیث کا انہوں نے بہت ہی عمیق نظر سے مطالعہ کیا تھا۔ انداز بیان منطقی اور معقولی تھا۔ تحریر و تقریر پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ ان کا خطاب فاضلانہ اور علمی نکات پر مشتمل ہوتا تھا۔ اہل علم تو ان کی گفتگو سے مسحور ہوتے ہی تھے۔ عوام الناس بھی ان کے خطاب سے فیض یاب ہوتے تھے۔ تحریر میں بھی منطقی استدلال سے کام لیتے اور عقلی دلائل کے ساتھ سلسلہ کلام اس طرح آگے بڑھاتے کہ قاری پر محویت طاری ہو جاتی۔ اول سے آخر تک مربوط اور مسلسل گفتگو کرتے کیا مجال کہ کسی جگہ جھو ل محسوس ہو یا غیر ضروری تفصیل سے واسطہ پڑے ۔ ( عظمتوں کے پاسبان )
پروفیسر ڈاکٹر علامہ حامد حسن بلگرامی مرحوم ( صاحب تفسیر فیوض القرآن ) رقمطراز ہیں :
مجھے مولانا سے شرف نیاز اس زمانہ میں حاصل ہوا جب مجھے جامعہ اسلامیہ بہاولپور کی تشکیل کا کام سپرد ہوا اور حضرت مولانا شمسی کو جامعہ میں بطور صدر شعبہ تصوف و اخلاق کی دعوت حکومت کی جانب سے پیش کرنے کا موقعہ ملا۔
حضرت مولانا نے ہماری استدعا پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے ساتھ اقامت گاہ میں رہنا قبول فرمایا۔ ادارے کی غرض یہ تھی کہ حضرت مولانا کی ذاتی خوبیوں سے جس میں علم کے ساتھ انکسار، تواضع ، ایثار، حلم اور محبت کی فراوانی ہے، طلباء کو اس سے متاثر ہونے کا موقع ملے ۔ حضرت مولانا کے اقامت گاہ میں قیام کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ طلباء کو ان سے کس درجہ لگاوٗ پیدا ہو گیا ہے اور علوم دینیہ تفسیر ، حدیث ، علم کلام ، فقہ ،تقابل ادیان، ادب وغیرہ ہر شعبہ سے متعلق کتب پر ان کو کتنا عبور ہے۔ جامعہ کی شہادت عالیہ اور تخصص ( b.a.m.a ) کے طلباء اپنے اپنے مضامین کی کتب لے کر ان کے پاس حاضر ہوتا اور وہ بے تکلف ان کی مشکلات حل کرتے رہے۔ ہر چند اس کا اثر ان کی صحت پر پڑرہا تھا لیکن کبھی کوئی حرف شکایت زبان پر نہ آیا۔
مولانا کے تبحر علمی کی ایسی ہی مثالیں حیدرآباد کے ان جلسوں میں دیکھنے میں آئیں جن کا انعقاد مسیحی مشن کے جواب میں ’’تعلیم فروغ دین ‘‘ کے تحت کیا جاتا ۔ بے شمار لوگ سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ان پر سوالات کی یلغار کاغذ پر لکھ کر کرتے اور حضرت مولانا بے تکلفی سے نہایت جامع اور مختصر انداز سے ان کا جواب دیتے جاتے ۔ حضر ت مولانا سے واقف حضرات جانتے ہیں کہ جب بھی انہیں کسی میلاد شریف میں تقریر کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ اپنے سامعین سے خود دریافت فرماتے ہیں کہ کس عنوان پر کچھ سننا پسند فرمائیں گے پھر اس عنوان پر قرآن و حدیث کی روشنی میں اسناد کے ساتھ جس بے تکلفی اور قادر کلامی سے وہ تقریر فرماتے ہیں وہ انہیں کا حصہ ہے۔ ( انوار حدیث ص ۱۳)
محترم سید منیر احمد ( حیدر آباد ، سندھ ) فاضل شمسی کے حالات زندگی پر کام کر رہے ہیں وہ رقمطراز ہیں : آپ کو لطیف آباد ( حیدر آباد) میں عید میلاد النبی ﷺ کی تقریبات بارہ روز سے زائد کا اعزاز حاصل کرنے والی تنظیم انجمن شید ایا ن رسول کے قیام تاحیات سر پرستی حاصل رہی۔ آپ اس کے روح رواں تھے۔ آپ کو عید میلاد کی سالانہ تقریبات کے انتظامات کے سلسلے میں بڑی فکر رہتی تھی ۔ ایک مرتبہ مالی و سائل کی کمی کی وجہ سے آپ نے انجمن کے عہدے داران کے سامنے یہ پیش کش رکھی کہ اگر وسائل میسر نہ آئیں تو پریشان نہ ہوں میرا بنگلہ فروخت کر کے عید میلاد النبی ﷺ کی تقریبات ضرور منعقد کرنے کا اہتمام کر لیں ۔ بفضلہ تعالیٰ مالی وسائل کا بندوبست ہو گیا اور عید میلاد کی تقریبات میں کسی قسم کا تعطل نہیں ہوا۔
(روز نامہ خفیہ حیدرآباد ، ۹ ، مئی ۱۹۹۷ئ)
اقتباسات :
مولانا کی تصانیف سے چند اقتباسات بغرض استفادہ عام کیلئے یہاں درج کئے جارہے ہیں ۔ مولوی اشرف علی تھانوی نے حفظ الایمان چھ ورقی پمفلٹ میں تین مسائل پر گفتگو کی تھی۔
۱۔ سجدہ تعظیمی
۲۔ طواف قبور
۳۔ علم غیب
حضرت فاضل شمسی نے رسالہ ’’تنشیط الاذھان ‘‘ میں ان کے تینوں مسائل پر گفتگو کی ہے اور حفظ الایمان پر مناظر انہ انداز میں نہیں بلکہ خالص علمی اور تحقیقی انداز میں تنقید کی ہے ۔ اپنی گفتگو کا انداز متعین کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ اصل مسئلہ ( علم غیب ) کو اپنی دینی بصیرت اور قرآن و سنت کی مدد سے حل کریں اور استدلال میں لغزشیں دوسروں سے ہوئی اور ہماری نگاہ وہاں تک پہنچ گئی ہے ، ان غلطیوں کو طالب حق کی حیثیت سے ظاہر کردیں ۔ اس سے دوسروں کو یہ فائدہ پہنچ سکتا ہے کہ نزاعی مسائل میں اعتدال کی راہ معلوم ہو جائے گی ۔ یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ اہم مسائل میں بھی لب و لہجہ کے تشدد سے کس طرح اجتناب کیا جا سکتا ہے ہماری یہ تحریر ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے‘‘۔
(تنشیط الاذھان ص ۲۲)
تنقید کا انداز بھی ملا حظہ ہو ،’’طواف قبور ‘‘کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں :
اس مسئلہ کے سلسلہ میں مولانا (تھانوی ) نے نقطہ اول ہی سے قلم کر غلط سمت دوڑایا ہے اور آخر تک یہ تو سن بے لگام اسی راہ پر دوڑتا چلا گیا اور تھک ہار کر جہاں رکا تو معلوم ہوا کہ ساری دوا دوش ( دوڑ دھوپ ) کے نتیجہ میں بھی منزل غلط ملی ، حدیث سے استد لال بھی غلط ، شاہ ولی اللہ کے ارشاد کی توضیح بھی غلط اور حضرت جابر کا واقعہ بھی بے محل فما استمتعتم کے ذریعے نقص غلط ، کرامت و استدراج کی بحث فضول اور قول الجمیل سے کشف و قائع کا حوالہ بے کا ر وغیرہ وغیرہ ۔‘‘
(تنشیط الاذھان ص ۱۷ بحوالہ عظمتوں کے پاسبان )
ایک دوسرے مقام پر عیسائیوں کے ’’تین خداوٗ ں کے نظریہ ‘‘ کی خبر لیتے ہوئے رقمطراز ہیں :
’’تین خداوٗں کو ماننا اصل میں آریہ مذہب کا عقیدہ ہے۔ ہندو، یونانی اور مصری تین خداوٗں کے قائل تھے۔ مصری تو خدائی خاندان باپ بیٹا اور ماں کی تصویریں بنا کر پوجتے تھے۔ سامی و عبرانی قومیں جن میں بنی اسرائیل اور ان کی دونوں شاخیں یہودی اور عیسائی ہیں ایک خدا کو مانتی رہیں ۔ پرانے عہد نامے میں ہر نبی کا اعلان یہی ہے کہ خدا ایک ہے اور صرف اسی کی عبادت کرو اور انہی نبیوں کی زبانی خدائے واحد نے یہ بھی کہا کہ جو کوئی کسی کو خدا کا ساتھی اور شریک بنائے گا اور ان کی عبادت کرے گا ۔ ان کے نام کی قربانیاں ، نذر اور تپاون دے گا وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب اور قہر میں مبتلا ہو گا۔ آریہ قومیں مفرک ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو دور کر دیا۔ بنی اسرائیل بھی جب کبھی مشرکوں کی دیکھا دیکھی میں دوسرے معبودوں کی پرستش کرتے تو ان پر خدا کا عذاب آتا ۔ و حدانیت کا یہی عقیدہ مسیح علیہ السلام نے بھی دنیا کو سکھایا۔ نہ پرانے نبیوں کی تعلیم میں تین خدائی ( تثلیث ) عقیدہ ہے اور نہ انجیل میں مسیح علیہ السلام کی زبانی تثلیث کی تعلیم ہے بلکہ ان کے بعض جملوں کو توڑ مروڑ کر بعد والوں نے قسطنطین بادشاہ کے زمانے میں جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ساڑھے تین سو سال بعد ہوا تثلیث کا عقیدہ گھڑا اور انجیل کے ان دو معنی والے لفظوں کو تثلیث کیلئے سید نا عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے اشارہ سمجھا حالانکہ جب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے صاف اور واضح طور پر و حدانیت کا اعلان کر دیا ہے۔ اور ان سے پہلے تمام نبیوں نے جن کا ذکیر بائیبل میں ہے ایک خدا کا اعلان کرتے چلے آئے ہیں پھر کوئی وجہ نہیں کہ پرانے عہد ناموں اور قدیم نبیوں کو غلط ٹھہرا کر ان کو بے دین و گمراہ کہا جائے۔
قرآن مجید بھی تمام نبیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی زبانی وحدانیت کی تعلیم کی صاف خبر دیتا ہے۔ لہذا خدا کے بارے میں جو عقیدہ شروع سے آج تک تمام نبیوں کا متفقہ عقیدہ رہا ہے۔ اس کو قسطنطین کے دباوٗ اور حواریوں کی طرف منسوب جھوٹے بیانات کی وجہ سے ٹھکرا دیا گیا اور تثلیث کی بھول بھلیوں میں پڑ کر عیسائیوں نے مذہب اور عقل کا گلا گھونٹ دیا ۔۔۔۔۔۔۔ صحیح حقیقت یہ ہے کہ اصلی انجیل مسیح علیہ السلام کے بعد گم ہو گئی ۔ مسیح کے پیر و کار کسمپرسی میں پڑ کر ادھر ادھر چھپ گئے۔ آریائی قوموں نے جن کا بہت بڑا تمدنی مرکز یونان تھا ، قصہ کہانی کے طور پر لوگوں سے سن سنا کر اپنی زبان میں مسیح کے حالات جمع کئے اور اس طرح ایک انجیل کی بہت سی انجیلیں بن گئیں جو مختلف راویوں کے نام سے منسوب ہیں اور ان کے بیانات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے جس زبان میں انجیل کا پیغام سنایا ان کے حواریوں نے جس زبان میں انجیل کے پیغام کو دھرایا دنیا میں اس اصلی زبان میں انجیل نا پید ہے۔
آج جو کچھ بھی ہے وہ محض لوگوں کی زبانی قصے کہانیاں جو یاد داشت سے بیان کی گئیں اور ترجمہ در ترجمہ ہو کر شائع ہوئیں ۔ سب سے پرانی انجیل یونانی زبان میں جو زبان عیسی ٰ مسٰح کی نہیں تھی بلکہ یونانای آریوں نے اپنے خیال کے تحت جمع کیا ہے۔ اس کو بنیاد بنا کر دوسری زبانوں میں ترجمہ ہوتی ہوئی موجودہ انجیل ہے۔ ( توحید یا تثلیث ص ۶ مطبوعہ جمعیت قادریہ سکھر طبع ثانی ۱۳۸۷ھ)
وصال :
یکتا ئے روز گار فاضل مولانا سید محمد ہاشم فاضل شمسی یکم محرم الحرام ۱۴۰۹ھ بمطابق ۱۵، اگست ۱۹۸۸ء بروز کراچی میں رحلت فرما گئے علامہ مفتی قاری محبوب رجا خان رضوی ( سابق رئیس دارالافتاء دارالعلوم امجد یہ کراچی ) نے المرکز الاسلامی میں نماز جنازہ پڑھائی اور حیدر آباد لطیف آباد یونٹ نمبر ۹ میر فضل ٹاوٗن سے متصل قبرستان میں آپ کو دفن کیا گیا ۔
[حوالہ جات کے علاوہ مواد محترم سید منیر احمد صاحب حیدر آباد سے پروفیسر شاہ انجم بخاری صاحب کے توسل سے موصول ہوا، فقیر دونوں کرم فرماوٗ ں کا مشکور ہے]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )