فضلاء کے ملک و الملوک لطافت طبع میں دریا امیر حسین علاء سنجری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کی جگر سوز غزلیات عاشقوں کے دلوں کی چقماق سے محبت کی آگ نکالتی تھیں اور دلپذیر اشعار سخنوروں کے دلوں کو راحت پہنچاتے تھے۔ آپ کے روح افزا لطائف اہل ذوق کا مایہ تھا اور آپ کا کلام شیخ سعدی کی چاشتی رکھتا تھا چنانچہ آپ نے ایک بیت اسی بارہ میں کہی ہے فرماتے ہیں۔
حسن گلے ز گلستان سعدی آور دہ است
کہ اھل معنی گلچین آن گلستان اند
(حسن یہ پھول گلستان سعدی سے لائے ہیں کہ اہل معنی اسی گلستان کے گلچین ہیں۔)
مولانا حسن ہمیشہ نامدار شاعروں میں نہایت وقعت و عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور کوئی شخص لطیفہ اور نظم بالبداہتہ آپ سے بہتر نہ کہہ سکتا تھا اس عہد کے بادشاہ اور شہزادے آپ کے لطائف و ظرائف گوش ہوش سے سننے کی رغبت رکھتے تھے اور ان تمام سعادتوں کے حصول کا سبب یہ تھا کہ آپ سلطان المشائخ کے غلاموں کی سلک میں منسلک تھے اور سلطان المشائخ کی نظر خاص کے ساتھ مخصوص تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ یہ بزرگ سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس وقت مجلس اقدس میں بہت عزیز حاضر تھے سلطان المشائخ نے آپ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ میں ابھی ابھی فضلا کا ذکر کر رہا تھا کہ اتنے میں تم آگئے۔ آپ نے سلطان المشائخ کے روح افزا ملفوظات ایک نہایت عمدہ پیرا یہ میں لکھے اور حتی الامکان سلطان المشائخ کی بجنسہ تقریر کی رعایت کی ان کا نام فوائد الفواد رکھا جو آج تمام جہان کے اہل دلوں کے نزدیک نہایت مقبول و مطبوع ہیں بلکہ عاشقان الٰہی کے لیے قانون اور دستور العمل بن گئے ہیں۔ شرق سے غرب تک تمام عالم میں پھیل گئے ہیں اور گھر گھر ان کا چرچا ہو رہا ہے۔ سلطان الشعرا امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ بار ہا فرمایا کرتے تھے کہ کاش میری وہ تمام کتابیں جن میں میں نے تمام عمر صرف کی ہے برادرا میر حسن ان کے مالک ہوتے اور سلطان المشائخ کے وہ ملفوظات جو انہوں نے جمع کیے ہیں وہ میرے مقدر میں ہوتے تاکہ میں ان کی وجہ سے دنیا و آخرت میں فخر و مباہات کا جھنڈا اونچا کرتا۔ مولانا امیر حسن جب تک اس عالم میں زندہ رہے مجرد زندگی بسر کی آخر عمر میں آپ دیو گیر میں چلے گئے اور وہیں مدفون ہوئے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔