خلیفہ امیر اللہ شاہ صاحب
خلیفہ امیر اللہ شاہ صاحب (تذکرہ / سوانح)
آپ اعظم و اشہر و اکبر خلفاء تھے۔ ذات نداف۔ صورت و سیرت میں بعینہ حضرت میاں صاحب علیہ الرحمۃ کے مشابہ تھے۔ چونکہ فنافی الشیخ کے مقام میں تھے۔ اس لیے آپ کی صورت حضرت صاحب سے بہت ملتی تھی۔ جو آپ کو دیکھتا تھا۔ کہتا تھا۔ کہ گویا میاں صاحب ہیں۔ آپ بوڑیہ کے صاحب ولایت اور تہجد گزار تھے۔ مراقبہ کی ایسی مشق تھی کہ صبح سے بیٹھ کر گیارہ بجے اٹھتے تھے۔ سکرت اور استغراق مرشد پاک کے مشابہ تھے۔ درود شریف اور اللہ الصمد کثرت سے پڑھتے تھے۔ توجہ گرم تھی۔ ہتنی کنڈ میں حضرت میاں صاحب کے ساتھ مجاہدہ کیا۔ میاں صاحب قبلہ فرماتے تھے۔ کہ جب امیر اللہ شاہ بیعت ہوا۔ تو ہم نے اس سے کہا۔ کہ دنیا مطلوب ہے یا عقبےٰ۔ تو اس نے کہا کہ مجھے آخرت منظور ہے۔ سو اللہ تعالیٰ نے اسے درویشی دی۔
آپ سخی خلیق بے طمع تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ بوڑیہ میں جو رئیس سکھ رہتا تھا اس کی لڑکی پر جن کا اثر تھا۔ اس بے کہلا بھیجا کہ میں آپ کے لیے پالکی اور سو روپے نقد بھیجوں۔ آپ ذرا میری لڑکی پر دم کر جائیں۔ آپ نے عذر کیا اور ہر گز نہ گئے۔ اور کہلا بھیجا کہ پانی دم کرا کر لے جاؤ۔ فرمایا کہ پیر کےحکم سے یہاں بیٹھا ہوں۔ اگر تو ستائے گا۔ تو کہیں چلا جاؤں گا۔
حقیقت قرآن کا فیض:
ذکر خیر میں بعنوان نقل صحیح لکھا ہے۔ کہ خلیفہ امیر اللہ شاہ صاحب جو محض ان پڑھ تھے ایک مرتبہ رمضان شریف میں اپنے وطن قصبہ بوڑیہ میں ایک حافظ سے قرآن شریف سن رہے تھے۔ حافظ نے بھول کر ایک آیت چھوڑدی۔ خلیفہ امیر اللہ شاہ نے وہ آیت اسے بتادی۔ وہ صحیح کر کے آگے پڑھتا چلاگیا۔ ایک مقام پر پھر اسے متشابہ لگا۔ خلیفہ صاحب نے وہ بھی بتادیا۔ جب نماز سے فارغ ہوچکے۔ تو لوگوں نے پوچھا۔ یا حضرت آپ تو پڑھے ہوئے نہیں۔ پھر یہ آیتیں کیسے بتادیں۔ انہوں نے سکوت کیا۔ اور اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ لوگوں میں اس بات کا چرچا ہوا۔ کسی نے حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ سے بھی عرض کردیا۔ آپ نے خلیفہ صاحب کو بلایا۔ اور دریافت فرمایا۔ کہ امیر اللہ شاہ! وہ حافظ والی بات کیونکر تھی۔ وہ ڈر گئے مبادا حضور ناراض ہوں۔ حضرت صاحب علیہ الرحمۃ نے فرمایا۔ نہیں ہم تم کو کچھ نہیں کہیں گے۔ تم اطمینان کے ساتھ وہ بات سناؤ۔ تب انہوں نے عرض کیا کہ حضور! میں حسب عادت نماز میں حقیقت قرآن کا فیض جو لوح محفوظ پر پڑ رہا تھا اپنے دل پر لینے لگا تھا۔ آیتوں کے الگ الگ ٹکرے میں دیکھ رہا تھا۔ کہ حافظ پر اور مجھ پروارد ہو رہے ہیں۔ حافظ نے ایک آیت نہیں پڑھی تھی۔ اس کا ٹکڑا میرے سامنےتو آیا اور اس حافظ کی طرف نہ گیا۔ میں اس سے سمجھ گیا کہ حافظ یہ آیت بھول گیا ہے۔ چنانچہ میں نے اس ٹکڑے کو دیکھ کر بتادیا۔ آپ نے فرمایا۔ کہ یہ بات ٹھیک ہے۔ لیکن تم نے تو حقیقت قرآن کا مراقبہ کیا۔ تب یہ بات نصیب ہوئی۔ اور ہمارا ڈیرہ ہر وقت وہیں رہتا ہے۔ پر ہم نے آج تک یہ بھید ظاہر ہونے نہیں دیا۔ اور تونے اتنی سی بات کا ہی شور مچادیا۔ فقیر کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے فقیر فتنہ خلق ہوجاتا ہے۔ اعمال نیک کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں لگا رہے اور ایسی باتوں کو چھپائے رکھے۔ خبر نہیں قیامت کے دن کیا معاملہ پیش آئے۔ بندہ کو ہمیشہ خوف و رجا کے درمیان رہنا چاہیے۔ نفس و شیطان و دشمن ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھے۔ اور مغفرت کی دعا کرتا رہے۔ اندیشہ ہے کہ شیطان دشمن کا کہیں داؤ نہ چل جائے۔ کیونکہ گر ایسی باتوں پر فخر آجائے۔ تو خطرہ ہوجاتا ہے۔ انتہےٰ۔
مرشد کی خفگی:
آخر حیات میں حضرت میاں صاحب قبلہ خلیفہ صاحب سے ناراض ہوگئے جس کا قصہ جناب مولوی سید ظہور الدین صاحب انبہٹوی نے یوں لکھا ہے۔ تجربہ سے یہ امر ثابت ہوا ہے۔ کہ جس مرید یا مستفید سے کسی وجہ سے حضرت سائیں صاحب کے دل میں کشیدگی واقع ہوتی تھی۔ اس کی تمام کیفیات سلب ہوجاتی تھیں۔ چنانچہ اس احقر نے تین چار خلیفوں کی یہی حالت دیکھی۔ خلیفہ امیر اللہ شاہ صاحب حضرت کے خلیفہ اول بلکہ بقول شاہ صاحب مرتبہ میں ایک ہی تھے۔ آپ کی حرکات و سکنات حضرت سائیں صاحب کے مشابہ ہوگئی تھیں۔ رنگت میں ذرا فرق تھا۔ ورنہ پیچھے سے چال ڈھال سے یہ معلوم ہوتا تھا۔ کہ شاہ صاحب قدس سرہ جا رہے ہیں یا بیٹھے ہیں۔ خلیفہ صاحب کو نکاح کی ضرورت ہوئی۔ حضرت سائیں صاحب کے گھر میں ایک عورت رہتی تھی۔ حضرات معتقدین نے اس عورت سے نکاح کی تجویز کردی۔ دونوں باہم رضا مند ہوگئے۔ طلب اجازت پر سائیں صاحب کو جب علم ہوا۔ آپ نے خلیفہ صاحب کو منع کیا۔ مگر مسجد میں میانجیو عبد الرحیم صاحب جو آپ کے چچا پیر اور امام مسجد تھے انہوں نے اس نکاح کو مناسب سمجھ کر پڑھادیا۔ نکاح خواں یہ احقر تھا۔ مجھ کو اس قصہ کی خبر ہی نہ تھی۔ میں نے معمولی امر سمجھ کر نکاح پڑھادیا۔ شاہ صاحب اس نکاح کو معلوم کر کے گھبرا گئے۔ اور ناراض ہوگئے۔ مجھے خبر ہوئی۔ تو حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ خفا ہو رہے تھے۔ میں عرض کیا۔ کہ نکاح ہی کیا میانجیو صاحب نے کرایا۔ اور میں نے پڑھا۔ کوئی ناجائز کام تو نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا۔ مولوی! تجھ کو خبر نہیں۔ میں نے امیر اللہ شاہ کو اس جگہ نکاح کرنے سے منع کیا تھا۔ اس نادان نے یہ نہ سمجھا کہ ہم جو شرعی نکاح سے منع کرنے والے ہیں۔ آخر اس ممانعت میں کوئی راز ہوگا۔ اس نے پیر کے کہنے کا خیال نہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے۔ کہ میں دعا کر رہا ہوں۔ کہ اس کی نعمت اور فیض اس کے پاس رہے۔ مگر دریا کے دریا فیض کے اس کی طرف سے ہماری طرف آرہے ہیں۔ خدا کی مرضی۔ مولوی! میں تم سے کہے دیتا ہوں کہ یہ عورت اس کے گھر میں نہ رہے گی۔ ادھر خلیفہ امیر اللہ صاحب بالکل کورے ہوکر مکھیاں مارنے لگے۔ روئیں بلبلائیں۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر بہت ہی عرض کیا۔ اور خلاف سنت و خلاف شرع غصہ ہونا بیان کیا۔ حضور نے معاف کردیا۔ مگر دو ماہ بلکہ زیادہ عرصہ میں خلیفہ صاحب اصل حالت پر آئے۔ اور اس عورت سے دو دن بھی اتفاق نہ ہوا۔ مجبوراً علیحدگی ہوئی۔ حضرت کا نافرمان کبھی حضور سے خطا معاف کرائے بغیر مراد کو نہ پہنچتا تھا۔ انتہےٰ بلفظہ۔
وصال مُبارک:
جناب مولوی سراج الدین احمد صاحب لکھتے ہیں کہ خلیفہ امیر اللہ شاہ صاحب دعا فرمایا کرتے تھے۔ کہ الٰہی میری موت ماہ رمضان میں اور انبالہ میں زیر اقدام حضرت صاحب ہو۔ سو بحکم آنکہ مولانا گوید ؎ مےدہد یزداں مراد متقی۔ آپ بیمار ہوکر بوڑیہ سے انبالہ آئے۔ اور 1310ھ میں بعد عصر تسبیح درود شریف یا سبحان اللہ پڑھتے تھے کہ حالت نزع شروع ہوئی۔ اور یہ رات کے آٹھ بجے انتقال فرمایا۔ حضرت صاحب وقت پر حاضر تھے۔ جس وقت ان کے طائر روح نے قفس تن کو چھوڑا۔ تو صدائے اللہ اللہ بلند ہوگئی تھی۔ انتہےٰ۔
جناب مولوی سید ظہور الدین صاحب نے ایک پوسٹ کارڈ میں یوں لکھا ہے۔ حضور کی زبان مبارک سے 1894ء تک یہ یاد ہے۔ کہ حضور نے ایک مرتبہ عالم رؤیا میں دیکھا کہ آپ کے ہاتھ پر ایک آفتاب غروب ہو رہا ہے۔ امیر اللہ شاہ صاحب مرحوم بیمار تھے۔ حضرت نے مجھ سے فرمایا۔ کہ مولوی! امیر اللہ اس مرتبہ تندرست نہ ہوگا۔ بلکہ واصل بحق ہوگا۔ پھر یہ معاملہ بیان کر کے فرمایا۔ کہ مولوی! دراصل میرا تو خلیفہ ایک امیر اللہ شاہ ہی ہے۔ انتہےٰ۔ آپ کا مرقد مبارک انبالہ ہی میں ہے۔
بعد وصال کرامت:
حاجی غلام محمد صاحب سجادہ نشین نے راقم الحروف سے ذکر کیا۔ کہ خلیفہ امیر اللہ شاہ رحمۃ اللہ کے مزار مبارک کے متصل قاسم علی نمبر دار انبالہ کی زمین ہے۔ نمبر دار موصوف کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں نے کچھ فاصلہ پر مزار مبارک کی طرف منہ کر کے پیشاب کردیا۔ میں اسی وقت اندھا ہوگیا۔ مجھے کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ آخر کار میں نے نہایت عاجزی سے توبہ کی۔ تو بصارت بحال ہوگئی۔ نمبر دار مذکور اس وقت زندہ ہے۔
(مشائخ نقشبند)