شاہ مراد بن دانیال بے: امیر معصوم لقب اور بیگ جان عرف تھا۔ منقیت(یا منغیت) قبیلے سے تعلق تھا،سلطنت بخارا کے حکمران تھے۔سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ سے منسلک بڑے صوفی منش اور درویش صفت انسان تھے۔ شعبان ۱۱۹۹ھ میں عنان حکومت سنبھالی۔انہوں نے اپنا آبائی ورثہ لینے سے انکار کردیا اور حکم دیا کہ اسےغرباء میں تقسیم کردیا جائےاور جہاں تک ممکن ہو ان لوگوں کو دیا جائے جن سے یہ جبر اًلیا گیا تھا۔اپنے والد کی زیادتیوں کو تلافی کے لیے شہر میں گھوم کر متأثرہ افراد سے معافی مانگی۔اوائل عمر ہی سے انہیں علماء فقہاء اور صوفیاء کی مجالس پسند تھیں۔اپنے محل میں بھی امیر معصوم شریعت کی پوری پابندی کرتے اور خلفائے راشدین کے نمونے پر اعتدال اور تقوےٰ کی مثال پیش کرنے کی کوشش کرتے۔بادشاہ ہونے کے باوجود انتہائی سادہ اور کم قیمت لباس پہنتے اور خوراک بھی سادا ہوتی۔ان کا اپنا خرچ ایک تنگہ[1] روزانہ تھا۔ان کے ہر ملازم کو بھی یہی تنخواہ ملتی۔اس دور میں بخارا کے مدارس میں طلبہ کی تعداد تیس ہزار سے زائد تھی،ہر مستحق طالب علم کو بھی خرچ کے لیے ایک تنہ روزانہ ملتا۔انہوں نے رئیس شریعت کا عہدہ دوبارہ قائم کیا۔محتسب بازاروں میں گشت کرتے۔نماز نہ پڑھنے والوں کو سزا دی جاتی،شراب اور تمبا کو نوشی ممنوعی تھی،زکوٰۃ اور عشر کا بہت اچھا نظام قائم تھا، رعایاخوشحال تھی۔۴؍رجب ۱۲۱۵ھ کو انتقال ہوا۔
آپ نے ایک کتاب عین الحکمۃ تصنیف کی۔نیز ان کی زیر نگرانی علماء کی ایک جماعت نے فتاویٰ معصومیہ المعروف بہ فتاویٰ اہلِ بخارا مرتب کی۔اس مجلس میں قای امیر عنایت اللہ،قاضی امیر فضیل،سید امیر اللہ ابو النصر،قاضی خواجہ ترسون باقی،قاضی عسکر خواجہ داملا قربان بدل،قاضی امیر عبداللہ،شیخ داملا نیاز قل، قاضی امیر عبدالوہاب،قاضی امیر عبد الرحمٰن العالم اور خلیفہ داملا محمد عوض وغیرہ شامل تھے۔قاضی محمد عطاء اللہ ولد محمد یوسف مسودہ لکھا کرتے۔اس مجلس میں مزید علماء شامل ہوتے رہے۔بعض اوقات یہ تعداد بیس تک پہنچ جاتی۔
ان حضرات کو سفر میں بھی امیر معصوم ساتھ رکھتے۔حوالے کی کتب بھی ساتھ رہتیں،ہر منزل پر بعد ظہر مجلس لگتی،کتاب کا ایک ورق پڑھا جاتا۔اس پر بحث و تمحیص ہوتی،پھر جو فیصلہ ہوتا وہ لکھ لیا جاتا اس طرح کتاب مکمل ہونے والی تھی کہ امیر معصوم کا انتقال ہوگیا،چنانچہ ان کے جانشین امیر حیدر عرف امیر سعید کے دور میں کتاب مکمل ہوئی۔
1۔ چاندی کا تقریباً ۳؍ماشہ وزنی سکہ ۱۲
(حدائق الحنفیہ)