عنقوذہ جوجناب عائشہ کی لونڈی تھیں،صرف ابوموسیٰ نے ان کا علیحدہ ترجمہ لکھاہے،اور کہا ہے کہ جعفر نے بھی ان کا ترجمہ تحریری کیا ہے،اس حدیث کے اسناد میں شبہ
ہے۔
حمید بن حوشب نے حسن سے،انہوں نے حضرت علی سے روایت کی،کہ جب حضور سرورِکائنات نے معاذ بن جبل کویمن میں حاکم بناکر بھیجنے کا ارادہ کیا،تو ایک دن نماز صبح کے
بعد ہماری طرف رُخ پھیر کر فرمایا،اے گروہ مہاجرین و انصار!یمن میں فرائض حکومت ادا کرنے کے لئے کون جانا چاہتا ہے،حضرت ابوبکر نے خود کو پیش کیا،تو آپ خاموش
رہے،حضورِاکرم نے پھر اپنی بات کو دہرایا،تو معاذ بن جبل اُٹھے،فرمایا،ہاں تم اس منصب کے لئےموزوں ہو،اور یہ منصب تمہارے لئے،اس لئے تیاری کرو،چنانچہ حضورِاکرم
صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین کے علاوہ مختلف گروہوں نے ان کی مشایعت کی۔
آپ نے فرمایا،اے معاذ میں تجھے بطور ایک شفیق اور مہربان دوست کے وصیت کرتاہوں،کہ اللہ سے ڈرنا،حسن عمل،نرم گفتاری،امانت اور راست گوئی کے اوصاف کا اپنانا،اے
معاذ!لوگوں کے لئے معاملاتِ دین میں آسانی پیدا کرنا،اور دقتوں سے پرہیز کرنا۔
نیز راوی نے حضورِاکرم کے وفات کے بارے میں ایک لمبی حدیث بیان کی۔
معاذ بن جبل یمن سے واپس آئے،تو رات کا وقت تھا،وہ سیدھے جناب عائشہ کے گھر گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا حضرت عائشہ نے دریافت کیا ،کون ہے،رات کو دروازے پر دستک
دینے والا،انہوں نے کہا میں معاذ ہوں جناب عائشہ نے لونڈی سے کہا،اے عنقوذہ!دروازہ کھول۔
اس حدیث کو عبداللہ بن عمر نے بھی روایت کیا ہے،لیکن انہوں نے لونڈ ی کانام عفرہ لکھاہے، ہم انشاء اللہ اس کاذکر بھی کریں گے،ابوموسیٰ نے اس کا ذکر کیا ہے۔