عارفہ کاملہ بی بی لَلَہ کشمیری قدس سرہ
عارفہ کاملہ بی بی لَلَہ کشمیری قدس سرہ (تذکرہ / سوانح)
آپ خطۂ کشمیر بے نظیر کی عارفہ کاملہ تھیں، آپ بی بی ملالی کے نام سے شہرت رکھتی تھیں، کشف القلوب اور کشف قبور میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں، خوارق و کرامت میں اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی، آپ کے والدین نے سلطان رنجو شاہ کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا اور حضرت بل بل شاہ کشمیری جنہوں نے وادیٔ کشمیر میں اسلام پھیلایا تھا کی خدمت میں حاضر ہوئیں بی بی لَل بھی اپنے والدین کے ساتھ ہی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس وقت آپ کی عمر نو سال تھی، حضرت بل بل شاہ نے آپ کو اپنی بیٹی بنالیا، اور بڑی نظرِ شفقت رکھتے تھے، آپ فرمایا کرتے تھے کہ لَلَ بی بی عارفہ کاملہ ہوں گی، آپ جوان ہوئیں تو والدین نے آپ کی شادی ایک ایسے شخص سے کی جو آپ کے مقام اور عرفان سے ناواقف تھا، بی بی لَلہ ظاہر میں گھر کا کام کاج کرتیں مگر رات بھر یاد خداوندی میں مشغول رہتیں دن کے وقت کام کے دوران میں یاد خداوندی سے غافل نہ ہوئیں لیکن حتی الوسع کوشش کرتیں کہ ان کے مقام سے کوئی شخص واقف نہ ہو، مگر جب جاذب حقیقی نے اپنی طرف زیادہ کھینچا تو ظاہری امور خانہ داری سے دور رہنے لگی اس طرح آپ کے رشتہ دار اور خاوند آپ سے بیگانہ رہنے لگے تعلقات خراب ہوگئے ، حتی کہ آپ کے خاوند کو آپ سے دلی ناراضگی پیدا ہوگئی اور وہ دل ہی دل میں آپ سے کینہ رکھتا۔
ایک دن آپ چشمہ آب سے پانی کا گھڑا سر پر اٹھائے پانی لا رہی تھیں، خاوند پیچھے سے آیا اور آپ پر زور سے ایک لاٹھی ماری، گھڑا ٹوٹ گیا مگر اللہ کے حکم سے پانی منجمد ہوگیا، جو گھر لے آئیں، اور اسی پانی سے گھر کی ضروریات کو پورا کیا صحراء میں جہاں پانی کے چند قطرے گرے وہاں سے چشمہ آب جاری ہوگیا۔
جس سے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچنے لگا، آپ کی اس کرامت کو دیکھ کر لوگ جوق درجوق آپ کی زیارت کو آنے لگے دور نزدیک شہرت ہوئی آپ کے گھر کے اردگرد سینکڑوں ضرورت مند بیٹھے رہتے، اس صورت حال نے آپ کے معمولات پر اثر ڈالا اور گھر کا سکون بھی درہم برہم ہوگیا آپ نے گھر سے مکمل طور پر ترک تعلقات کرلیا اور یاد حق میں مشغول ہوگئیں دن رات ویرانوں میں پھرتی رہتیں اپنے اور بیگانوں سے رخ پھیرلیا حتی کہ کھانا اور پینا بھی چھوڑ دیا گیا بیابانوں میں برف و باران کے دوران لباس اور خوراک سے بے نیاز گھومتی رہتیں، بے خور و خواب بادل پر پیچ و تاب بسر اوقات کرتیں، بسا اوقات حالت جذب و سکر میں عاشقانہ اشعار پڑھتی رہیں کشمیری زبان میں جو اشعار سنتا، بے خود ہوجاتا، آپ کو دنیا اور اہل دنیا تو کیا اپنے آپ سے کی بھی خبر نہ ہوئی۔
ایک دن بی بی لَلَ حالت سُکر و مستی میں عریاں بازار میں گھوم رہی تھیں، ناگاہ دور سے حجرت بلبل شاہ آتے دکھائی دیے ڈر گئیں، اور چیخ کر کہنے لگیں لوگوں مجھے کپڑے پہناؤ مرد آگیا مرد آگیا میں ننگی ہوں مجھے شرم آتی ہے بازار سے بھاگ کر ایک نانبائی کی دکان میں گھس گئیں، وہاں ایک تنور گرم تھا اس میں کود گئیں، اور آگ کے شعلوں میں جا بیٹھیں لوگ دوڑے دوڑے آئے کہ لَلَ بی بی جل گئی دیکھا تو آپ تنور میں بڑٗ سکوں سے بیٹھی ہیں، حضرت بلبل شاہ بھی اس صورت حال کو دیکھ کر آئے فرمایا لَلہ بیٹی یہ کیا شور ہے جو جہاں میں ڈال رکھا ہے، تنور سے باہر نکلو اور اپنا کام کرو، لَلہ آپ کی بات سن کر تنور سے باہر نکل آئیں لوگوں نے دیکھا کہ آپ کے جسم میں خوبصورت لباس بدن پر چادر اور سر پر سرخ رومال بندھا ہوا ہے، حضرت کو دیکھ کر کہنے لگیں، میں نے آپ کو دیکھا کہ بازار میں تشریف لا رہے ہیں تو کپڑے پہننے ضروری ہوگئے تھے، مجھے اور کوئی جگہ نہ ملی تو تنور میں آ بیٹھی۔
آپ ۷۵۶ھ میں فوت ہوئیں، یہ زمانہ سلطان شہاب الدین بادشاہ کشمیر کا تھا۔ تواریخ اعظمی کے مولف نے آپ کی وفات کا واقعہ لکھا ہے کہ جس جگہ آج جامع مسجد بجبارہ بنی ہوئی ہے اسی جگہ آپ آئیں، بہت سے لوگ وہاں موجود تھے، آپ نے حاضرین کو فرمایا یہاں سے سب لوگ چلے جائیں اور مجھے یہاں تنہا رہنے دو، لوگ چلے گئے تو آپ کے جسم عنصری سے نور کا شعلہ اٹھا جو آسمانوں تک پہنچا، یہ آپ کی روح تھی جو جسم سے جدا ہوئی۔
چون بجاناں واد جاں شد در بہشت |
|
لَل دوی مجذوبۂ عالی مکان |
اگرچہ اس عارفہ وقت کا عارفانہ کلام کشمیر کے صغیر و کبیر کی زبان پر ہے مگر ہم آپ کا ایک شعر تبرکا تیمنا درج کرتے ہیں جو اہل ذوق کی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
لا الہ یو زم گیویم و سوسہ الا اللہ یو زم گیویم شہ
سجود ترا دم موجود درقم او نو عاصی لَل لا مکان
ترجمہ میں نے جب لا الہ کو سمجھ لیا تو میرے دل میں وسوسے پیدا ہونے لگے، جب میں نے الا اللہ کو سمجھ لیا تو میرے شبہات جاتے رہے، میرا دل مطمئن ہوگیا، میں نے سجدہ چھوڑا تو مسجود کو پالیا، واحد کا تصور کیا، تو موجود کو پالیا، اب اس حال میں لَل مکان سے لا مکان پر ہے۔
(حدائق الاصفیاء)