الشفاء دخترعبداللہ بن عبد شمس بن خلف بن صداد بن عبداللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوئی قرشیہ عدویہ ام سلیمان بن ابو حثمہ،ایک روایت میں ان کا نام لیل
مذکور ہے،قدیم الاسلام ہیں،حضور صلی اللہ علیہ وسلّم سے بیعت کی،اور ہجرت کی،ان کی والدہ کا نام فاطمہ دختر ابو وہب بن عمرو بن عائد بن عمر بن مخزوم تھا،یہ
خاتون عقلمند اور فاضلہ تھیں،اور حضوراکرم ان کے یہاں تشریف لایا کرتے تھے،انہوں نے آپ کے لئے ایک بستر اور چادر رکھی ہوئی تھی،جس میں حضورِ اکرم آرام
فرماتے،اور یہ چیزیں ان کے پاس رہیں،تا ٓنکہ مروان نے ان سے لے لیں،اوریہ خاتون چیونٹیوں کے دفعیہ کا منتر جانتی تھیں،حضورِاکرم نے فرمایا کہ وہ منتر جناب حفصہ
کو سکھادیں۔
حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکاکین کے قریب ایک مکان مرحمت فرمایا تھا،جس میں وہ اپنے بیٹے سلیمان کے ساتھ منتقل ہوگئی تھیں،اور حضرت عمر رضی اللہ
عنہ ان کے پاس مشورے کے لئے آتے اور ان کی رائے کو پسند فرماتے،ان سے ابوبکر ،عثمان اور ان کے بیٹے سلیمان بن ابوحثمہ نے روایت کی۔
ابویاسر نے باسنادہ عبداللہ بن احمد سے،انہوں نے اپنے والد سے،انہوں نے ہاشم بن قاسم سے، انہوں نے مسعودی سے،انہوں نے عبداللہ بن عمیر سے،انہوں نے ایک آدمی
سےجو بنوابوحثمہ سے تھا،انہوں نے شفاء دختر عبداللہ سے روایت کی،کہ حضورِاکرم سے پوچھا گیا،بہترین عمل کونساہے؟ آپ نے فرمایا،ایمان باللہ،جہاد فی سبیل اللہ اور
حج مبرور۔
اوزاعی نے زہر ی سے ،انہوں نے ام سلمہ سے،انہوں نے شفا دختر عبداللہ سے روایت کی کہ میں حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ مانگنے کو حاضر ہوئی،حضور
نبی کریم معذرت فرمارہے تھے،اور میں شکایت کئے جا رہی تھی،اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا،میں وہاں سے نکل کر اپنی بیٹی کے پاس آئی،وہ شرحبیل بن حسنہ کی زوجہ
تھی،میں نے شرحبیل کو گھر میں پایا،میں اسے بُرا بھلا کہنے لگی،کہ نماز کا وقت ہوگیاہےاور تم گھر میں کیا کررہے ہو،انہوں نے کہا خالہ جان آپ ناراض نہ ہوں،میرے
پاس ایک ہی کپڑا تھا،جو حضور نے عاریتہً طلب فرمالیا،اب کیا کرتا،میں نے دل میں کہا، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں،مجھے کیا علم کہ آپ کس حال میں ہیں،میں خواہ
مخواہ گِلہ کرتی رہی،شرحبیل کہنے لگے ہمارے پاس ایک زرہ تھی جسے ہم نے بانٹ لیا تھا۔
سلیمان بن عفان بن ابوحثمہ نے شفاء سے درخواست کی کہ میں زمانۂ جاہلیت میں ایک منتر پڑھا کرتی تھی جب مکے میں،مَیں نے اسلام لا کر حضورِاکرم سے بیعت کی،تو ایک
دن خدمت اقدس میں حاضر ہوئی،اور گزارش کی یارسول اللہ،میں جاہلیت میں ایک منتر پڑھا کرتی تھی،جسے میں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتی ہوں،آپ نے اجازت دے دی،وہ
منتر چیونٹیوں کے دفعیہ کا تھا،آپ نے اجازت دے دی اور فرمایا حفصہ کو سکھادو،منتر یہ تھا،"اَللّٰھُمَّ صَلُّوصُلبَ جَبَرٍتعُوذَامِن
اَفوَاھِھِافَلَاتَضَرَّااَحَداً،اَلّٰھُمَّ اکشِف البِاسَ رَبَّ النَّاسِ "پھر بتایا، کہ اسے مصطگی کے ٹکڑے پر سات بار پڑھو اور پھر اسے ایک صاف جگہ پر رکھ دو
اور پھر اسے ایک پتھر پر شراب کے ترش سرکے میں رگڑو اور چیونٹیوں پر چھڑک دو،تینوں نے ذکر کیا ہے۔