(سیّدہ)اسماء(رضی اللہ عنہا)
(سیّدہ)اسماء(رضی اللہ عنہا) (تذکرہ / سوانح)
اسماءدختر نعمان بن جون بن شراحیل،بقولِ ابوعمران کا نام اسماءدختر نعمان بن اسود بن حارث بن شراحیل بن نعمان تھا،ابن الکلبی کے مطابق،اسماء دخترِنعمان بن حارث بن شراحیل بن کندی بن جون بن حجر آکل المراء بن عمرو بن معاویہ بن حارث الاکبر کندبہ تھا،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نکاح کیا ،تو اس نے آپ سے اظہار بیزاری کیا،جس پر آپ نے اسے علیحدہ کردیا۔
یونس نے ابنِ اسحاق سے روایت کی کہ رسولِ کریم نے کعب جونیہ کی بیٹی اسماء سے نکاح کیا،اور دخول سے پہلےہی اسے طلاق دے دی،ابوعمر لکھتے ہیں،کہ اس پر تو سب کا اتفاق ہے،کہ آپ نے کعب بن جونیہ کی بیٹی سےنکاح کیا،لیکن اس میں اختلاف ہے،کہ علیحدگی کی وجہ کیا تھی،قتادہ لکھتے ہیں کہ آپ نے کعب بن جونیہ کی لڑکی سے نکاح کیا،جب رات کو اس کے کمرے میں داخل ہوئے،تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے بُلا کر طلاق دیدی،بعض کا خیال ہے،کہ اسے عامریہ کی طرح برص کا عارضہ تھا،چنانچہ آپ نے اسے بھی عامریہ کی طرح فارغ کردیا،بعض کہتے ہیں کہ اسماء نے آپ کو دیکھ کر نعوذباللہ منک کہا،آپ نے فرمایا،تو نے مجھے دیکھ کرخداسے پناہ طلب کی،اور خدا نے تجھے پناہ دےدی،چنانچہ آپ نے طلاق دے دی،قتادہ اس روایت کو غلط قرار دیتےہیں،ان کے مطابق یہ الفاظ کہنے والی عورت بنو بلغبر ذات الشقوق کے جنگی قیدیوں سے تھی،چونکہ وہ خوش شکل تھی،اس لئے ازواج مطہرات کو یہ خطرہ پیداہوگیاکہ اگر وہ ان میں شامل ہوگئی،تو ان کی قدرو قیمت گھٹ جائے گی،اس لئے انہوں نے یہ کلمہ اسےسکھادیا،کہ آپ کو یہ الفاظ بہت پسند ہیں،چنانچہ اس طرح اسےطلاق ہوگئی،میرے خیال میں یہ کہانی قطعاً بے اصل ہے،(مترجم) قتادہ لکھتے ہیں،بقول ابو عبیدہ ان دونوں عورتوں نے یہ الفاظ استعمال کیے تھے۔
عبداللہ بن محمد نکیل کا قول ہے،کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بنو کندہ کی ایک عورت سے جس کا نام شقیہ تھا،نکاح کیا،اس نے آپ سے درخواست کی،کہ اسے میکے واپس بھیج دیا جائے،چنانچہ آپ نے ابو اسید الساعدی کے ساتھ اسے اس کے اہل قبیلہ کے یہاں لوٹادیا،اور یہ خود اپنے آپ کو شقیہ کہتی تھی،اور جس عورت نے آپ کو"نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْکَ"کے الفاظ سے مخاطب کیا تھا،وہ بنو کندہ سےتھی،جسے حضور نے طلاق دے دی تھی،اس سے مہاجر بن ابی امیہ مخزومی نے نکاح کرلیا تھا، اس کے بعدقیس بن مکشوح المرادی نے اسے اپنی زوجیت میں لے لیا تھا،بعض اور لوگوں کا خیال ہے کہ یہ الفاظ کہنے والی عورت بنو عنبر سے تعلق رکھتی تھی،کچھ لوگوں کا خیال ہے،کہ وہ عورت مبروصہ تھی،اس لئے آپ نے اسے علیحدہ کردیاتھا۔
ایک روایت میں ہے،کہ آپ نے اس عورت سےکہا،کہ تو اپنا نفس مجھے بخش دے،اس نے (نَعُوْذُ بِاللہِ)آپ سے مخاطب ہو کر کہا،کہ ایک ملکہ اپنا نفس،رعیت کے ایک آدمی کو کیسے بخش سکتی ہے، اس پرآپ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا،تواس نے مذکورہ الفاظ استعمال کئے ،چنانچہ آپ نے اس سے علیحدگی اختیارکرلی۔
ابوعمر کا قول ہے،کہ کندیہ کے بارے میں اہل علم میں زبردست اختلاف ہے،بعض نے اس کا نام اسماء تحریر کیا ہے،اور بعض نے امیمہ،اور اسی طرح اور ان خواتین کے بارے میں سخت اختلاف ہے،جس سے آپ جمع نہ ہو سکے٘٘٘٘٘محمد بن محمدبن علی اور مسمار بن عمر بن عویس وغیرہ نے باسنادہم تا امام بخاری،انہوں نے حمیدی سے،انہوں نے ولید سے،انہوں نے اوزاعی سے روایت کی،کہ انہوں نے زہری سے دریافت کیا،کہ وہ کونسی عورت تھی،جس نے حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے خداکی پناہ مانگی تھی،انہوں نے کہا،مجھے عروہ نے حضرت عائشہ کی زبانی بتایا، کہ جب بنو جون کی ایک خاتون ازواج نبی میں شامل ہوئی،تو آپ اس کی خلوت میں داخل ہوئے تو اس نے اعوذ باللہ منک کے الفاظ استعمال کئے،اور آپ نے اسے طلاق دے دی۔
امام بخاری نے ابونعیم سے،انہوں نے عبدالرحمٰن بن غسیل سے،انہوں نے حمزہ بن ابو اسید سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی،کہ ہم ایک بار حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باہر کو روانہ ہوئے،ایک دیوار شوط نامی کے پاس پہنچے،حضور نے فرمایا،تم یہاں بیٹھ جاؤ،آپ ایک گھر میں داخل ہوئے،وہاں سے جونیہ کی خاتون کے ساتھ ایک اور گھر میں داخل ہوئے،جس میں کھجور کا ایک درخت تھا،اس عورت کے ساتھ ساتھ اس کی محافظ دایہ بھی تھی،جب آپ نے اس عورت سے کہا،کہ تو اپنانفس مجھے بخش دے،تو اس نے کہا،کہ ایک ملکہ اپنا نفس ایک عام آدمی کو کیسے بخشے، اس پر آپ نے اسے تسلّی دینے کے لئےاپنا ہاتھ بڑھایا،تو اس نے مذکورہ بالا الفاظ کہے،آپ اسے چھوڑ کر باہر آگئے،اور ابو اسید سے مخاطب ہو کر فرمایا،اے ابواسید!دوکپڑے دے کر اسے اس کے قبیلے میں چھوڑآ،امام بخاری نے اس کا نام امیمہ بتایاہے،ایک روایت میں عمرہ بھی آیا ہے،اس کا ذکر بعد میں آئےگا،ابو نعیم،ابوعمر اور ابوموسیٰ نے اس کا ذکر کیا ہے،ابن مندہ نے اس کانام امیمہ لکھا ہے۔