حضرت بابا صلاح الدین بن حضرت عین الدین المعروف آئین دان ۱۳۲۰ ھ بمطابق ۱۹۰۲ء کو بمقا م اندرون ریاست چترال جبلی علاقہ دشوار گذار ( صوبہ سرحد ، پاکستان ) میں تولد ہوئے ۔ آپ کے والد عالم دین و صوفی بزرگ تھے اور پہلے عالم تھے جو کہ اتالیق مہتر چترال کے عہدہ پر بھی فائزر ہے اور آپ نے دین کی عظیم الشان خدمت انجام دیں ۔ آپ کا وصال بلخ میں ہوا اور وہیں آپ کی دائمی آرام گاہ ہے ۔
تعلیم و تربیت :
زعفران کی کاشت جووراثتا آپ کیلئے ذریعہ معش تھی کچھ عرصہ تک ماموررہے ۔ بعد میں اپنے دونوں بڑے بھائیوں شکر اللہ اور ابدال الدین اور اپنی چھوٹی ہمشیرہ طاہرہ بی بی کے سپرد کرکے حصول تعلیم کی غرض سے اسلامیہ اسکول پشاور میں داخل ہوگئے ۔ جہاں سے سند امتیازی میٹرک کی حاصل کی تو حکومت چترال نے آپ کو علی گڑھ حصول تعلیم کے لئے بھیج دیا گیا۔ جہاں سے آپ نے بی ۔ اے تک تعلیم حاصل کی ۔ مگر سوئے اتفاق کہ تعلیم منقطع کرنی پڑی ۔ اس کا سبب یہ بتایا گیا کہ ایک محفل مذاکرہ قائم ہوئی فس میں طلباء کو اظہار خیالوت کی دعوت دع گئی ۔ جس کا موصوع تھا ’’حصول علم دین کے بعد حصول علم دنیا ضروری ہے ‘‘ اور انعقاد بھیکم پور ہول مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ہوا ۔
لہذا کسی سے مشورہ کئے بغیر خود فیصلہ کیا کہ حصول علم دین کے لئے کیوں نہ آغاز کیا جائے ۔ پس ایک انقلاب زندگی کو ہم آغوش کئے ہوئے دیوبند پہنچے ۔ وہیں طالب علم بن گئے اور مولو ی حسین احمد مدنی کی شاگردی اختیار کی لیکن ایک عرصہ کے بعد مولانا کی بالآخر اصلیت واضح ہوئی کہ بابا صاحب کا ، مزار پر بغرض فاتحہ خوانی کے لئے جانا معمول تھا ۔ ایک دن ھسین احمد دیوبندی موقعہ پر پہنچے اور شاگرد سے مخاطب ہوئے کہ
صلاح الدین ایہاں خاک کے تو دہ پر کیوں کر انہماک و استغراق ہے ؟
مولانا ! یہاں آپ خاک کا تو وہ دیکھ رہے ہیں مگر میں یہاں سے آسمان تک نور ہی نور دیکھ رہا ہوں۔
مولانا نے جواب غیر متوقعانہ سن کر فورا مشتعل انداز میں کہا : ’’ افسوس کہ تم دیوانے ہوگئے جو ایسی با ت کہتے ہو ‘‘
اس مکالمہ کے بعد دیوبند کی اصلیت کھل کر سامنے آ چکی تھی لہذا بد دل ہو کر وہاں سے چل دیئے ۔ وہاں سے نکلنے کے بعد دنیا سے بے نیاز تمام قیودمن و تو سے آزاد صحر اصحرا جنگل جنگل مناطر قدرت الہی کا مطالعہ کرنے میںمصروف رہے ۔ چنانچہ وہ دور جو نصاب ولایت کی اصطلاح میںمجذوب یا مغلوب الحال کہلاتا ہے باباصاحب کے لئے مقدر ہوگیا جس پر نہایت ثابت قدمی سے گامزن رہے اور آپ کا روزانہ مشغلہ سیروسیاحت ، زیارات مقامات مقدسہ ، چلہ کشی ، ریاضت شاقہ اور مجاہدات بن گیا ۔
چنانچہ عرصہ تک کلیہ شریف میںدربار مخدوم علاء الدین صابر کلیری میں قیام کیا ۔ بعد میں اجمیر شریف خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے آستانہ پر کافی عرصہ تک مقیم رہے ۔ اجمیر شریف میں ہی شہر ت ہو گئی کہ آپ قائم اللیل اور صائم الدھر ہوتے ہوئے مخلوق کی خدمت کرتے ہیں ۔ بس اس شہرت نے آپ کو آمادہ کیا کہ دوسری جگہ منتقل ہوں ۔
چنانچہ بابا صاحب نے اجمیر سے رخت سفر باندھا ۔ دہلی ، لاہور ، ملتان ، سر ہند ، اور دیگر اہم مقامات مقدسہ و مزارات اولیاء اللہ پر حاضری دینا اور خدمت خلق کو اپنا معمول بنا لیا ۔
قیام آگرہ :
۱۹۳۵ء تا اکتوبر ۱۹۵۱ء تک آگرہ(بھارت ) میں قیام رہا ۔ تقریبا ۱۹۳۵ء کو آپ ابتدا میں جامع مسجد آگرہ میں قیام پذیر رہے اور شرف استعداد علمی حضرت مولانا سعادت اللہ صاحب سنبھلی اور مولانا مولوی حبیب اللہ کا بلی سے حاصل کیا۔
اب مجاہدات کا عالم شدید تر ہونے لگا اور آپ نے فرائض مشروع کے ساتھ ساتھ مخلوق کی خدمت خالق کی عبادت کو بھی اپنا نظر یہ حیات بنا لیا اور بیشتر اوقات رقت گریہ وزاری میں گذارنے لگے اور آپ کی حالت جزب بسا اوقات حلقہ بگوش اور حاضر باش حضرات کے لئے تکلیف دہ اور پریشان کن ہو جاتی ۔ کیوں کہ ااپ کسی معالج یا طبیب سے رجوع ہونا پسند نہ فرماتے ۔ دیکھا گیا ہے کہ آنکھیں مورم ہو کر پر آشوب ہوگئیں ہیں ۔ پیروں کے تلوے پھٹ کر خون آلود ہوگئے اور ہزاروں روپیہ خلق اللہ پر نثار کر رہے ہیں مگر خود کے لئے فرماتے کہ ’’ یہ ہی تکلیفیں تو میرا علاج ہیں ‘‘۔ اس عالم میں بھی کثرت صلوۃ و صیام اور شدت مجاہدات معمولات روز مرہ بن گئے تھے ۔ ساتھ ہی کتب بنیی اور مشاہدات الہی میں روز افزوں ترقی ہوتی رہی حتی کہ اتباع شریعت مجاہدات و ریاضت کی بدولت نقاہت جسمانی غالب ہونے لگی کیوں کہ ایک نان جویں ، سنوں بھڑ بہو نچہ کی اپنے لئے خوراک بنالی مگر اللہ رے قوت روحانی کی ۔ دنیاشاہد ہے کہ صلاح الدین کی زبان و تحریر معجز نمائے کلک قدرت بن گئی اور حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا ، مریضوں کو شفایابی ہونا ایک جزوزندگی بن گیا۔
توجہ اصلاحی ، توجہ اتحادی اور توجہ القائی کے ماہر بے بدل شمارکئے جانے لگے ۔ بسا اوقات اپنے نیاز مندان پر اس خوبی اور قوت باطنی کے تحت انکشاف فرمایا کرتے کہ اگر اصلاح منظور ہے تو چند لمحوں میں اصلاح ظاہری و اصلاح باطنی فردواحد کی یا جماعت کی ہوگئی ۔ اگرا تحادی مقصود ہے تو توجہ اتحادی کے مظاہرے ہو جاتے اور اگر القائی کا انکشاف چاہا تو توجہ القائی کے ذریعہ ایسا مظاہرہ ہوا کہ دنیا انگشت بد ندان ہوگئی ۔
بیعت :
آپ سلسلہ اویسیہ رکھتے تھے ۔ مزارات مقدسہ پر چلہ کشی کر کے بزرگان دین سے فیضیاب ہوئے۔
شادی واولاد :
آپ نے مجروزندگی گذاری ۔
پاکستان تشریف لانا :
۱۹۵۱ء کو پاکستان تشریف لائے اور کراچی میں کالا پل پر قیام فرمایا ۔ ایک عرصہ تک یہ معمول ہوگیا کہ کافی وقت حضرت قطب عالم شاہ بخاری ؒ کی مزار مقدس ( جامع کلاتھ ) پر گذارتے یا ایک ہفتہ دو ہفتہ کے لئے ٹھٹھہ تشریف لے جاتے اور مزار مقدس حضرت سید عبداللہ شاہ اصحابی یا حضرت شاہمراد یا حضرت شاہ کمال کے مزارات مقدسہ پر قیام فرماتے ۔
بہر ھال ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ کراچی کی خانقاہ کو مستقلا خیر باد کیا اور حیدرآباد ( سندھ ) میں سنوں بھڑ بہو نجہ آگرہ والے کے اہل خاندان کے پہاڑ کے برابر زیر یں قلعہ اپنی نشت قائم فرمالی اور ایک دور ایسا بھی آیا کہ مہینوں کے لئے سفرو حضرا ختیار کیا ۔ دور دراز علاقے ، مقدس مزارات ، شمالی علاقے پاکستان کے سیرو سیاحت میں دیکھے ۔ مزار مبارک حضرت سخی عبدالوہاب شاہ جیلانی ؒ کی روزانہ حاضری رہی ۔ بطور خاص سیوہن شریف ( ضلع دادو سندھ ) آنا جانا اور دربار حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر ؒ میں حاضری دینا اپنا مسلک خاص قرار دیا ۔حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ کی مزار مقدس پر حاضری دینے کے لئے بھٹ شاہ کا سفر کیا کرتے تھے ۔
عادات وخصائل :
سرخ و سفید چہرہ پر بھورے رنگ کی داڑھی شریف ، میانہ قد، گٹھا ہوا جسم اور آنکھیں سرخی مائل جو ارتقائی شکل میں ااکر قدرے جھکی جھکی رہتی تھیں ۔ جس کا سبب خاص محض گریہ وزاری ، کتب بنیی اور شب بیداری تھا ۔ آخر عمر میںتقریبا سب دانت الوداع کہہ گئے تھے پھر بھی چہرہ پر وہی نورانی رعب و جاہ جلال کی علامتیں نمایاں تھیں ۔ داہناشانہ مبارک قدرے دوسرے شانے سے اونچا تھا اور قیام کے وقت بائیں ہاتھ کو اپنی ران پر زور دے کر عجیب حسین انداز میں اپنے خضوع و خشوع کا مشاہدہ نماز میں فرماتے کہ دیکھنے والا خود تصویر حیرت بن جاتا ۔ ابتداء میں تہہ بند ، گھٹنوں تک کرتہ ، سر پر لنگی اور بر ہنہ پا مگر ( بید درخت کی عصائ) ہاتھ میں دستی بید جو آخر عمر تک رہا ۔ مفارقت ہند سے کچھ دن قبل سیلپر پہننے لگے تھے اور ایک کمبل میں بھی اضا فہ ہو گیا تھا مگر پاکستان میں شلوار کے بجائے تہہ بند استعمال کرنے لگے تھے جو دم آخر تک لباس رہا ۔ متوکل ، تارک الدنیا و اسباب خلیق مشفق و مہربان تھے۔
مولوی سید حامد علی جماعتی نقشبندی آگرہ والے لکھتے ہیں : ’’ میں نے مولانا ؒ کو بہت قریب سے دیکھا ہے ۔ بلا خوف تردید کے کہا جا سکتا ہے کہ مولانا اپنے زمانے کے ایک جید عالم ہی نہ تھے بلکہ وہ ایک عظیم المرتبت صوفی اور ایک اعلی پایہ کے درویش بھی تھے۔ وہ کرامت مجسم تھے ۔ صبح سے شام تک بلا مبالغہ صد ہا کرامتیں ان سے صادر ہوتیں چوبیس گھنٹے ہزاروں ہندو مسلم عقیدت مند پر وانوں کی طرح ان کے ارد گرد جمع رہتے ۔ غریب ، امیر اور بڑے چھوٹے کی ان کے یہاں کوئی تخصیص نہ تھی بلکہ سب دامن مراد بھر کر لے جاتے ۔ حق گوئی ، بے باکی اور صداقت شعاری کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے صاحبان عزو جاہ ان کے سامنے لرزہ بر اندام رہتے ۔ کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی ۔ ان کی زبان فیض ترجمان حقائق و معارف کا سر چشمہ تھی ۔ اسرار و رموز کائنات کے سوتے ہر وقت ابلتے رہتے ۔ کشف القلوب اور کشف القبوربدرجہ اتم حاصل تھا ۔ ‘‘
صبر و تحمل ، ضبط نفس ، جو دو سخا ، راضی بر رضا ، صاحب علم و حلم ، غریب پرور ، مہمان نواز ، اخلاق محمدی سے مشرف اور سادگی و عاجزی سے زندگی عبادت تھی ۔
وصال :
حضرت بابا صلاح الدین کو شہباز ولایت حضرت لعل شہباز قلندر حافظ محمد عثمان مروندی قدس سرہ الاقدس سے قلبی محبت تھی ۔ یہ اسی محبت کا نتیجہ ہے کہ آپ نے مزار مقدس کے پاس تین شب و روز گزارنے کے بعد ۲۰ ، صفر المظفر ۱۳۸۳ھ بمطابق ۱۳، جولائی ۱۹۶۳ء بروز ہفتہ بوقت تین بجے ۶۳ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ جنازہ اطہر کو بخیر و خوبی کو ٹری ( ضلع دادو سندھ ) علی الصبح لایا گیا ۔ یہ ہی طے پایا کہ جب حاجی عبدالرحمن صاحب کو ٹری میں مسجد اور مزار کے لئے وسیع و عریض قطعہ اراضی وقف کر رہے ہیں تو دوسری جگہ کی تجویز غیر مناسب ہے۔ بہرحا ل بروزاتوار بوقت گیارہ بجے دن بمقام احاطہ سندھ ٹیزی نزد اسٹیشن کو ٹری میں تدفین ہوئی ۔ مزار شریف پر عالیشان گنبد بنا ہوا ہے اور متصل خوبصورت مسجد شریف بھی ہے۔
نامورد انشور حضرت علامہ پروفیسر حامد حسن قادری مرحوم ( کراچی )نے قطعہ تاریخ وصال کہا :
ہیں یہ ہی مولوی صلاح الدین
خواب راحت میں اپنی تربت میں
زندگی میں تھے کس قدر با فیض
وقف خلق خدا کی خدمت میں
عالم و زاہد و خدا آگاہ
نیک خصلت میں پاک سیرت میں
کس قدر ابر جود و بحر کرم
کس قدر باکمال رافت میں
پائیں فضل خدائے برتر سے
جائے اعلی جوار رحمت میں
قادری نے لکھا یہ سال وفات
ہیں یہ قرب شفیع امت میں
۱۳۸۳ھ
آپ کے حالات پر مشتمل کتاب کی اشاعت پر مولانا محمد اسماعیل خان عاقل اکبر آبادی ( مدفو ن کراچی ) نے قطعہ تاریخ کہا:
تصنیف علی قدر مراتب ہے خوب
اک سالک مجذوب سے ہو کر منسوب
ہے فیض قلندر متشرع عاقل
حلق دین متین ’’ ظرف المحبوب ‘‘
[آپ کے صحبت یافتہ مرید شفیق احمد قریشی اکبر آبادی ( کراچی ) نے ’’ ظرف المحبوب ‘‘ کے نام سے ایک تفصیلی کتاب تحریرکی جو کہ ۲۶۴ صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس میں بابا صلاح الدین کے حالات ، واقعات ، ملفوظات ، کرامات وغیرہ درج ہیں ۔ اصفر علی مالک اصغر الیکٹر ک انڈسٹریز فریئر روڈ کراچی نے اس کو ۱۹۷۱ ء کو شائع کیا ۔ اس کتاب سے یہ مضمون ماخوذ ہے اور یہ کتاب برائے مطالعہ محترم شہر یار قدوسی صاحب ناظم آباد نے فراہم کی ۔ فقیران کا مشکور ہے۔]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)