آپ شیخ حسین خوارزی کے خلفاء میں سے تھے۔ شیخ محمد شریف کبروی سے خرقۂ خلافت حاصل کیا۔ ۹۹۹ھ میں خوارزم سے کشمیر آئے اور حضرت امیر کبیر ہمدانی قدس سرہ کی خانقاہ میں قیام پذیر ہوئے۔ اور مرجع خاص و عام بن گئے آپ کا جذب و استغراق اس حد تک تھا کہ نماز کے دَوران رکعتوں کی تعداد یاد نہ رہتی تھی۔
جس وقت مرزا یاد گار ایک بہت بڑا ہجوم لےکر بادشاہ اکبر سے مقابلہ کے لیے نکلا تو خطۂ کشمیر میں بڑی خونریز جنگیں شروع ہوگئیں تھیں۔ حضرت شیخ بابا ولی نے مرزا یاد گار کو لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے خطۂ کشمیر کی سلطنت شہنشاۂ اکبر کے نام لکھ دیا ہے۔ اس مقابلہ اور مجاہدہ اللہ کی قضا سے لڑنا ہے آپ کو ایسے اقدام سے باز آنا چاہیئے اور مسلمانوں کو خونریزی سے بچانا چاہیئے دوسرے طرف آپ نے اکبر کے مقرر کردہ حاکم کشمیر کو لکھا کہ میں تمہیں فتح اور کامیابی کی بشارت دیتا ہوں۔ مرزا یاد گار آپ کی اس نصیحت پر بڑا غصہ آیا۔ آپ کے کھانے میں زہر ملا دیا۔ چنانچہ آپ ۱۰۰۱ھ میں مسموم ہوکر شہید ہوگئے۔ شیخ کامل(۱۰۰۱ھ) سے آپ کا مادہ تاریخ نکلتا ہے اور تواریخ اعظمی میں لکھا ہے کہ آپ کو امیر کبیر کی خانقاہ میں دفن کیا گیا۔
کہتے ہیں آپ نے زہر آلود کھانا کھاتے وقت جب زہر ملا لقمہ اٹھایا تو ایک لمحہ کے لیے رک گئے مگر پھر قرآن پاک کی یہ آیات پڑھی۔ ذَالِکَ تقدیرالعزیزالعلیم ط (یہ تو اللہ کی تقدیر ہے) اور لقمہ منہ میں ڈال لیا۔
ایک بار کشمیری شیعوں نے مذاقاً ایک شخص کا جنازہ اٹھا کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ادھر ادھر دہاڑیں مارنے لگے کہنے لگے۔ یہ اکلوتا بیٹا والدین کے لیے سہارا تھا۔ اگر آپ دعا فرمائیں تو زندہ ہوجائے ورنہ آپ ہی اس کا جنازہ پڑھائیں تاکہ اس کی مغفرت ہوجائے آپ اس کام سے دور رہنا چاہتے تھے۔ مگر ان لوگوں کا اصرار بڑھتا گیا۔ آپ نے بادل نخواستہ جنازہ پڑھانے پر رضا مندی کا اظہار کرلیا۔ مگر ساتھ ہی اس کے والدین کو کہا کہ مجھے جنازہ پڑھانے سے معذور سمجھا تو بہتر ہوگا۔ مگر انہوں نے بھی اصرار کیا۔ آپ نے جنازہ پڑھایا۔ دوسری طرف عزرائیل علیہ السلام نے اُس کی روح قبض کرلی۔ جنازہ کے بعد تمام شیعہ حضرات مذاق کو تازہ کرنے کے لیے آگے بڑھے جنازہ کے منہ سے کپڑا اٹھایا تو اسے واقعی مردہ پایا اب وہ صحیح معنوں میں رونے لگے۔ حضرت کے پاؤں پر گر گئے اور اسے دوبارہ زندہ کرنے کو کہا۔ آپ نے فرمایا یہ تو اللہ کے حکم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مرگیا ہے۔ ہاں جنازہ ادا کرنے کے بعد اس کی بخشش کی اُمید ہوگئی ہے۔
ز دنیائے دوں شُد بخلد بریں رضا جو نبی سال تاریخ او ۱۰۰۱ھ
|
|
چو آن شیخ والی ولی متقی دگر زبدۂ فیض والی ولی ۱۰۰۰ھ
|
(خزینۃ الاصفیاء)