آپ بابا شریف نا کامی کے خلف الرشید اور حضرت شاہ حقانی قاسم کے خلیفہ طریقت تھے۔ اپنے والد سے بیعت ہوئے۔ ابتدائی سلوک کی تعلیم آپ کے زیرِ نگاہ حاصل کی۔ مگر آخر کار حضرت حقانی قاسم کی زیر تربیت رہ کر تکمیل کی۔
ایک بار حضرت بابا زاہد نماز تہجد ادا کرنے کے لیے اپنے چند خادموں کو لیے اپنے پیر و مرشد قاسم حقانی کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے روانہ ہوئے چند خادم چراغ ہاتھ میں لیے ساتھ ساتھ تھے۔ طوفان بادو باران نے آگھیرا چراغ بجھ گئے۔ حضرت نے اپنا انگوٹھہ ہونٹوں سے لگایا۔ اور شمع کی طرح روشن کرکے راہنمائی کرتے گئے اور حضرت بابا قاسم کی خانقاہ تک جا پہنچے۔ حضرت قاسم نے دیکھا تو غصہ سے فرمایا اگر تم اتنے بے صبر تھے۔ کہ راستہ میں کرامتیں دکھاتے پھرتے ہو۔ تو ہوا کو حکم کیوں نہیں کردیا کہ تمہارا اپنا چراغ گل کردیتی تاکہ لوگ تیرے اس ریا کارانہ عمل سے بچ جاتے اب تم اپنی کرامت دکھانا چند دنوں بعد ایک عضب ناک آگ بھڑکی جس سے بابا زاہد کا مکان جل کر راکھ ہوگیا اور ان کی کوئی کرامت سامنے نہ آئی آپ اندر گئے اور ایک صندوق اٹھانا چاہا تھا۔ کہ چھت کے جلتے ہوئے تختے سر پر گرے اور آپ جل کر خاکستر ہوگئے۔ تواریخ اعظمی نے یہ سانحہ ۱۰۸۲ھ میں لکھا ہے۔
کرد رحلت چو زین جہاں فنا رحلتش نیک بخت کن تحریر ۱۰۸۲ھ
|
|
درجہاں شیخ زاہد اہل فلاح ہم بخواں شیخ زاہد اہل فلاح ۱۰۸۲ھ
|
(خذینۃ الاصفیاء)