شیخ ابراہیم بن حسین بن احمد بن محمد بن احمد بن بیری مفتی مکہ مکرمہ الشہیر بہ بیری زادہ: اکابر فقہاء حنفیہ میں سے فقیہ فاضل،محدث کامل،مجدد مآثر علوم، ماہر متجر،نقلِ احکام و تحریر مسائل میں متحری،حرمین میں علمِ فتویٰ یگانۂ زمانہ،مطالعۂ کتب میں منہمک،کل ولایات کے علماء کے نزدیک جلالت و فضیلت کے ساتھ مشہور تھے۔علوم اپنے چچا محمد بن بیری اور عبد الرحمٰن مرشید وغیرہ سے پڑھے اور حدیث کو ابن علان وغیرہ سے اخذ کیا اور بہت سے مشائخ نے آپ کو اجازت دی۔آپ کی تصنیفات ستر سے زیادہ ہے جن میں سے حاشیہ اشباہ والنظائر مسمی بہ عمدۃ ذوی البصائر شرح مؤطا امام محمد دو جلد میں شرح تصحیح قدوری مؤلفہ شیخ قاسم،شرح منسک الصغیر مؤلفہ ملا رحمت اللہ رسالہ فی جوازا العمرہ فی اشہر الحج،شرح منظومہ ابن شحنہ درباب عقائد،سیف المسلول فی دفع الصدقۃ لآل الرسول،رسالہ دربارہ مسک وزباد،رسالہ دربارۂ جمرۃ العقبہ،رسالہ دربارہ اشارہ سبابہ،رسالہ دربارہ بیض الصید اذدخل الحرم، رسالہ دربارہ عدیم جواز تلفیق ہیں۔اس اخیر کے رسالے میں آپ نے اپنے ہم عصروں مکی بن فروخ وغیرہ کا خوب رد کیا ہے۔
ولادت آپ کی مدینہ منورہ میں کچھ اوپر ۱۰۲۰ھ میں ہوئی اور یکشنبہ کے روز شوال ۱۰۹۹ھ میں وفات پائی اور معلاۃ میں قریب حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دفن کیے گئے’’شیخ عالی محل‘‘ تاریخ وفات ہے۔کہتے ہیں کہ آپ کو موت سے بڑا قلق تھا پس آپ نے آنحضرتﷺکو خواب میں دیکھا کہ آپ فرماتے ہیں یا ابراہیم مُت فان لک بی اسوۃ حسنۃ،پس آپ نے عرض کی کہ اس شرف سے مرتا ہوں کہ ہر سال حج کا ثواب میرے لیے لکھا جائے،حضرت نے فرمایا کہ ایسا ہی ہوگا۔
(حدائق الحنفیہ)