آپ بہت ہی بزرگ اور بڑی مستجاب الدعوات تھیں۔ شیخ فرید الدین نے جب اجودھن میں سکونت اختیار کرلی تو شیخ نجیب الدین متوکل سے کہا جاؤ ہماری والدہ محترمہ کو دہلی سے لے آؤ شیخ نجیب الدین دہلی روانہ ہوگئے چنانچہ شیخ گنج شکر کی والدہ کو لارہے تھے کہ راستہ میں پیاس لگی، آپ ان کو کسی درخت کے سایہ میں بٹھا کر خود پانی کی جستجومیں نکلے، واپس جب آئے تو دیکھا والدہ موجود نہیں ہیں، پریشان ہوگئے اور تمام واقعہ شیخ فرید الدین سے جاکر بیان کردیا۔ شیخ فرید الدین نے ایصال ثواب کے لیے کھانا پکوانے کا حکم دے دیا کچھ عرصہ بعد شیخ نجیب الدین کا اس راستہ سے گزر ہوا جب اس درخت کے پاس آئے تو خیال آیا کہ شاید والدہ کا کچھ پتہ ملے لیکن اس درخت کے نیچے ان کو کچھ ہڈیاں ملیں جو آدمی کی معلوم ہوتی تھیں انہوں نے ان ہڈیوں کو اٹھا کر اپنے تھیلہ میں ڈال لیا اور دل میں کہا والدہ ماجدہ کو شاید کسی شیر نے مار ڈالا غرض کہ وہ ہڈیوں کا تھیلہ لیے شیخ کے پاس آئے اور پھر پورا ماجرا بیان کیا، اس پر شیخ گنج شکر نے فرمایا، لاؤ تھیلا لاؤ جب وہ تھیلا کھول کر جھٹکا گیا تو اس میں سے ہڈی کا چورا تک نہ نکلا۔
اخبار الاخیار