آپ وقت کی عارقہ کاملہ تھیں، اس قدر عالم و فاضل تھیں کہ مجلس میں بیٹھتیں اور منہ پر پردہ ڈال کر نہایت خوش الحانی سے وعظ کہتیں وقت کے عابد، زاہد، عارف اور علماء آپ کی مجلس میں حاضر ہوتے اور آپ کے مواعظ سے مستفیض ہوتے کہتے ہیں کہ آپ دوراں وعظ بڑی رویا کرتی تھیں، لوگوں کو ڈر ہوا کہ کہیں بصارت سے محروم نہ ہوجائیں، آپ فرمایا کرتی تھیں دنیا میں اندھا ہونا بہتر ہے کہ قیامت کے دن نابینا اٹھا جائے، بوڑھی ہوئیں تو شیخ فیضل ابن عیاض آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے دعا کی التجا کی، آپ نے فرمایا: فیضل، کیا تمہارے اور اللہ کے مابین ایسا مسئلہ ہے جو میں دعا کروں تو قبول ہو، حضرت عیاض نے بات سن کر نعرہ مارا بے ہوش ہوگئے۔
بی بی شعوانہ کی وفات سکینۃ الاولیاء نے ۱۷۵ھ لکھی ہے۔
چو شعوانہ از دار دنیا برفت بتاریخ ترحیل آں نیک ذات
|
|
شدہ زیب خلد اندر جناں نعیمہ۔ معینہ۔ یقینہ بخواں ۱۷۵ھ ۱۷۵ھ ۱۷۵ھ
|
(حدائق الاصفیاء)