بی بی تحفہ قدس سرہ
بی بی تحفہ قدس سرہ (تذکرہ / سوانح)
آپ کاملات، عارفات، فاضلات اور واصلات میں سے تھیں حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک رات بڑا مضطرب تھا مجھے رات بھر نیند نہ آئی میں اٹھا اور گھر سے باہر جا نکلا، میں نے سرکاری ہسپتال (شفاخانہ) کا رخ کیا تاکہ وہاں مصیبت زدہ لوگوں کو دیکھ اپنا اضطراب اور غم ہلکہ کرسکوں مجھے وہاں ایک ایسی لڑکی دکھائی دی جو حسن صورت سے مزین تھی، خوبصورت کپڑے پہنے ہوئے تھے اور اس سے مہک آ رہی تھی لیکن بایں ہمہ اس کے دونوں ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے مجھے دیکھتے ہی زار و قطار رونے لگی، اور بڑے درد ناک اشعار پڑھنے لگی، میں نے ہسپتال کے نگران سے پوچھا کہ یہ کون لڑکی ہے اس نے بتایا یہ ایک امیر آدمی کی کنیز ہے جو پاگل ہوگئی ہے اس امیر آدمی نے اسے ہسپتال میں داخل کرایا ہے اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں، میں نے لڑکی سے حال پوچھا تو اس نے مجھے چند اور اشعار سنائے جن میں توحید معرفت بھری ہوئی تھی، میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ پاگل نہیں، یہ تو عاشقان الٰہی میں سے ہے میں اس کی حالت زار پر بڑا رویا، مجھے پوچھنے لگی کہ سقطی تم کیوں رو رہے ہو، میں نے پوچھا تمہیں میرا نام کس نے بتایا ہے کہنے لگی جس نے تجھے یہاں پہنچایا ہے اسی نے مجھے نام سکھایا ہے میں پھر ہسپتال کے نگران سے ملا اور کہا اس لڑکی کو چھوڑ دو یہ بیمار نہیں ہے اس نے میری بات سنی اسے کھول دیا اور کہا تم جہاں چاہو جاسکتی ہے، وہ کہنے لگی سری! میں کیسے جاسکتی ہوں میں ایک امیر آدمی کی کنیز ہوں میرے حقیقی مالک نے ایک مجازی مالک کے قبضہ میں دے رکھا ہے اگر وہ اجازت دے دے تو میں چلی جاؤں گی، ورنہ مجھے صبر کرنا ہوگا ہم یہی باتیں کر رہے تھے کہ اس لڑکی کا مالک آپہنچا، اور اس نے ہسپتال کے نگران سے دریافت کیا کہ تحفہ کہاں ہے، اس نے بتایا کہ فلاں کمرے میں ہے اور سری سقطی اس کے پاس بیٹھے ہیں وہ بڑا خوش ہوا، اندر آیامجھے سلام کیا بڑی عقیدت سے پیش آیا سری سقطی فرماے ہیں میں نے اس امیر آدمی کو کہا یہ لڑکی عقیدت اور احترام کی مستحق ہے یہ کس گناہ کی پاداش میں پابند سلاسل ہے اس نے بتایا یہ پاگل ہوگئی نہ کھاتی ہے نہ سوتی ہے حتی کہ اس نے میری بھی نیند حرام کردی ہے میری زندگی کا سارا اثاثہ یہی ایک لڑکی ہے میں نے اسے بیس ہزار درہم دے کر خریدا تھا مجھے امید تھی کہ خوش شکل ہے خود اندام ہے پھر خوش آواز ہے یہ مجھے سکون دے گی، اگر فروخت کروں گا تو نفع دے گی ایک رات یہ گانا گا رہی تھی ناگاہ رونے لگی ساز توڑ دیے اور دیوانہ ہوگئی۔
حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس امیر آدمی کو کہا کہا س کنیز کی کی قیمت مجھ سے وصول کرلو، بلکہ کچھ نفع بھی لے لو، وہ کہنے لگا آپ ایک درویش انسان ہیں، اتنا روپیہ کہاں سے ادا کرو گے حضرت سقطی نے فرمایا تم یہاں ٹھہرو میں روپیہ لاتا ہوں خود روتے روتے اپنے گھر گئے، اس وقت آپ کے پاس ایک روپیہ بھی نہ تھا اللہ کی بارگاہ میں گر پڑے روتے روتے کہنے لگے، اے اللہ، میں نے اس دنیا دار سے خالی ہاتھ سودا کرلیا ہے، مجھے اس کے سامنے شرمسار نہ کرنا اسی وقت کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، آپ اٹھے تو دیکھا کہ آپ کا ایک دوست تھا اور کہنے لگا آج مجھے خواب آئی ہے اور ہاتف نے آواز دی ہے کہ سونے سے بھری ہوئی چند تھیلیاں لے جاکر آپ کی خدمت میں پیش کروں، اور آپ کو خوش کروں تاکہ وہ تحفہ کو خرید سکیں حضرت سری سقطی فرماتے ہیں، اُس کی بات سن کر میں سجدہ میں گر پڑا، سونے سے بھری ہوئی تھیلیاں اٹھائیں اور ہسپتال اس امیر آدمی کے سامنے جا رکھیں، ہسپتال کے نگران نے دیکھتے ہی کہا سقطی، مرحبا!آؤ، تحفہ تو اللہ کی نیک بزرگ ہے اس کا مرتبہ بڑا بلند ہے مجھے آج ہی ہاتف نے آواز دی ہے کہ تحفہ ہماری برگزیدہ بندیوں سے ہے یاد رکھو، اسے کوئی تکلیف نہ ہو، اسی اثنا میں تحفہ کا مالک آگیا وہ رو رہا تھا میں نے پوچھا کہ یہ رونا کیسے ہے میں تحفہ کی قیمت اور اس پر تمہارا منافع پیش کرنے آیا ہوں میں قیامت کے علاوہ پانچ ہزار نفع دے رہا ہوں وہ کہنے لگا میں نے اسے اللہ کے لیے آزاد کردیا ہے آپ گواہ رہیں، میں سارے مال سے دستبر دار ہو رہا ہوں مجھے اگرچہ رات ہاتف نے سرزنش کی ہے اور حکم ہوا ہے کہ تم تو اس دنیا سے ہماری طرف آ رہے ہو کنیزوں کی خرید و فروخت میں کیا لو گے ہسپتال کے نگران نے کہا: میں بھی آج سے تمام مال و دولت سے دست بردار ہوتا ہوں، اس کا نام احمد بن مثنیٰ تھا، وہ یاد الٰہی میں مشغول ہوگیا۔
تحفہ آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے خوبصورت کپڑے اتار دیے اور غریبوں کو دے دیے اور خود بور یا پہن لیا اور دیکھتے دیکھتے گم ہوگئی حضرت سری سقطی فرماتے ہیں میں نے اسے تلاش کیا مگر وہ سارے شہر میں کہیں نہ ملی، کچھ عرصہ کے بعد میں نے حج کا ارادہ کیا احمد بن مثنیٰ اور وہ امیر آدمی جس نے تحفہ کو آزاد کیا تھا، بھی میرے رفیق سفر ہے ہم تینوں سفر حج پر روانہ ہوئے احمد تو راستے میں فوت ہوگئے اور تحفہ کا سابقہ مالک بیت اللہ شریف پہنچے طواف کرتے کرتے ایک طرف سے مجھے ایک درد ناک آواز سنائی دی، اس آواز سے کان آشنا تھے وہ وہی شعر پڑھ رہی تھی، جو میں نے کبھی سنے تھے میں اس آواز کے پاس گیا دیکھا تو ایک خستہ حال عورت بیٹھی تھی، مجھے کہنےلگی سری تمہارا کیا حال ہے مجھے پہنچانو، میں وہی تحفہ ہوں جسے تم نے آزاد کردیا تھا حضرت سری فرماتے ہیں تحفہ اپنی جوانی اور صحت سے محروم ہوچکی تھی، ضعیف بیمار اور نحیف تھی، میں نے کہا تم نے ہم سے بھاگ کر کیا کمایا کہنے لگی، اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی قربت کی قوت دی ہے اور اپنے غیروں سے بے نیاز کردیا میں نے کہا ہسپتال کے نگران احمد بن مثنیٰ بھی آرہے تھے، وہ تو راستہ میں فوت ہوگئے کہنے لگی، رحمۃ اللہ علیہ اسے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمتوں سے اتنا مالا مال کیا ہے کہ کوئی آنکھ آج تک نہیں دیکھ سکی تھی وہ بہشت میں میرا ہمسایہ ہے اورخوش خوش رہتا ہے میں نے کہا تمہارا آقا بھی امسال میرے ساتھ حج کرنے آیا ہے اس نے آنکھیں اٹھاکر دیکھا زیر لب دعا کی اور کعبۃ اللہ کے سامنے ہی گر پڑی میں نے دیکھا کہ اس کا وصال ہوچکا ہے امیر آدمی نے جب اُسے مردہ دیکھا تو اس کی لاش پر گر پڑا، اور رونے لگا میں نے اسے اٹھانا چاہا، مگر وہ بھی فوت ہوچکا تھا میں نے ان دونوں کی تجہیز و تکفین کی اور دفنا دیا۔
یہ واقعہ ۲۲۵ھ میں ہوا تھا۔
تحفۂ آں والی ولایت دل |
|
بود عالی ولیہ محمودہ |
(حدائق الاصفیاء)